انتخابات ‘ نتائج ‘ حقائق ‘ مستقبل کی حکومت اور قوم کی ضرورت !

انتخابی عمل شکوک و شبہات ا ور خدشات کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بخیروعافیت تکمیل پذیر ہوچکا ہے اور چند ایک واقعات کے علاوہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان وکراچی سمیت تشدد اور دہشت گردی کی ایسی کوئی بڑی واردات نہیں ہوئی جیسا کہ خدشات ظاہر کئے جارہے تھے یا تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے بیانات سامنے آرہے تھے۔ اسلئے یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ انتخابات کے دوران اس امن و امان ے حوالے سے مبارکباد نگراں حکومت کو دی جائے ‘ مسلح افواج کے کھاتے میں ڈالی جائے ‘ عدلیہ کو اس کا کریڈٹ پہنچایا جائے ‘ الیکشن کمیشن کو اس کا ذمہ دار ٹہرایا جائے یا طالبان کا شکریہ ادا کیا جائے ۔

بہر کیف اللہ کا فضل اور اس قوم پر رحم ہے کہ انتخابات کے دوران امن برقرار رہا اوراللہ نے یہ رحم اس پاکستانی قوم پر اسلئے کیا کہ اس قوم نے طویل عرصہ کے بعداپنا مقدر سنوارنے کی ٹھانی اور جب کوئی قوم اپنی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کرلے تو رب کی رضا اسکے شامل حال ہوجاتی ہے اور پاکستان میں انتخابات 2013ءاس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم کا مقدر بدلنے کا فیصلہ انتخابات میں امن کا باعث بن گیا اسلئے حقیقت میں پر امن انتخابات پر پاکستانی قوم مبارک و تحسین کی مستحق ہے اور حق رائے دہی کے فریضے کی ادائیگی کیلئے تمام تر خطرات کے باوجود گھروں سے نکلنے والے بزرگوں ‘ جوانوں ‘نوجوانوں اور خواتین نے اس ملک کو مثبت سمت دینے اور مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے اپنے کردار کی ادائیگی کا جو عزم اور اس عزم پر عملدرآمد کیا ہے اس پر پوری پاکستانی قوم خراج تحسین کی مستحق ہے ۔

انتخابات ہوچکے ہیں اور آنے والے متوقع و برخلاف نتائج پر ہر حلقہ اپنی بساط کے مطابق اپنا اپنا تجزیہ اور تبصرہ پیش کررہا ہے کچھ حلقے انتخابی نتائج کو عوامی فیصلہ کہہ رہے ہیں ‘ کچھ پنجاب سے پیپلز پارٹی کے خاتمے کو کارکردگی کا انعام بتا رہے ہیں اور کچھ اسے آنے والے انقلاب کی نوید قرار دے رہے ہیںمگر نتائج بتارہے ہیں کہ تجزیہ نگاروں اور تبصرہ نگاروں کی رائے کا احترام تو کیا جاسکتا ہے مگر ان پر اعتبار ممکن نہیں ہے کیونکہ انتخابات میں عوام کا عزم ومورال ‘ ان کی دلچسپی اور قیادت کے انتخاب میں عوامی شعور کے مظاہرے نے انقلاب و تبدیلی کی نوید دی تھی مگر انتخابی نتائج کو تبدیلی تو کہا جاسکتا ہے مگر انقلاب نہیں کیونکہ چہروں کی تبدیلی سے پاکستان کبھی نہیں بدل سکتا اور نہ ہی عوام کا مقدر بدلے گا ۔
انتخابی عمل کی شفافیت پر جیتنے والی جماعتوں کے علاوہ دیگر تمام جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار اور کئی حلقوں میں امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بائیکاٹ سے کھلنے والے ”پول“ کے علاوہ آل پاکستان مسلم لیگ نے انتخابی نتائج کو انجینئرڈ رزلٹس قرار دے دیا ہے جس کے بعد قرائن بتارہے ہیں کہ عجلت میں کرائے جانے والے انتخابات اور 62و 63پر عملدرآمد کے شوروشرابے کی تدفین کے بعد شفافیت کے پاک انتخابات کے ”طے شدہ نتائج “ کا مقصدپرویز مشرف پر ریاست کی جانب سے غداری کا مقدمہ چلانے کی راہ ہموار کرنا ہے اور اس حوالے سے چونکہ نواز شریف کا موقف مکمل طور پر واضح ہے اسلئے اقتدار کے ہما کو”میاں “ صاحب کے سرپر بٹھانے کا مکمل انتظام کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخواہ سے عوامی نیشنل پارٹی کا مکمل خاتمہ انتہائی حیرت انگیز امر ہے اسے کارکردگی یا عوام کا عدم اطمینان کہنا کسی بھی طور درست نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں سے مولانا فضل الرحمن کی فتح اس بات کی نفی کررہی ہے جبکہ پنجاب و سندھ کے شہری علاقوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت و کامیابی کو تو شاید عوام کی ”خواہش تبدیلی “ کہا جاسکتا ہے مگر خیبر پختونخواہ میں جہاں لوگ قبیلوں سے جڑے ہوتے ہیں اور جرگوں کی احکامات کی تعمیل کے پابند ہوتے ہیں تحریک انصاف کی فتح کو محض ”خواہش تبدیلی “ کا نام دینا یقینا ان حلقوں کے ساتھ نا انصافی ہوگی جنہوں نے مسلم لیگ نواز کو سادہ اکثریت دلاکر مرکز و پنجاب میں اس کی حکومت سازی کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ خیبر پختونخواہ میں اپنی نگاہ کرم اور دست شفقت تحریک انصاف پر رکھ کر خیبر پختونخواہ میںتحریک انصاف کو حکومت سازی کا موقع دیا ہے کیونکہ آل پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے لگایا جانے والا یہ الزام ”پاکستان کے عوام کا مینڈیٹ ایکبار پھر چرا کر تبدیلی و انقلاب کی عوامی کوشش کو سبوتاژ کردیا ہے“ مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

