محنت کشوں کا عالمی دن اور محنت کشوں پر مظالم

یوم مئی کے موقع پر جہاں پوری دنیا میں مظاہرے کئے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں وہیں وطن عزیز میں بھی بڑے جوش و خروش سے اس کا اہتمام کیا گیا۔ ویسے تو اسلام نے محنت کشوں کے حقوق کا حد درجہ احترام کیا ہے اور ہاتھ سے محنت کرنے والے کو اللہ کا دوست قرار دیا ہے لیکن چلیں ہم شکاگو کے محنت کشوں کی یاد میں یکم مئی کو مناتے بھی ہیں اور چھٹی بھی کرتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے، خصوصاً حکومت نے سوچا ہے کہ یکم مئی کو چھٹی کے باوجود کتنے محنت کش خالی ہاتھ گھروں سے مزدوری کی تلاش میں نکلتے ہیں؟ کتنے آجر اور مالکان ہیں جو اس دن بغیر تنخواہ کاٹے محنت کشوں کو چھٹی دیتے ہیں؟ کتنے ادارے ہیں جو محنت کشوں کی عزت نفس پامال نہیں کرتے؟ یکم مئی کو جہاں پوری دنیا میں محنت کش چھٹیاں منا رہے تھے، شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے تھے، وہیں ایک بیچارہ محنت کش یونس جو مانگا منڈی کی ایک فیکٹری میں بطور مشین آپریٹر کام کرتا ہے، وہ یکم مئی کو بھی مسلسل چھتیس گھنٹے سے کام کر رہا تھا، جب اس نے چھتیس گھنٹے مسلسل کام کے بعد گھر جانے کی کوشش کی تو اس فیکٹری کے سپروائزر نے اس سے کام جاری رکھنے کا کہا، یونس جو پہلے ہی چھتیس گھنٹے مسلسل کام سے تھک چکا تھا اس نے انکار کیا، سپروائزر نے فیکٹری کے مالک کو بھی بلا لیا اور یونس کی سرکشی کی سزا دینے کی ٹھان لی، چنانچہ اس ظالم سپروائزر اور مالک نے یونس کو چلتی مشین کے آگے دھکا دے دیا جس سے یونس شدید زخمی ہوگیا۔ یونس کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کے دونوں بازو کاٹ دیے کیونکہ اگر نہ کاٹے جاتے تو اس کی زندگی کو شدید خطرہ تھا۔ خطرہ ابھی ختم تو نہیں ہوا لیکن بازو کاٹنے سے کم ضرور ہوگیا ہے۔ پولیس نے پہلے تو فیکٹری کے سپروائزر کو گرفتار کر لیا لیکن بعد ازاں دباﺅ پر چھوڑ دیا، کیونکہ عدلیہ آزاد ہوئی ہے پولیس تو نہیں!

یونس کا قصور کیا ہے؟ اس کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ یونس کا سب سے بڑا جرم تو یہ ہے کہ وہ غریب اور محنت کش ہے۔ مزدوروں کی یونینز ہونے کے باوجود مزدوروں کی حالت دن بدن خراب سے خراب ہورہی ہے۔ مزدور رہنما چونکہ رہنما بنتے ہی مزدور نہیں رہتے بلکہ اشرافیہ میں شامل ہوجاتے ہیں اور اپنا ماضی یکسر فراموش کر دیتے ہیں اس لئے انہیں بھی کسی معاملے کی ذرا برابر پرواہ نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہے، جہاں قوانین موجود بھی ہیں ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور اگر کبھی عملدرآمد کی نوبت آبھی جائے تو اصل مجرموں کو بچا لیا جاتا ہے۔ پاکستانی محنت کش چاہے پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، اس کی قسمت میں سوائے محرومیوں کے کچھ نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ ”باہر“ نہ چلا جائے! یہاں پر کتنے ہی پڑھے لکھے لوگ ہیں جو ہمارے بڑے بڑے اخباری گروپوں میں پچھلے پندرہ بیس سالوں سے کمپیوٹر آپریٹر اور ٹیلی فون آپریٹر کی نوکریاں کر رہے ہیں لیکن ان کی تنخواہیں ابھی چھ سات ہزار سے زیادہ نہیں ہوئیں، لوگ بوڑھے ہوگئے اس آرزو میں کہ اس ادارہ کے مالکان شاید کبھی ان کا بھی خیال کرلیں لیکن مجال ہے کہ کسی کے ضمیر پر ذرا بھی بوجھ پڑا ہو، اتنی دیدہ دلیری سے ٹیلی ویژن پر آکر تقاریر کی جاتی ہیں، بھاشن دیے جاتے ہیں کہ جیسے ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے“۔ بات ہو رہی تھی یونس کی جس کو دونوں بازﺅں سے محروم کر دیا گیا اور جس کی جان ابھی تک خطرے میں ہے اور حالت تشویشناک! اس کا اب کیا بنے گا؟ اس بیچارے کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، ابھی تو اس کی بیوی کے چاﺅ ختم نہیں ہوئے ، ابھی تو اس کی ماں کے ارمان باقی ہیں، اس کا بوڑھا باپ اسی کو دیکھ کر تو جیتا ہے، چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں! یہاں تو مزدور کے چار ہاتھ بھی ہوں تو پوری نہیں پڑتی، وہ بیچارہ کیا کرے گا؟ کیا کوئی کام ایسا ہے جو بغیر ہاتھوں اور بغیر بازوﺅں کے ہوسکے؟ جن لوگوں نے اور جس نظام نے اس کے ساتھ اتنا بھیانک ظلم کیا ہے ان لوگوں اور اس نظام کو کچھ سزا ملے گی؟ اگر سزا مل بھی جائے تو کیا اس کے بازو اس کو واپس لگ جائیں گے؟

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب خواجہ شریف صاحب نے یونس کے مسئلے کا از خود نوٹس لیا ہے لیکن کیا کسی بھی صورت یونس کو اس کے بازو اور اس کے ہاتھ جس سے وہ محنت کرسکے، واپس مل سکتے ہیں؟ ایک صورت ایسی ہے جس کے لئے اگر خصوصی قانون سازی بھی کرنا پڑے تو کرنی چاہئے، وہ یہ کہ وہ فیکٹری جس میں یونس محنت مزدوری کرتا تھا، وہ فیکٹری اس پر ظلم کرنے والے مالک سے لے کر اس کے نام کردی جائے، اس کی ملکیت میں دے دی جائے اور ظالم مالک اور سپروائزر کو حکم دیا جائے کہ وہ دونوں اسی فیکٹری میں وہ کام کریں جو یونس کرتا تھا! ایسا کرنے سے شاید آئندہ محنت کشوں پر مظالم ختم ہوجائیں، اگر ختم نہ بھی ہوں تو کمی ضرور آسکتی ہے! یوم مئی پر ظلم کا شکار ہونے والے محنت کش یونس کو سلام!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207291 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.