لاش نمبر آٹھ ہزار چوالیس

’’لاش نمبر آٹھ ہزار چوالیس، تصویر بنوالی اس کی؟
’’ہاں یار عبدالغفور! تصویر بنوالی، مگر اس کے ساتھ جو سات لاشیں اور آئی ہیں ان کا ابھی کوئی وارث نہیں، جن پانچ افراد کی مزید لاشیں ملی ہیں وہ کسی سیاسی جماعت کے کارکن تھے۔ انھیں تھوڑی دیر میں ان کے ورثا لے جائیں گے۔ اے میرے مولا! یہ ٹارگیٹڈ کلنگ۔۔۔۔۔ خاندان کے خاندان تباہ ہورہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔۔

پوچھنے والا کیوں نہیں، باقاعدہ ایف آئی آر کٹی ہوئی ہوتی ہے، پولیس انکوائری ہوتی ہے۔ ٹارگیٹڈ کلنگ میں مرنے والوں کا کم از کم نام تو سامنے آتا ہے، مگر ان بدنصیبوں کو دیکھو، یہ لاوارث ہیں۔ نہ جانے کیا نام ہوگا ان کا۔ اب تو فقط ایک نمبر ان کی شناخت ہے، اور یہ سفید کپڑے میں لپٹی لاش کی تصویر، جسے ان کا کوئی وارث دیکھ بھی لے تو شاید ہی پہچان پائے۔ ان کی جان کے ضیاع پر نہ تو کوئی پولیس کی کارروائی ہوتی ہے اور نہ حکومت ان کی شناخت کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ پتا نہیں کون ہیں یہ۔ خیر جانے دے۔ ہمارا تو یہ روز کا کام ہے۔ دوسری لاش کی تصویر بنا۔ لاش نمبر آٹھ ہزار پینتالیس۔۔۔۔‘‘

یہ عبدالغفور اور شاکر ہیں، جو اپنے دن کا ایک بڑا حصہ ’’گم نام مُردوں‘‘ اور ’’لاوارث لاشوں‘‘ کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ایک عام آدمی جہاں جانے کے خیال ہی سے اپنے جسم میں سرد لہر دوڑتی محسوس کرتا ہو اور جہاں خون جماتی خنکی، سفید چادروں میں لپٹے مُردے اور موت کا سناٹا طاری ہو، وہاں فرائض انجام دینے والے عام دل اور اعصاب رکھنے کے باوجود عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔

عجیب حال ہے اس جگہ کا جہاں یہ لوگ کام کرتے ہیں۔ یہ ہے ایدھی سرد خانہ۔ اس عمارت میں داخل ہوں تو دیواروں پر ان گنت پوسٹ اور تصاویر نظر آتی ہیں۔ یہ ان گم شدہ افراد کی تصویریں ہیں جو اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔ جب کسی کا پیارا گم ہوجائے تو وہ کیسی اذیت جھیلتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

کراچی کے خراب حالات کی وجہ سے اس دیارِ بے اماں میں زیست کرتا ہر شخص خوف زدہ ہے۔ ایسے میں اگر کسی کا پیارا وقت پر گھر نہیں آتا تو ان گنت خوف ناک خیالات اسے گھیر لیتے ہیں۔ اور جب گزرتا وقت تشویش اور اضطراب کو اس یقین میں بدل دیتا ہے کہ آنے والا کسی ناگہانی کا شکار ہوگیا ہے، تو تلاش کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اور ناکامی کے بعد بوجھل قدم ایدھی کے سرد خانے کا رخ کرتے ہیں، جہاں شہر بھر سے لاوارث لاشیں لائی جاتی ہیں، جنھیں کم از کم تین روز رکھ کر مرنے والے کے رشتے داروں کا انتظار کیا جاتا ہے اور اگر پھر بھی کوئی وارث نہیں آتا تو بے جان جسموں کا مقدر بنتا ہے لاوارث لاشوں کا قبرستان۔

تقریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی والے اس شہر میں ہر روز کئی افراد ’’نامعلوم ملزمان‘‘ کا نشانہ بن کر خبر ہوجاتے ہیں۔ موت ان سے زندگی چھینتی ہے، مگر یہ شناخت سے محروم نہیں ہوتے، سو لاش ملنے کی خبر میں مرنے والے کا نام اور تعلق کی بابت بتایا جاتا ہے۔ لیکن اسی شہر میں ایسی لاشیں بھی ملتی ہیں، جن کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور یہ ’’نامعلوم‘‘ کا نام پاکر آخرکار لاوارث قرار دے دی جاتی ہیں۔ ان میں سے کوئی کسی اندھی گولی کا نشانہ بنا ہوتا ہے، تو کوئی حادثے کا شکار ہوتا ہے اور کسی کو طبعی موت سرِ راہے اُچک لیتی ہے۔ اور پھر ان کی لاشیں کئی کئی دن سرد خانوں میں رہ کر گم نامی میں دفن کردی جاتی ہیں۔
دہشت گردی اور ٹارگیٹڈ کلنگ کے کسی بھی واقعے کا شکار ہونیوالے ’’معلوم افراد‘‘ کا پولیس نہ صرف ریکارڈ مرتب کرتی ہے، بلکہ حکومتی سطح پر بھی ان کا ریکارڈ خوبصورت گراف کے ساتھ روزانہ، ماہانہ اور سالانہ اعدادوشمار کی بنیاد پر بنایا اور امن وامان کے ذمے داروں اداروں کو تنقید وتبصرے کے ساتھ بھیجا جاتا ہے لیکن افسوس سرکاری سطح پر گم شدہ افراد اور لاوارث لاشوں کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں البتہ بعض غیرسرکاری تنظیمیں اس سلسلے میں کچھ ریکارڈ مرتب کرتی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2012کے دوران کراچی میں 3105 (3 ہزار ایک سو50) افراد قتل کیے گئے، جب کہ صرف اس شہر میں روزانہ دس سے پندرہ لاوارث لاشیں بھی ملتی ہیں، جن کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہوتا۔ کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں واقع ایدھی کے سرد خانے میں روزانہ 40سے 50افراد کی لاشیں لائی جاتی ہیں، ان میں ہیروئنچی، ٹریفک حادثات میں مرنے والے، خودکشی کرنے والے، بم دھماکوں اور ٹارگیٹڈ کلنگ کا شکار اور کچھ طبعی موت مرنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔

