الیکشن۔۔۔ انجامِ گلستان کیا ہو گا

عام انتخابات کچھ دنوں کی بات ہے اور انتخابی مہم زوروں پر ہے لیکن ویسے نہیں جیسی ہونی چاہیے ،خوف کی ایک فضا ہے جو پورے ملک پر چھائی ہوئی ہے پارٹیوں کے الیکشن دفاتر پر حملے ہو رہے ہیں ،کراچی تو باقاعدہ کسی میدان جنگ بلکہ قتل گاہ کا منظر پیش کر رہا ہے، پشاور اور کوئٹہ کی حالت بھی مختلف نہیں ۔لیکن یہ سب کون کر رہا ہے اور اس کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے اور نقصان کس کا ہے۔ ظاہر ہے فائدہ دشمن کا ہے ور نقصان پاکستان کو پہنچ رہا ہے۔

جمہوریت اپنی کئی ایک خرابیوں کے باوجود ایک بہتر نظام حکومت ہے جو عوام کو حکومت میں اور کار حکومت میں شامل کر دیتی ہے۔ عوام اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے حساب کتاب لے سکتے ہیں ،پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے یا نہیں وہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس کا مطلب نظام کی خرابی نہیں ۔ عمر فاروق(رض) سے ایک فالتو چادر رکھنے کی وجہ پو چھنا ہی تو جمہوریت ہے اور بہت بری جمہوریت میں بھی پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں پر تنقید کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں بلکہ خوب کرتے ہیں۔ تو پھر انتخابی عمل کو سبوثاژ کرنے کی سازش کہاں سے ہورہی ہے اور کون ایسا کر رہا ہے اپنے یا پرائے ،ظاہر ہے اس میں دونوں قوتیں شامل ہیں۔ اگر ایک دن ایک سیاسی جماعت کے دفتر پر حملہ ہوتا ہے تو دوسرے دن دوسری جماعت کے دفاتر میں سے کوئی نشانہ بن جاتا ہے۔ طالبان کا نام بھی استعمال ہو رہا ہے لیکن طالبان کو استعمال کرنے والی بھی کچھ اور قوتیں ہیں ضروری نہیں کہ یہ غیر جمہوری ممالک ہوں یہ جمہوری بھی ہو سکتے ہیں۔ طالبان کو عرب ممالک کی طرف سے جو غیر ضروری سپورٹ حاصل ہے وہ سب جانتے ہیں لیکن بڑی طاقتیں جو اس کھیل کی اصل کھلاڑی ہیں ان کی مداخلت بھی ایک اہم عنصر ہے اور ان کو پاکستان سے کارندے ملنا بھی کوئی مشکل کام نہیں غربت ،بے روزگاری ،راشی حکمرانوں کے ستائے یہ لوگ ،زندگی سے نالاں، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پنکھے کی ہوا سے لے کر پانی کی بوند بوند کو ترسے ہوئے مفلوج دماغوں کے یہ لوگ ظاہر ہے کسی بھی دام میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں، اوپر سے ہمارے بااختیار ادارے عوام کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں اور ان کے اوپر ایسے لوگوں کو حکمران بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو خود غرضی کی اعلیٰ مثال ہوتے ہیں جن کا مقصد عوام کی خدمت نہیں بلکہ خود اپنی دولت اور جاہ و حشمت میں اضافہ ہوتا ہے ۔بظاہر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق امیدواروں کی بڑی جانچ پڑتال کی گئی یا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایک حلقے سے مسترد ہونے والا امیدوار دوسرے حلقے میں جاکر متقی و پرہیز گار ہوگیا اور منظور نظر بھی۔4 2 اپریل کے دی نیوز کے مطابق 55 ایسے امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی جن کے اوپر دہشت گردی کے الزامات ہیں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں پہلے بھی ہمارے بہت سے حکومتی عہدیدار ثابت شدہ مجرم ہیں بلکہ قتل اور اقدام قتل کے مجرم ، اب ایسے میں انجام گلستاں کیا ہوگا۔ ہماری عدالتیں بہت کچھ کر رہی ہونگی لیکن عوام کو ان حکمرانوں سے آزاد کرنے کے لیے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی جو عوام کے مصائب میں کمی کا باعث ہو طالبان ، بیرونی عناصر اور خود اپنوں کی ستم ظریفیوں کے اس طوفان میں بار بار فوج کی مدد کا نعرہ بھی لگ جاتا ہے۔ جس پر ابھی تک تو فوج خاموش ہے لیکن تابکے ۔ اللہ کرے کہ فوج اس خاموشی کو قائم رکھ سکے اور ملک میں سیاسی عمل چلتا رہے لیکن ایک ایسا سیاسی عمل جو ملک میں اہل قیادت کو سامنے لاسکے اور عوام کے مسائل حل کر سکے ۔ الیکشن کے عمل کو جاری رہنا چاہیے اور ان عناصر کی نشاندہی بھی ضروری ہے جو اس ساری دہشت گردی کے پیچھے ہیں۔ یہاں بجائے مصلت سے کام لینے کے قومی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے نگران حکومت کے پاس اگر چہ مینڈیٹ نہیں ہے لیکن اس کے ہر نمائندے نے اپنی ذمہ داری کو اگر بر ضاورغبت قبول کیا ہے تو اُسکی یہ ذمہ داری ضرور بنتی ہے کہ وہ حالات کو قابو میں لانے کی کوشش کرے۔ یہ سب کرنے یا کروانے والی کوئی سیاسی پارٹی ہو یا کوئی بیرونی دشمن یا کوئی اور عنصر اُس کا راستہ سختی سے روکنا ہوگا ملک کا اختیار اور حکومت کسی اور عنصر کو دینا خود کشی کے مترادف ہے جس کے راستے پر ہم پہلے ہی چل چکے ہیں اور بہت سارے معاملات میں درحقیقت ہو وہی رہا ہے جو دہشت گرد اور اُن کے آقا چاہتے ہیں وہ جہاں چاہتے ہیں وہاں زندگی مفلوج کر دیتے ہیں۔ یہ یا تو رزق روزی کا معاملہ ہے یا لوگوں کی ہمت کہ وہ پھر بھی کاروبار زندگی کو رواں دواں رکھتے ہیں ورنہ حکومت چاہے مستقل ہو یا نگران اس کی طرف سے اِن کو کوئی تحفظ نہیں دیا جا رہا۔ فوج، پولیس اور عوام مر رہے ہیں اور اب تو یہ دھماکے کوئی بہت بڑی بریکنگ نیوز بھی نہیں رہے بلکہ معمول بن چکے ہیں، لیکن انتخابات کے عمل کو روکنے کی جس طرح کوشش کی جا رہی ہے اُس کے پیچھے کوئی خاص مقصد ضرور ہے لہٰذا اسے معمول کی دہشت گردی نہیں سمجھنا چاہیے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلائ کے ٹائم ٹیبل کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا، پاکستان میں مسلسل اور بغیر وقفے کے تیسرے عام انتخابات کا انعقاد بھی مدنظر رہنا چاہیے ،عرب ممالک میں جمہوری تحریکوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور سیاسی پارٹیوں کے سیاسی بلکہ ذاتی مفادات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے اور یہ بھی کہ کون ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے اور کون تعصب کے نام پر ووٹ لینا چاہتا ہے ۔ اگر اِن میں سے کوئی بھی وجہ نظر انداز کی گئی اور اس کے اثرات کو قابل غور نہ سمجھا گیا بلکہ دیگر وجوہات کی تلاش بھی ضروری ہے تو ملک جس نقصان سے دوچار ہوگا اس کا ازالہ مشکل ہوگا ۔فوج ہر مسئلے کا حل نہیں اور اُس نے اگر سیاسی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کی ہے تو اُسے ایک طرف رہنے دینا چاہیے۔ سیاسی قوتوں کو اپنا سارازور، سارا وژن اور سارا زور بیان ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے ملک کی فکر بھی کرنا ہوگی اور انہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اگر یہ ملک ہے تو اُن کی سیاست بھی ہے، ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی، ان کی شان و شوکت بھی اور اُن کی حکومت بھی ۔ لہٰذا پہلے انہیں اس کی بقا کی فکر کرناچاہیے اور سیاست کو سیاست رکھنا چاہیے قتل عام نہیں بنا دینا چاہیے ، اور اس بات کو سمجھ لینا چاہیے بلکہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اگر انہوں نے اس ملک کی قدر نہیں کی تو خدا بھی ایسے لوگوں ، حکمرانوں اور قوموں کی قدر نہیں کرتا بلکہ انہیں مٹا دیتا ہے۔ اور تاریخ بھی ان کے ساتھ بہت بے رحمانہ سلوک کرتی ہے۔ منیر نیازی نے انہی لوگوں کو یاد دلایا ہے۔
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
اُن اُمتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 514250 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.