آستین کے سانپ

ایک طرف صدرپاکستان ‘ہِز ایکسیلینسی‘ آصف علی زردای صاحب امریکہ کے دورے پر ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ‘غیرمحفوظ‘ ہونے کا شوشہ بھی چھوڑ دیا ہے کہ جس طرح ‘طالبانوں‘ کی پیش قدمیاں جاری ہیں اس سے نظر آتا ہے کہ کل کلاں کو وہ ‘چاغی‘ پر بھی پہنچ جائیں گے-

سب سے پہلی بات تو دیکھنے کی یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی ‘ایٹمی ملک‘ ہے یا نہیں؟ ‘چاغی دھماکے‘ سچی مچی ایٹمی دھماکے ہی تھے یا وہ ہائی ویلیو قسم کے کوئی ‘پٹاکے‘ تھے؟ واضح ہو کہ یہ دھماکے دراصل بھارت کے دھماکوں کے ردِعمل میں کیے گئے تھے، اس بات کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ پٹاکے یا دھماکے دراصل بھارت کو ڈرانے کے لیے کئے گئے تھے کہ خبردار جو ہماری طرف دیکھنے کی جرات کی- علاوہ ازیں، چونکہ پاکستان سے ڈرتا ہی کوئی نہیں ہے، حتیٰ کہ افغانستان جیسا سنگلاخ و بنجر و غریب ملک بھی اس کے سامنے ایسے بولتا ہے جیسے پاکستان نہیں بلکہ وہ خود ایٹمی ملک ہو (یہ دوسری بات کہ اتحادیوں کی موجودگی میں افغانستان سپرپاور ہے)- نیز اگر کسی کے پاس ‘اسلحہ‘ ہو تو کسی کی مجال نہیں ہوسکتی کہ وہ اس سے خوف نہ کھائے یا کچھ کہنے یا بولنے سے پہلے نہ سوچے، لیکن پاکستان کے ساتھ ایسا نہیں ہے، لہذا پاکستان ‘میڈیائی‘ ایٹمی ملک نظر آتا ہے-

چند لمحات کے لیے ہم نے فرض کر لیا کہ پاکستان ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کا ‘طالبانوں‘ کے ہاتھ لگنے کا خدشہ بھی ہے، تو سوال یہ ہے کہ امریکہ کے پاس کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ وہ ان جوہری اثاثوں کی حفاظت کرنے کے قابل ہے؟ ایسا ملک جو نو سال کے باوجود، عراق و افغانستان پر کلی جسمانی قبضہ کرنے کے باوجود ایک اسامہ شخص کو نہیں تلاش کر سکا لیکن دنیا کو اس کی تلاش کی آڑ میں‘عدم تحفظ‘ میں مبتلا کر رکھا ہو، وہ کیونکر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا ‘محافظ‘ بن سکتا ہے؟ مزید برآں، ‘چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے‘ کے مصداق اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ امریکہ خود ہی ان جوہری ہتھیاروں کو نہ ‘استعمال‘ کر ڈالے کہ یہ اپنی تاریخ میں ایسے دو تجربے پہلے بھی کرچکا ہے؟

اس وقت پاکستانی عوام اور سیاستدانوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، پہلے گروپ کے خیال میں امریکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے، امن و امان کی خاطر، اور انسان دوستی کی خاطر ‘طالبان‘ کے خلاف نبرد آزما ہے- جبکہ دوسرے گروپ جس میں خاکسار بھی شامل ہے، کا کہنا ہے کہ ‘طالبان‘ بھی اسامہ کی طرح ایک خیالی تصویر ہے جس میں ‘استعمار‘ نے اپنے ‘ایجنٹ‘ شامل کر کے یا ‘ڈالروں‘ کے عوض مقامی لوگوں کو خرید کر اور میڈیا کی آشیر باد سے اس تصویر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے، باالفاظ دیگر، ‘عالمی سامراج‘ نے پاکستانی عوام کو گُھگھو سمجھا ہوا ہے کہ وہ سازشیں دیکھ نہیں سکتے، وہ بہت بھولے بھالے اور سیدھے سادھے ہیں- اسی طرح پہلا گروپ امن امان کی خاطر، خودکشں دھماکوں کو روکنے کی خاطر، دہشتگردی ختم کرنے کی خاطر ‘استعمار‘ کو پاکستان کے اندر در کروانا چاہتا ہے جو کہ کسی بھی طرح دھرتی سے محبت کا تقاضا نہیں رکھتا- جبکہ دوسرا گروپ اور حکومت پاکستان، پاکستان کو غیرملکیوں یعنی ‘طالبانوں‘ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ بات حکومت کی خارجہ پالیسی میں بھی نظر آتی ہے جیسا کہ رحمان ملک صاحب نے کہا ہے کہ ‘طالبانوں‘ کو اسلحہ اور آتشیں ہتھیار افغانستان سے مل رہے ہیں- اسی طرح سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے میں بھی ایک ‘افغانی‘ گرفتار ہوا تھا-