کراچی کئی سال سے ٹارگیٹڈ کلنگ کا نام پانے والے بھیانک عفریت کے خونی پنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ایسے میں غیرطبعی موت کا شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ چناں چہ شہر کو مزید سرد خانوں کی ضرورت پڑی۔ چند سال پہلے تک کراچی میں صرف ایک سرد خانہ ہوا کرتا تھا، جو سہراب گوٹھ کے علاقے میں ہے۔

یہ سرد خانہ عبدالستارایدھی ٹرسٹ کے زیرنگرانی قائم ہے۔ جس شہر میں غیرطبعی موت مرنے والوں کی شرح اس حد تک بڑھ گئی ہو کہ روزانہ دس بارہ لاشیں ملنا معمول سمجھ لیا جائے، ظاہر ہے وہاں قبرستانوں اور سردخانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوگا۔ اس وقت کراچی میں دو اور سردخانے بھی قائم ہیں، جو متحدہ قومی موومنٹ کی خدمتِ خلق فاؤنڈیشن کے زیرسرپرستی ہیں، جب کہ کچھ اسپتالوں میں اور کمیونٹیز کی سطح پر بھی مردہ اجسام کو خنک ماحول میں محفوظ رکھنے کی سہولت موجود ہے۔

میرمرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے بعد ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی جو تین جج صاحبان پر مشتمل تھی۔ اس کمیٹی نے ایک رپورٹ تیار کی، جس میں باقاعدہ حکم جاری کیا گیا کہ پوسٹ مارٹم کے وقت اعضا کی پیوندکاری کسی غیرمسلم سے نہیں بلکہ مسلمان سے کروانی چاہیے، جب کہ لاوارث لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیے بغیر ہی رپورٹ لکھ دی جاتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی بھی ملنے والی لاوارث لاش کو پہلے متعلقہ پولیس پوسٹ مارٹم کے لیے سرکاری اسپتال لاتی ہے، جہاں وجہِ موت جاننے اور پھر پولیس کلیئرنس کے بعد اسے چند روز ایدھی سردخانے میں رکھا جاتا ہے۔

اور جب کوئی وارث نہیں آتا تو اس لاش کو مواچھ گوٹھ میں واقع ایدھی قبرستان میں دفنادیا جاتا ہے۔ جہاں مرنے والے کی تصویر، اس کے کپڑوں اور اس سے ملنے والے تمام سامان کی فہرست بناکر محفوظ کرلینے کے بعد لاوارث لاش کو ایک نمبر الاٹ کردیا جاتا ہے۔ تصویر سرد خانے میں موجود البم میں لگادی جاتی ہے، تاکہ اگر ورثا آجائیں تو اپنے پیارے کی لاش بہ آسانی شناخت کرسکیں۔

لاوارث لاشوں کے ملنے والے نوے فیصد سے زاید لواحقین لاش کو ایدھی قبرستان سے منتقل نہیں کرتے بلکہ قبر پر کُتبہ لگادیتے ہیں۔ اگر کوئی وارث اپنے عزیز کی لاش منتقل کرانا چاہے تو اسے باقاعدہ متعلقہ سرکاری اداروں کی جانب سے مکمل قانونی کارروائی کے بعد ہی ایسا کرنے کی اجازت ملتی ہے۔

کراچی شاید دنیا کا سب سے لاوارث، بے حس اور خوف ناک شہر ہے، کیوں کہ دنیا کے کسی اور شہر میں لاوارث افراد کا اتنا بڑا قبرستان نہیں، جتنا وسیع گورستان اس شہر میں ’’آباد‘‘ ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ لاوارث میتیں سپردِخاک کی جاچکی ہیں۔

عوام کی جان ومال کے تحفظ کی ذمے دار ریاست ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ کام ’’اپنی مدد آپ‘‘ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایسے میں کراچی جیسے شہر میں جہاں بڑے بڑے نام وروں کی زندگی کی کوئی قدروقیمت نہیں، وہاں بے نام اور لاوارث لاشوں کی ذمے داری کون اُٹھائے گا، کسے پڑی ہے کہ ان لاشوں کو شناخت ملے اور اپنے پیاروں کی راہ تکتے ورثا ان کی میت دیکھ سینے پر صبر کا پتھر رکھ سکیں، کہ اقتدار میں آنے والوں کو ووٹ چاہیے ہوتا ہے اور لاوارث لاشیں ووٹ نہیں دے سکتیں۔ مگر روزجزا ہمارے حکم رانوں کو ان لاشوں کے ’’ووٹ‘‘ کی ضرورت ہوگی۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 284655 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.