ملک دشمن کون؟ اسلام پسند یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جب سے سوات میں نظام عدل کا معاہدہ کیا گیا ہے اس وقت سے کچھ مخصوص قوتوں کو یہ معاہدہ پسند نہیں آرہا اور انکی پوری کوشش ہے کہ اس کو سبوتاژ کیا جائے اس کے لیے ایک جعلی ویڈیو بنا کر دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی مقصد اس ویڈیو کا یہ تھا کہ اس طرح صدر مملکت جناب آصف علی زرداری اس معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے، اور یوں یہ معاملہ ختم ہوجائے گا لیکن وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے - وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ یہ ویڈیو جاری کرنے والوں نے اپنی طرف سے بڑا کاری وار کیا تھا اور ایک مضبوط چال چلی تھی لیکن وہ جو قرآن کہتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ( اللہ کمی بیشی معاف فرمائے) پھر ایک چال وہ چلے اور ایک چال اللہ نے چلی اور اللہ سے بہتر چال کس کی ہوتی ہے۔تو ہوا یہ کہ جو معاملہ دو ماہ سے ہوا میں معلق تھا اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر صدر آصف علی زرداری نے اس معاہدے پر دستخط کردیے اور یوں یہ چال اپنے چلنے والوں پر ہی پلٹ گئی۔

اب ہو یہ رہا ہے کہ دین بےزار قوتیں اس معاہدے کے خلاف شور و غوغا مچا رہی ہیں۔ان کی نیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً ڈیڑھ سال سے سوات کی وادی انگارہ بنی ہوئی تھی، یہاں غیرملکی ایجنٹ طالبان کے روپ میں کاروائیاں کر رہے تھے۔ یہاں اسکول بند کیے جارہے تھے، بالخصوص بچیوں کے اسکولوں پر تو خاص طور پر پابندی تھی۔ یہاں لوگوں کو سڑکوں پر سر عام ذبح کیا جارہا تھا اور یہاں افواج پاکستان اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔ کسی کی جان مال اور آبرو محفوظ نہ تھی۔سیکورٹی فورسز کے جوان مارے جارہے تھے۔لوگ علاقے سے نقل مکانی کررہے تھے اور پوری وادی میں ایک افراتفری پھیلی ہوئی تھی حکومتی رٹ کا نام و نشان نہ تھا۔اس وقت کسی کو اس کی فکر نہیں تھی کہ یہاں کے حالات بہتر کیے جائیں لیکن اب جبکہ وہاں زندگی معمول پر آرہی ہے،بچیوں کے اسکول کھل گئے ہیں امن قائم ہورہا ہے ہلاکتیں کم ہوری ہیں تو ان کو یہ بات پسند نہیں آرہی ہے۔

اوپر بیان کیے گئے حالات کی روشنی میں صوبہ سرحد کی حکومت نے حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے مولانا صوفی محمد سے مداخلت کی درخواست کی۔ جس پر مولانا صوفی محمد نے آکر وہاں کی صورتحال کو سنبھالا، ( واضح رہے کہ مولانا صوفی محمد وہاں کی ایک بااثر شخصیت ہیں اور حکومت نے امریکی ایما پر ان پر اور ان کی تنظیم پر پابندی عائد کی تھی ) اور اے این پی کی حکومت نے نطریاتی اختلافات کے باوجود محض عوام کی خاطر ایک معاہدہ کیا گیا جس کی توثیق پارلمینٹ نے بھی کرلی ہے اور یہ معاہدہ باقاعدہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد نافذالعمل ہوا ہے۔ لیکن دین مخالف قوتوں کو یہ بات پسند نہیں آرہی ہے۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ اچھا اگر یہ معاہدہ ختم کر دیا جائے تو اس کے بعد کیا آپ کے پاس کوئی حل ہے؟ تو اس سوال کا ان لوگوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا ہے۔یہاں یہ بات یاد رکھنےکی ہے کہ جب افغانستان اور عراق میں اسلام پسندوں نے امریکی اور برطانوی فوجیوں کو اور ان کے لوگوں کو مارنا شروع کیا تھا تو اس وقت یہی سارے نام نہاد دانشور حضرات لوگوں کو یہ بتا رہے تھے کہ یہ دین نہیں ہے لڑنے کے بجائے افہام و تفہیم سے معاملات حل کیے جانے چاہیں۔اور یہ کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی معاہدے کیے ہیں ( ان میں کچھ بھائیوں کے پسندیدہ جناب روف کلاسرہ صاحب بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے کالم میری دادی اس لیے تو نہیں ماری گئی تھی میں اسی بات پر زور دیا تھا کہ جنگ کے بجائے مذاکرت کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے جنگ کی ویب سائٹ پر یہ کالم بھی پڑھا جاسکتا ہے) ان لوگوں کی نیت تو اسی بات سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ اگر مسلمان جارح قوتوں کے خلاف مزاحمت کریں تو ان کو امن و آشتی کا سبق سنایا جائے، عفو درگرز اور سیرت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی مطلب کی باتوں کو نکال کر بتایا جاتا ہے کہ مذاکرات اور معاہدات سے مسائل حل کیے جانیں چاہیئں لیکن جس اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں ان کے ساتھ معاہدہ کیا جائے اور مسلمان بھائیوں کی جان و مال کا تحفظ کیا جائے تو یہ بات ان امریکی کاسہ لیس نام نہاد دانشوروں سے برداشت نہیں ہوتی ہے۔ میری اپنے قارئین اور عوام سے یہی گزارش ہے کہ وہ ان تمام باتوں پر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ حقیقت میں ملک دشمنی کون کر رہا ہے؟ دین پسند قوتیں یا سوات معاہدے کے مخالفین اور نام نہاد دانشور۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1453493 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More