اقوام متحدہ کا جرگہ

بھارت نے پاکستان کو بنجر بنانے کے لیے ایک گہری سازش کرتے ہوئے دریائے نیلم پہ کشن گنگا ڈیم بنانا شروع کیا جو اختتامی مراحل میں ہے اس کے بعد دریائے نیلم کا پانی خشک ہو جائے گا اس حوالے سے مختلف کالم نگار اہل قلم نے تفصیلا و مفصلا لکھا اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے سر انجام دیئے جس کے بعد پاکستان نے اس معاملہ کو بین الاقوامی سطع پہ اٹھایا اور بین الاقوامی جرگہ نے بھارت کے حق میں فیصلہ دئے دیا مگر اس کی دوبارہ اپیل کی گی جو قابل سماعت تھی گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے مبصر نیلم آئے تو انہوں نے دریا کا پانی دیکھا تو کہنے لگے کشن گنگا ڈیم بنانے سے آزاد کشمیرو پاکستان کو کوئی نقصان نہیں یہاں جو اہم بات قابل زکر ہے اس جرگہ میں پاکستان کا یا مسلم شخص نہیں اور ہر دو اعتبار سے یہود و نصارا مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے دریائے نیلم کا پانی تو انہوں نے دیکھ لیا مگر یہ اس وقت دیکھا جب پہاڑوں پہ برف پگل رہی ہے اس کا پانی دریا میں داخل ہو تا ہے جس سے بظاہر دریا کا پانی اپنی مقدار میں پورا نظر آرہا ہے مگر جوں ہی پہاڑوں سے برف پگل جاتی ہے تو دریا نیلم کے درمیانی پتھر بھی واضع نظر آتے ہیں گزشتہ دنوں جب اقوام متحدہ کے مبصرین نے نیلم کا رخ کیا اور دریائے نیلم کو دیکھا تو دوسرئے دن ایک ریاستی اخبار کے سینئر صحافی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اقوام متحدہ کے مبصرین نے نیلم کے دریا کو دیکھا اور ارد گرد آبادی کو دیکھنے کے لیے نیلم آئے تھے میں ان صحافی بھائی کی قدر کرتا ہوں انہوں نے اپنے روز نامہ کی ہیڈ لائن میں یہ بات لکھوانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا مگر افسوس اس بات کا ہے وہ حقائق کا ادراک نہیں رکھتے ۔اس دوران اقوام متحدہ کے ساتھ حکومت وقت کا بھی نمائندہ ہونا چاہیے تھا اور ساتھ ہی اپوزیشن کا بھی مگر حکومت و اپوزیشن کی نظر صرف و صرف اقتدار پر ہے جس طرح بلی گوشت کے ٹکڑئے کو دیکھتی ہے اسی طرح اپوزیشن و حکومت کرسی کو للچاتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہے دریائے نیلم کا پانی روک دیا جائے پنجاب کی زمینں بنجر ہو جائیں مگر انہوں نے اتنی لوٹ مار کر لی ہے آرام و سکون سے دوسرئے ملک جا کر بیٹھ جائیں گئے وہاں نہ پانی کی قلت ،نہ مہنگائی ،ہر طرح کا عیش و آرام موجود ہے مگر پاکستانی کسانوں کو جب فصل کے لیے پانی کی قلت ہو گی وہ زمینں سال میں دو فصل دینے کے بجائے ایک فصل بھی نہیں دئے پائیں گیں جس کا برائے راست اثر عوام پہ ہوگا گندم کی موجودہ ہدف سے کم آمدنی کی وجہ سے آٹے کی قلت ہو گی جبکہ دیگر اشیاءخورد و نوش جن میں سبزیاں وغیرہ شامل ہیں نا پید ہو جائیں گی جس سے ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا ۔اس دوران ڈپٹی کمشنر نیلم بھی مبصرین کے ساتھ تھے جنہوں نے اپنی فہم و فراست سے اچھی طرح گائیڈ کیا جو کے حب الوطنی کی اعلیٰ مثال ہے ۔مگر یہاں پہ ڈپٹی کمشنر نیلم ہی کی زمہ داری نہیں ہر شہری کی زمہ داری بنتی ہے خواہ وہ صحافی ہوں یا حکمران یا اپوزیشن ہر شخص اپنی اپنی زمہ داریوں کو نبھاتا تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے تھے مبصرین کو نیلم ہی میں قائل کیا جاتا یہاں صورت حال یکسر مختلف ہے سنی سنائی بات کو غیر زمہ دارانہ طریقے سے شائع کروا دیا حکمرانوں کو علم ہی نہیں جب علم ہوتا ہے تب تھوڑ ا عوام کو مطمن کرنے کے لیے ایک دو کاغذی بڑھکیں ماری اور خاموش ہو گئے بعد ازاں اپوزیشن کی باری آتی ہے حکومت نے کشن گنگا ڈیم بنانے پہ بھارت کو نہیں روکا اگر ہم ہوتے تو یقینا ایسا نہ ہونے دیتے ۔