بہرحال انتخابات ہوچکے ہیں ‘انتخابی نتائج کے تحت مرکز اور پنجاب میں تو مسلم لیگ یقینی طور پر حکومت بناتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ بلوچستان میں بکھری ہوئی نمائندگی اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ بلوچستان میں مرکز کا عمل دخل موجود رہے گا اور وہاں کی حکومت مسلم لیگ (ن) کی سرپرستی میں ہی تشکیل پائے گی ۔خیبر پختونخواہ میں یوں تو تحریک انصاف حکومت بناتی دکھائی دے رہی ہے مگر یہ اس صورت ممکن ہے جب ”میاں صاحب “ اسے حکومت بنانے دیں کیونکہ تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے کو کفر قرار دینے والے مولانا فضل الرحمن کے پاس اتنی سیٹی ہیں کہ وہ مسلم لیگ (ن) اور آزاد امیدواروں کو دانا ڈال کر کے پی کے کے وزیراعلیٰ ہاؤس پر قابض ہوسکتے ہیں مگر اس صورت انہیں انتہائی مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کی حکومت بہت جلد تحریک عدم اعتماد کا شکار ہوکر منطقی انجام سے دوچار ہوجائے گی جبکہ سندھ میں ماضی کے حلیف پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے مگر اس میںقباحت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی وزیراعلیٰ یا وزیرداخلہ کا عہدہ متحدہ کو دینے کیلئے تیار نہیں ہوگی اور قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی سیٹیں اس قدر محدود ہوچکی ہیں کہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت کے باجود اب آصف علی زرداری کیلئے عہدہ صدارت پر برقرار رہنے کیلئے اعتماد کے ووٹ کا حصول تقریباً نا ممکن ہوچکا ہے اور اس صورتحال میں پیپلز پارٹی متحدہ کے گورنر کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی بھی نہیں کراسکتی اسلئے متحدہ کو مرکز میں لامحالہ مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرنی ہوگی جبکہ مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی مرکز میں اپنی مضبوطی اور سندھ میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کیلئے متحدہ کی حمایت کا حصول لازم ہے ۔

انتخابی نتائج کے مطابق مستقبل کے سیاسی حالات اور ان کے پس پردہ کارفرما محرکات و ہاتھ دونوں ہی عیاں ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف مستقبل کے وزیراعظم اور حمزہ شہباز مستقبل کے وزیراعلیٰ پنجاب ہیں جبکہ سندھ میں اگر ”ڈیل “ کامیاب ہوگئی تو وزیراعلیٰ سندھ کا قرعہ ”ٹپی “ کے نام نکلتا دکھائی دے رہا ہے تو دوسری جانب وزارت داخلہ متحدہ کے پاس آتی دکھائی دے رہی ہے ۔

ان حالات میں ہم محب وطن پاکستانی اور غیر جانبدار صحافی کی حیثیت سے یہی دعا کرسکتے ہیں کہ جو بھی حکمرانی میں آئے وہ عوام سے مخلص ‘ ملک و قوم کا وفادار و محب وطن ‘ تعلیم یافتہ و دانشمند ہونے کے ساتھ چاپلوسی سے نفرت کرنے والا بھی ہو کیونکہ حکمران برے نہیں ہوتے ان کے اور عوام کے درمیان حائل ہوکر حکمرانوں و گمراہ کرنے والے ہی در اصل مسائل و مصائب اور بحرانوں کی وجہ ہوتے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ میاں نواز شریف اس بار سابقہ روایات کا خاتمہ کرتے ہوئے اشتراک و اتحاد اور مفاہمت کی سیاست کے ساتھ اداروں کے احترام اور ان کی تعمیرومضبوطی میں بھی اپنا کردارادا کریں گے اور پاکستان کے عوام نے ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا ہے‘ میاں صاحب ان کی ادائیگی میں پوری طرح دیانتدار ‘ محب وطن اور مخلص و عوام دوست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں پالیسیاں تشکیل دے کر پاکمتان اور اس کے عوام دونوں کو بحرانوں سے نجات دلاکر استحکام و ترقی کی شاہراہ کی جانب لے جائیں گے اور ان کی اولین ترجیحات میں امن کا قیام اور روزگار کی فراہمی کے ذریعے عوام کے معیار زندگی میں اضافہ کرنا ہوگا جبکہ وہ روایتی سیاسی جماعتوں کی طرح وی آئی پی کلچر کو فروغ دے کر سرکاری خزانے پرسفید ہاتھی بننے کی بجائے سادگی اپناکر ملک میں انصاف و مساوات کا معاشرہ بھی قائم کریں گے اور عوام کو بد امن و دہشتگردی سے نجات بھی دلائیں گے اور یقین جانئے کہ اگر میاں نوازشریف اپنے ظاہر کردہ خلوص میں سچے ہیں تو اس کی صداقت کا ثبوت اپنے عمل سے دیں گے اور عوام کی تقدیر بدل جائے گی ۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 131605 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More