جب اپنے ہی ‘پرائے‘ بن جائیں، جب اپنے ہی غیروں کو نوازنے لگ جائیں، جب بھائی بند ہی کسی لالچ و مفاد و عہدوں کے لیے ‘دشمنوں‘ کا کام آسان کرنے لگ جائیں تو پھر ملک کا خدا ہی حافظ نہ ہو تو پھر کیا ہو؟ اگر گھر میں لڑائی جھگڑا ہو جائے تو کوئی بھی ہمسائے کو اس جھگڑے میں شامل نہیں کرنا چاہے گا کہ گھر کی بات گھر تک ہی رہنی چاہیے باہر نہیں نکلنی چاہئے- اگر ‘ملائیت‘ مسئلہ ہے تو یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے، ہمارے گھر کا مسئلہ ہے، ہم خود ہی اس کو حل کریں گے، کہ ہم ان کے زیادہ قریب ہیں، ان کی نفسیات و معاشرت وغیرہ کو ہم دوسروں سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں- غیروں کو کیوں آواز دی جائے کہ آؤ ہمیں بچاؤ؟ گھر میں اگر لڑائی جھگڑا ہو جائے تو کوئی بھی نہیں پسند کرے گا کہ ان کی آوازیں باہر گلی تک سنائی دیں، کوئی نہیں چاہے گا کہ وہ ‘تماشا‘ بنیں، عزتِ نفس بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی-

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان آستین کے سانپوں نے پہنچایا ہے- پاکستان کو ‘استعمار‘ کے نرغے میں پھنسانے میں انہی سانپوں نے اہم کردار ادا کیا ہے- ملکی تاریخ کی سب سے بڑی اور واحد خالصتاً سیاسی و نظریاتی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کے بعد سب سے پہلے انہی سانپوں کو کبھی انکی پسند کی وزارتیں دے کر، کبھی معطل سی جے کی معطلی ختم کرکے ‘رام‘ کرنے کی کوشش کی اور ملک میں ‘سیاسی یکجہتی‘ پیدا کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ یہی وہ اولین فارمولا ہے جس سے پاکستان بھنور سے باہر نکل سکتا ہے- لیکن بدقسمتی سے ان سانپوں کے پیٹ بھرنے ہی میں نہیں آتے- ایک جماعت اسلامی ہے جسکی سیاست کا محور ہی ہمشیہ سے ‘نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘ رہا ہے، یہ کبھی ٹِک کر بیٹھی ہی نہیں، افراتفری قائم رکھنا ہی اسکی سیاست ہے، رنگ میں بھنگ ڈالنے میں اسکا کوئی ثانی نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ جس امریکہ نے اس کو پیدا کیا اسی کے خلاف بولنا ترک نہیں کرتی حالانکہ اس کی امریکہ دشمنی صرف ‘چور مچائے شور‘ ہی ہے- دوسری طرف سرمایہ داروں کے ٹولے، تاجروں، بینکروں، آڑھتیوں اور بزنس مینز کے جتھے پر مشتمل ن لیگ ہے جو اپنی مردہ اور ‘سرمایہ پرستانہ‘ سیاست میں جان ڈالنے کے لیے گڑھے مردے اکھاڑتی ہے، ‘منافع‘ لینے کی خاطر اسی عدلیہ کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیتی ہے، اسی عدلیہ کو ‘بحال‘ کروانے کے لئے لانگ مارچ کر ڈالتی ہے جس عدلیہ پر یہ خود دن دھاڑے مسلح حملہ میں مرتکب پائی جاتی ہے-

تیسری طرف، ایک چھوٹا سا لسانی گروہ ہے جسکی ‘دھاک‘ صرف کراچی تک ہی محدود ہے یعنی ایم کیو ایم، اس کو چوبیس گھنٹے اپنے ‘فتح‘ کئے ہوئے ‘کراچی‘ کے ہاتھوں سے پھسل جانے کا ہی خطرہ رہتا ہے، ہر وقت وہاں پر ‘ٹیلیفونک خطابوں‘ کا ہی دور دورہ رہتا ہے اور وہ بھی کن معاملوں میں؟ جی ہاں، ان معاملوں میں جن سے اس کے نمبر ٹنگے جائیں، جس سے اسکو ہمدردیاں مل سکیں- لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان آخری سانسیں لے رہا ہے لیکن ان کو اپنی سیاست چمکانے سے ہی فرصت نہیں ہے- کراچی میں ‘طالبانزیشن‘ کا بغیر سانس لئے ڈھنڈورا پیٹ کر سب سے زیادہ نقصان اسی ایم کیو ایم نے پہنچایا ہے، پاکستان کو ‘پُل صراط‘ تک لے جانے میں ‘پیر آف لندن شریف‘ کا بہت بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے کراچی میں ‘طالبانائزیشن‘ کا اس بہتات و تواتر سے ڈھول پیٹا کہ وہ ‘سچ‘ پر گمان ہونے لگا اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو آج ایٹمی اثاثوں کی فکر دامن گیر ہونا شروع ہوگئی ہے- یہ ڈھول پیٹنا ایسے ہی ہوا جیسے گھر کی بات کو باہر تک پہنچانا، غیروں کو ‘دعوت در اندازی‘ دینا- اور شاید اسی مقصد کی خاطر اس ڈھول کو پیٹا گیا ہے- لیکن بات یہ ہے کہ آجکل ڈھول مفت تو کوئی نہیں پیٹتا، بلکہ کچھ لیتا ہی ہوگا، تو جناب ‘پیر جی‘ نے انکل سام سے ‘طالبانائزیشن‘ ڈھول پیٹنے کے بدلے کیا لیا ہوگا؟ اسکے بدلے شاید ‘پیر جی‘ نے انکل سام سے ‘جناح پور‘ کا نقشہ ‘پاس‘ کروا لیا ہو، کیا خیال ہے قارئین؟

‘لکھ وہ عبارتیں جو کسی نے پڑھی نہ ہوں
کہہ وہ حکائتیں جو کسی نے سنی نہ ہوں‘
 
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 65253 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.