اپوزیشن والے برابر کے مجرم ہیں وہ ہیں ۔زندہ ہیں ،مگر اپنی زمہ داریوں سے رو گرداں ہیں صرف موقع کی تلاش میں ہیں کب کوئی حکومت کی کمزوری ہاتھ لگے اس کو ایشو بنا کر واویلا کریں ۔جبکہ حکومت وقت اس قدر مد ہوش ہے اللہ رب العزت ہی اس ملک کو چلا رہا ہے ان کے بس کی بات نہیں وزراءکی فوج ظفر موج اس طرح بھرتی کی گی ہے جیسے کشتی لڑنی ہو ہم ایک دوسرئے کو نیچا دیکھانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں جب کے مکار دشمن ہماری ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے ہمارئے حکمرانوں کو کرسی کی لالچ میں الجھا رکھا ہے جبکہ عوام پہ مہنگائی ،غربت ،بھوک ،تنگ دستی ،میں الجھایا ہوا ہے تاکہ عوام دال روٹی کے چکر سے باہر نہ آسکیں اور ہماری طرف ان کی توجہ نہ جائے ۔فاقہ زدہ عوام جن کی دھیاڑی تین سو سے پانچ سو تک ہے جب محنت مزدوری سے تھک کر سبزی کی دوکان پہ پہنچتا ہے وہ پانچ سو کا نوٹ وہیں صرف ہو جاتا ہے پھر خیال آتا ہے گھر میں فلاں چیز نہیں ،فلاں بھی ختم ہے ،کاپی پنسل بھی بچوں کے لیے لینی ہے اسی سوچ میں گم یہ شخص رات بھر سوچتا ہے صبح ہوتے ہی فکر معاش میں نکل جاتا ۔کس قدر عوام کو الجھا رکھا ہے پھر ایک ملکی زمہ داری کا احساس دلایا جائے تو وہ سنی ان سنی کر دیئے گا اس کی سوچ چینی ،دال ،چاول سے باہر نکلے تو وہ کچھ ملک کے بارئے میں سوچے ،دوسرا طبقہ شعبہ صحافت کا ہے یہاں قدم بہ قدم زمہ داریاں ہیں با اصول زمہ دارنہ صحافت کی اشد ضروت ہے روزنامہ کا ڈپٹی ایڈیٹر بن کر سینئر صحافیوں پہ رعب و دبدبہ بیٹھانے کے بجائے اپنی زمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے جو معلومات نہیں ان کی درست معلومات لی جائے ورنہ ایسے نازک موضو ع کو چھیڑا ہی نہ جائے ،ہمارئے ہاں نام کی صحافت رہ گی ہے ان ان اخبارات کے ساتھ میں کام کر رہا ہوں اس اخبار کا میں بیورو چیف ہوں آپ کام نہیں کر سکتے اس اخبار کا میں ڈپٹی ایڈیٹر ہوں نمائندئے میری مرضی کے ہوں گئے آپ اپنا سچ اپنے پاس رکھیں اور اس پہ ستم ظریفی ایڈیٹر صاحبان بھی ورکنگ جنرنلسٹ کی پہچان نہیں کر سکتے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟بر حال اگر اپیل خارج ہوگی تو بھارت کے حق میں فیصلہ ہو گیا تو اس میں حکومت وقت و اپوزیشن ،شہری اہل قلم نیلم برابر کے شریک و مجرم ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے حقائق کو لکھ کر (انگریزی ترجمہ کے ساتھ) بین الاقوامی ویب سائیڈوں پہ بھیجا جائے ابھی بگڑا کچھ بھی نہیں اقوام متحدہ کے پاکستان میں موجود مبصرین کو قائل کیا جائے یہ ہم سب کی زمہ داری ہے اس اہم زمہ داری سے غفلت کے مرتکب افراد آئیندہ نسلوں کے سامنے خود جواب دہ ہوں گئے جب ان کے پوتے ،پوتیوں غربت ،جہالت ،افلاس ،بھوک ،ننگا ناچ نچاتی معشیت کے آگئے خود سوزی پہ مجبور ہوں گے اور حکمراں خواہ وہ اقتدار میں ہوئے یا اقتدار سے باہر ہر دو صورت میں ان کو سڑکوں پہ گھسیٹا جائے گا ۔
Zia Sarwar Qurashi
About the Author: Zia Sarwar Qurashi Read More Articles by Zia Sarwar Qurashi: 43 Articles with 42396 views

--
ZIA SARWAR QURASHI(JOURNALIST) AJK
JURA MEDIA CENTER ATHMUQAM (NEELUM) AZAD KASHMIR
VICE PRESIDENT NEELUM PRESS CLUB.
SECRETORY GENERAL C
.. View More