پاکستانی الیکشن مہم میں آزاد کشمیر کی ” تن من دھن“ سے شرکت

ایک وقت تھا کہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں پاکستان کی سیاست میںغیرجانبدار تھیں اور سب پاکستانی سیاسی جماعتوں میں انہیں غیر جانبداری کی وجہ سے قبولیت کی حیثیت حاصل تھی۔لیکن اس وقت آزاد کشمیر میں کشمیر کاز سے متعلق” آنکھوں کا لحاظ“ باقی تھا۔اسی لئے علامتی طور پر ہی سہی لیکن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کا بھرم قائم تھا۔لیکن اب آزادکشمیر کی سیاسی انحطاط پزیری بدتر ین نتائج کے نظارے لئے ہوئے ہے۔

پاکستان کے پارلیمانی انتخابات کے نقشے میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل نہیں لیکن اس کے باوجود الیکشن2013ءمیں آزاد اور گلگت بلتستان کے مقامی رہنما پاکستان کے مختلف علاقوں میںمختلف پاکستانی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں خلوص نیت سے متحرک ہیں۔ خلوص نیت اس لئے کہ الیکشن کے نتائج پہ ہی ان کے سیاسی مستقبل کا انحصار ہے ۔پاکستان کے یہ پہلے الیکشن ہیں جس میں آزاد کشمیر کی تمام پارلیمانی جماعتیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم ” تن من دھن“ سے چلا رہی ہیں کیونکہ اب آزاد کشمیرکی سیاست پر الیکشن نتائج کے گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ہوں گے۔

آج آزاد کشمیر کی سیاست حکمران پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ (ن) ،آزاد کشمیر پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی اور مسلم کانفرنس کی صورت پاکستانی سیاست کی مرہون منت ہو چکی ہے۔وزیر اعظم چودھری عبدالمجید تمام کابینہ سمیت تمام وسائل کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں میں پیپلز پارٹی کی الیکشن مہم میں مصروف ہیں۔آزاد کشمیر کے سرکاری وسائل بھی ان انتخابات میں استعمال کرنے کی اطلاعات ہیں۔اپوزیشن رہنما راجہ فاروق حیدر خان مسلم لیگ ن کے اپنے ساتھیوں اور اتحادی سردار خالد ابراہیم کے ساتھ پاکستان میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم میں سر گرم ہیں۔جماعت اسلامی کے رہنما پاکستان میں جماعت اسلامی کی مہم چلا رہے ہیں۔سردار عتیق احمد خان پاکستان کی ایک سے زائد سیاسی جماعتوں کی حمایت کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں ۔اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایم کیو ایم کے دو ارکان اسمبلی بھی اپنے ”فرض منصبی“ کی ا دائیگی میں مصروف ہیں۔اس صورتحال سے واضح ہے کہ اب آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کی دلچسپی اورسمت کا رخ’ سیز فائر لائین‘ کے پار نہیں بلکہ کوہالہ پار اسلام آباد کی جانب ہے ۔اب پاکستان میں جس پارٹی کی بھی حکومت بنے گی آزاد کشمیر میں اس کی حمایتی جماعت کو ” حصہ بقدر جسہ“ میسر آئے گا۔اور تو اور آزاد کشمیر کے ” نیشنلسٹ“ کہلائے جانے والے کئی افراد کی طرف سے عمران خان کی حمایت دیکھنے میں آ رہی ہے۔اب آزاد کشمیر کی سیاست مکمل طور پر پاکستان کی سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔

آزاد کشمیر کی یہ پارلیمانی تاریخ ہے کہ پاکستان کے ہر حکمران کو خراج تحسین پیش کرنے کی قرار دادیں منظور کی جاتیں ہیں اور ہر موجود حکمران کو پاکستان و کشمیر کا عظیم لیڈر اور ناگزیر قرار دیا جاتا ہے۔سیاسی مبصرین اسے چاپلوسی کی سیاست کا نام دیتے ہیں۔اسی حوالے سے چند ہفتے قبل مظفر آبادمیں اسمبلی کے ایک رکن سے پاکستانی حکمرانوں کی تعریفوں پر مبنی آزادکشمیر اسمبلی کی قراردادوں کی” سوچ واپروچ“کے متعلق بات کی تو آزادکشمیر اسمبلی کے اس رکن نے ،جو اسی وقت اسمبلی اجلاس میں شرکت کر کے باہر آئے تھے ، تلملاتے ہوئے کہا کہ” اصل بات پوچھو تو نہ پاروالے آزاد ہیں اور نہ ہم آزاد ہیں،ہم سے ربڑ سٹیمپ کی طرح کام لیا جاتا ہے“۔

عالمی برادری متنازعہ ریاست کشمیر کو سیز فائر لائین کی بنیاد پر انڈیا اور پاکستان کے اقرار سے” تقسیم شدہ “قرار دے چکی ہے اور سیز فائر لائین کو اب عالمی اصطلاح میں ” ڈسپلن بارڈر“ کہا جاتا ہے۔تقسیم کشمیر کی اسی بنیاد پر دونوں ملکوں کی درمیان ’انڈس واٹر ٹریٹی‘ کرایا گیا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کشمیر کی ایک بڑی علامت کے طور پر قائم ہے۔اب اگر کوئی آزاد کشمیر میں ریاستی تشخص پر سمجھوتہ نہ کرنے،ریاستی تشخص کو بچا لینے کے بیانات دیتا ہے تو اسے ایک سیاسی لطیفے کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔البتہ جو اس بارے میں ادراک رکھتے ہیں ان کے لئے ایسے بیانات زخموں پہ نمک پاشی کا کام کرتے ہیں۔

آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر ،جو تمام متنازعہ ریاست کشمیر کی نمائندہ حکومت کے طور پر وجود میں آئی تھی، پہلے گلگت بلتستان سے لاتعلق ہوئی اور بھر مقبوضہ کشمیر کی نمائندگی کا دعوی بھی تحلیل ہو کر رہ گیااور یوں ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ ڈھائی اضلاع کی آزاد حکومت کے بجائے دس اضلاع پر مبنی ”مظلوم ، مسکین اور تابعدار “ آزاد کشمیرحکومت بن گئی ۔آزادکشمیرکے بعض حلقوں کی یہ خواہش بھی ہے کہ آزاد کشمیر کو صوبائی درجہ دےدیاجائے۔آزاد کشمیر نے تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کا کردار ادا کیا یا نہیںاس کا فیصلہ تاریخ خود کر ے گی لیکن اگر آزاد کشمیر مسئلہ کشمیر کے حتمی حل سے پہلے ”متنازعہ علاقے “ کی حیثیت سے دستبردار ہو جائے تو یہ بڑی زیادتی ہو گی،نا صرف اپنے ساتھ بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بے مثال قربانیوں سے بھی ۔زمینی حقیقت یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر تقسیم ہو چکی ہے اور اس تقسیم کو حتمی شکل قرار دینے کے لئے مستقل و پائیدار اقدامات وقفے وقفے سے جاری ہیں۔اگر کوئی اس راہ میں مزاحم ہے تو وہ صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام ہیں۔ متنازعہ ریاست کشمیر کے سیاستدان اگر مسئلہ کشمیر اور متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے حتمی حل تک دہلی اور اسلام آباد کے ساتھ سیاسی اتحاد سے گریز کرتے تو یہ ان کی رہنمائی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو تا۔دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل سے پہلے ایسے اقدامات کی کسی طور حمایت نہیں کی جانی چاہئے جس سے تقسیم کشمیر کو حتمی حقیقت کی حیثیت حاصل ہو جانے کی راہ مزید ہموار ہو۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614876 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More