انتخابات اور لادین جماعتیں

پیپلز پارٹی کےتاج حیدر، عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر جان اور متحدہ قومی موومنٹ کے حیدرعباس رضوی نے پیر کو کراچی پریس کلب میں ایک جلسہ نما پریس کانفرنس کی، اس کے لیےکراچی پریس کلب کو خصوصی انتظامات کرنے پڑے، ہال کے بجائے نجیب ٹیرس میں کانفرنس کا انتظام کیا گیا۔اس کانفرنس میں تینوں پارٹیوں کے رہنمائوں نے جوش ولولے کے ساتھ انتخابات کے دوران انہیں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کیا اوراس پریس کانفرنس کا مقصد بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ واضع کردینا چاہتے ہیں کہ دھشت گرد کچھ بھی کرلیں ہمیں انتخابات سے دستبردار نہیں کراسکتے۔ انہوں نےکہا کہ ہم انتہاپسندی اور دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما رہے ہیں لیکن دہشت گردی کے ذریعے انتخابی مہم چلانے سے روکا جارہا ہے ان رہنمائوں نے یہ واضع کیا کہ ہم انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔

ادھرجماعت اسلامی کے دفتر ادارہ نور حق دس جماعتی گرینڈ الائنس کے رہنمائوں نے اپنے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دھشت گردوں سے شدید خطرہ ہے کیونکہ وہ ہمارے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے علاقوں میں جانے نہیں دے رہے مہم شروع ہونے کے ساتھ ہی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے انتخابی دفاتر پر حملے کیے گئے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کو بھی اسی طرح کی شکایت رہی تاہم اس کے چیئرمین آفاق احمد نے عدالت سے رجوع کیا ۔ جس پر عدالت نے ان کا تحفظ کرنے اور انہیں علاقوں میں جانے کے لیے حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کاحکم جاری کیا دو روز قبل جب آفاق احمد انتخابی مہم کے لیے اپنی رہائش گاہ سے نکل رہے تھے تو رینجرزحکام نے انہیں روک لیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

کراچی میں نو گو ایریاز اور بدامنی کے کیس سپریم کورٹ میں سنے جاچکے ہیں اور ان پر عدالت فیصلے بھی دے چکی ہے بدامنی کے ایک کیس میں عدالت یہ بھی ریمارکس دے چکی ہے کہ پیپلز پارٹی ، اےاین پی اور متحدہ قومی موومنٹ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ وصولی کی زمہ دار ہے۔ وہ ہی تین جماعتیں اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی ساتھ نظر آرہیں ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن متحدہ نے حکومت کے آخری ایام میں حکومت سے نکل کر اپوزیشن میں جاتے ہوئے کہا تھا کہ آٓئندہ کبھی پیپلز پارٹی سے اتحاد نہیں ہوگا۔لیکن شائد حالات نے ماضی کی طرح ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو گلے لگانے پر مجبور کردیا ہے۔

متحدہ پہلی بار ملک کے دیگر شہروں سے بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے لیکن اس کو کراچی اور حیدرآباد میں میں خطرات اور مشکلات کا سامنا ہے یہ اور بات ہے کہ متحدہ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اسے کہاں اور کن شہروں میں مشکلات کا سامنا ہے تاہم ان کے جو بیانات آرہے ہیں وہ کراچی اورحیدراباد کے واقعات کے حوالے سے ہیں اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ متحدہ کو ملک کے دیگر شہروں میں دہشت گردوں سے خطرہ نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امن و امان قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ جو پارٹیاں پانچ سالہ حکومتی دور میں دھشت گردوں کا قلع قمع نہیں کرسکی وہ کس طرح دو ماہ کی مختصر عرصے کی نگراں حکومت سے دہشت گردوں کے خاتمے کی امید رکھ رہی ہیں؟ جن طالبان پر اے این پی ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اب دہشت گردی کا الزام لگارہی ہے ان کا نشانہ تو پورا ملک پانچ سال تک بنتا رہا اے این پی کے بشیر بلور سمیت کئی لیڈر دہشت گردی کا شکار ہوئے متحدہ کے ایم پی اے منظر امام بھی مبینہ طور پر ان ہی کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے لیکن اس وقت اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں نے ان دہشت گردوں سمیت کسی بھی واقعہ کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوئی توجہ نہیں دی کراچی میں روزانہ بارہ اور کبھی بیس سے زائد لوگوں کو دہشت گرد اپنی گولیوں کا نشانہ بناتے رہے ۔ مولانا دین پوری سمیت کئی علما بھی ان کی گولیوں سے سرے عام شہید ہوگئے لیکن پی پی پی ، متحدہ اور اےاین پی اس قدر سنجیدہ کبھی بھی نظر نہیں آئی جو ان دنوں نظر آرہی ہے ۔مومن آباد میں ہونے والےبم دھماکے جس میں شہید مفتی نظام الدین کے بھائی اور نواسہ بھی شہید ہوگئے، سوال ذہن میں ابھی آیا بھی نہیں تھا مگر متحدہ نے اپنےاعلامیےاس سوال کا جواب خود ہی دیدیا کہ طالبان نے مفتی صاحب کے بھائی کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا ہے ۔اب اس کی وضاحت بھی متحدہ ہی کرے گی کہ ان کو اس بات کا علم کیسے ہوا یاانہوں نے یہ اندازہ کیوں لگایا ؟ سب سے بڑی بات یہ کہ متحدہ کو اس پر وضاحت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کہ طالبان نے مفتی نظام کے بھائی ڈاکٹر ضیا اور ان کے نواسے کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا ہے ؟ مذکورہ تینوں جماعتیں انتخابات کے موقع پر یک زباں ہوگئیں ہیں جب ان کی آزمائش کا وقت آیا لیکن جب قوم پر روزانہ غموں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اس وقت انہیں کسی کا خیال نہیں آیا تھا کیوں؟ پورے پانچ سال تک لوگ ان پارٹیوں سے سوال کرتے رہے کہ ” کس طرح لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے جائوگے؟” اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔

اے این پی کے رہنما شاہی سید ایک سے زائد مرتبہ مقامی ہی نہیں بلکہ غیر مقامی میڈیا کو متحدہ کے حوالے سے واضع الفاظ میں کہتے رہے کہ متحدہ ایک دہشت گرد جماعت ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ قربتیں کس کے لیے اور کس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہے؟

عام خیال یہ ہی ہے کہ تینوں پارٹیاں خصوصاِِ متحدہ انتخاب سے فرار چاہتی ہے اس لیے وہ دھشت گردوں کے حملوں کا نیا ایشو لیکر واویلہ کررہی ہیں۔ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی یا پشت پناہی وہ ہی عالمی قوت کررہی ہے جس نے انہیں پانچ سال حکومت کرنے کا موقع فراہم کیا براہ راست ان کی حمایت کرتی رہی۔

لگتا ہے کہ مذکورہ تینوں پارٹیوں کواس بار(ملک کی تاریخ میں پہلی بار) شفاف، منصفانہ اور فوج کی موجودگی میں انتخابات سے خوف محسوس ہورہا ہے۔ جس کے باعث وہ مظلوم بننے کی کوشش کر رہیں ہیں۔ مظلوم بننے کے ڈرامے حساس ادارے مسلسل تین دہائیوں سے یہ تماشے دیکھ رہے ہیں ، اوراب تو رپورٹس بھی سپریم کورٹ تک کو دے چکے ہیں لیکن پھر بھی خاموش ہے ساری چالوں کو سمجھنے کے دعوے بھی کرتے ہیں مگر اصل کریمنلز کو پکڑنے سے ڈرتے بھی ہیں۔ آخر کیوں؟ دلچسپ امر یہ کہ عدالت بار ہا یہ ریمارکس دے چکی ہے کہ سندھ پولیس سیاست زدہ ہوچکی ہے اس کے باوجود اسے سیاست سے پاک کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی کراچی پولیس میں کئی سالوں سے تعینات انسپکٹرز ، ڈی ایس پیز اور ایس ایس پیز کا قوائد کے تحت دیگر شہروں میں تبادلہ ناگزیرہوگیا ہے اس کے بغیر پولیس کو سیاست سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔

بات ہورہی تھی سیاسی جماعتوں کی متحدہ ،اے این پی اور پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ دھشت گرد سیکولر جماعتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاست کرنے والی جماعتیں یہ تاثر دیکر پاکستان کو کہاں کھڑا کرنا چاہتی ہیں اس پر غور کیا جاسکتا ہے ۔تاہم جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے ان جماعتوں کے اس مئوقف پر کہا کہ ” اس موقف سے قوم تقسیم ہوجائے گی” منور حسن کی بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے ۔ لیکن سیکولر جماعتیں اپنے منشور کے مطابق ہی کام کرتی ہیں کرتی رہینگی انہیں طالبان کے نام پر دراصل دین سے ڈر ہے اس لیے وہ مذہب اسلام کا پرچار کرنےوالی قوتوں سے مزاحمت کرتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ ان جماعتوں نے پانچ سال تک اقتدار میں رہ کر ملک اور قوم کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے نتائج بھگتنےکا وقت آیا تو انہوں نے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا اورانتخابات میں اپنی کامیابی کے لیے دوبارہ اکھٹا ہوگئیں۔ پانچ سالہ حکومت کے دوران انہوں نے جوکچھ کیا اس سے ان کو خطرہ ہے کہ اس بار قوم انہیں ووٹ کے ذریعے مسترد کردے گی اس وجہ سے وہ اس بار بھی روایتی انداز میں ہونے والے انتخابات کے خواہ ہیں ۔ اس طرح کے انتخابات جس میں ووٹرز کی تعداد سے زیادہ ووٹ حاصل کرلیے جاتے تھے، اور کسی مخالف کوووٹ ڈالنے کی نہ تو اجازت ہوتی تھی اور نہ ہی مخالف کے پولنگ ایجنٹ کو پولنگ اسٹیشن میں بیٹھنے۔ یہ وجہ ہے کہ منگل کو ہونے والی نگران حکومت کی آل پارٹیز کانفرنس میں متحدہ ، اے این پی نے دیگر جماعتوں کے مطابق کے برعکس صرف پولنگ اسٹیشنوں کے باہر فوج کی موجودگی پر زوردیا جبکہ تیرہ سے زائد پارٹیوں نے مطالبہ کیا کہ فوج پولنگ اسٹشنوں کے اندر ہونی چاہیئے۔ اگر فوج پولنگ اسٹشنوں کے اندر نہیں ہوگی تو میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انتخابات شفاف اور آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہونگے ایسی صورت میں نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن ذمہ دار ہوگا۔

انتخابات کے لیے متحدہ کے مسائل اور بھی بہت ہیں وہ انتخابی میدان میں جماعت اسلامی ، تحریک انصاف اور مہاجر قومی موومنٹ کی موجودگی سے بھی پریشان ہے اسے اس بات سے بھی پریشانی ہے کہ کیا لوگ انہیں خود سے اس بار ووٹ دینے کے لیے تیار ہونگے۔ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ قوم کے لیے سیاسی پارٹی سے زیادہ خوف کی علامت بن چکی ہے اور سب سے زیادہ خوفزدہ ان کے اپنے عہدیدار رہتے ہیں خوف کی وجہ یہ ہے کہ جتنی بڑی تعداد میں ان کے عہدیدار ، ساتھی اور حمایتی قتل کیئے گئے اتنی بڑی تعداد میں کسی اور جماعت کے کارکن اتنی مختصر مدت میں نہیں مارے گئے۔ گزشتہ اتوار کو متحدہ نے خواتین کا جلسہ رکھا لیکن اسے تمام تیاریوں کے باوجود عین وقت پر ملتوی کردیا گیا جس کی وجہ شرکاہ کو خوف تھا نتیجہ میں خواتین نے شرکت سے انکار کردیا تھا مطلوبہ تعداد میں لوگوں کے جمع نہ ہونے پر متحدہ کو جلسہ ملتوی کرنا پڑا۔۔ سوال یہ تھا کہ جب الطاف حسین سمیت تمام ذمہ دار متحدہ کے دفاتر اورجلسوں پر حملوں کے خدشات دوہرا رہے ہیں تو پھر اس جلسہ کا اہتمام کیوں کیا گیا۔؟ کیا دہشت گردوں کو موقع دیکر کسی نئے یوم سوگ کا پروگرام بنایا گیا تھا؟

خواتین کے جلسے کے انعقاد میں ناکامی نے متحدہ جھنجوڑ کر رکھ دیا جس کے باعث ہنگامی طور پر الطاف حسین نے صدر مملکت آصف زرداری اور اسفند یارولی سے رابطہ کیا پھر سب نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی سیمت تینوں جماعتیں ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ سرگرم ہوگئی ،صدر مملکت نے صدر ہونے کے باوجود سیاسی کردار ادا کیا اور اپنی پیپلز پارٹی کو متحدہ اور اے این پی کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ہدایت کی۔حیرت اس بات پر ہے کہ ایوان صدر میں بیٹھ کر آصف زرداری نے سیاسی فیصلہ کیا ، سیاسی گفتگو کی لیکن کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا ، شائد چیف جسٹس اس کا نوٹس لیکر اصف زرداری اور الطاف حسین کی ٹیلی فونک گفتگو کا ریکارڈ طلب کرلیں۔
مگر بقول شاعر۔۔۔۔۔، خوش فہمیاں یوں سہی انو
خوش گمانی بھی مگر ضروری ہے

Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 153033 views I'm Journalist. .. View More