بلوچستان کے مسائل اور پائنا کا غیر معمولی اجلاس

1977 ءکی بات ہے، بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک زوروں پر تھی، میرے والد محترم ریاض احمد فیضی شدید زخمی حالت میں میو ہسپتال کے AVH وارڈ جس کو عرف عام میں گورا وارڈ کہا جاتا ہے، کے ایک پرائیویٹ کمرے میں داخل تھے۔ میں اس وقت 6/7 سال کا تھا لیکن میرے حافظے میں وہ یاداشتیں اب بھی دھندلی دھندلی موجود ہیں اور اس وقت کی تصاویر دیکھنے سے ایک بار پھر سب کچھ تازہ ہوجاتا ہے۔ وہیں ایک قریبی کمرے میں جناب الطاف قریشی بھی بیماری اور نظربندی کی حالت میں رہائش پذیر تھے۔ جب میں نے ان کو پہلی بار دیکھا تو ان کی سرخ رنگت سے یہی سمجھا کہ وہ کوئی انگریز ہیں لیکن جب انہوں نے مجھ سے اردو میں بات کی تو مجھے بےحد حیرت ہوئی کہ ایک انگریز کتنی شستہ اور خوبصورت اردو بولتا ہے۔ میرے والد بزرگوار اور قریشی صاحب دونوں ہی ضمیر کے قیدی تھے اور اس وقت کی فسطائیت کے خلاف جہاد میں مصروف تھے۔ دونوں کا تعلق بھی صحافت سے تھا اور آپس میں گہری دوستی بھی، چنانچہ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا، ویسے ویسے میں نے ان دونوں کی دوستی بھی بڑھتی ہوئی دیکھی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد میری نا اہلی کی وجہ سے جناب الطاف قریشی سے رابطوں میں کمی آتی گئی لیکن وہ تعلق خاطر جو میرے والد صاحب اور قریشی صاحب کے مابین تھا، میں اسے قائم رکھنے کی سعی کرتا رہا، قریشی صاحب کی محبت میں بھی کبھی کمی واقع نہیں ہوئی اور وہ اکثر ملاقات پر پائنا کے اجلاس میں حاضری دینے کا کہتے تھے۔ چنانچہ کچھ دن قبل جب الطاف قریشی صاحب کا فون آیا اور انہوں نے پائنا کے اجلاس کی دعوت دی تو مجھے از حد خوشی ہوئی۔ انہوں نے ساتھ یہ بھی ڈیوٹی لگائی کہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایم اے شاہد صدیقی صاحب (صدیقی صاحب اس وقت ابھی سپریم کورٹ کے جسٹس مقرر نہیں ہوئے تھے) کو بھی ساتھ لے کر آﺅں۔ میں نے محترم صدیقی صاحب سے رابطہ کیا اور ان کو ساتھ لے کر پائنا کے خوبصورت راﺅنڈ ٹیبل پر پہنچ گیا۔ اس راﺅنڈ ٹیبل کا موضوع میثاق جمہوریت تھا۔ 2/3 روز قبل دوبارہ جناب الطاف قریشی صاحب کی فون کال موصول ہوئی اور انہوں نے پائنا کے بلوچستان کے موضوع پر منعقد ہونے والی راﺅنڈ ٹیبل میں شرکت کی دعوت دی۔ چنانچہ اس بار میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری لطیف سراء کو ساتھ لے کر پائنا راﺅنڈ ٹیبل میں شرکت کے لئے پہنچا۔ وہاں پچھلی بار کی نسبت زیادہ مہمان موجود تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں اللہ نواز صاحب صدارت فرما رہے تھے۔ مہمانوں میں ایک شخصیت ایسی بھی تھی جو اپنی زندگی کا بہت طویل عرصہ بلوچستان میں گزار چکی ہے اور وہاں کے حالات، مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بلاشبہ اتھارٹی سمجھی جاتی ہے، چنانچہ جب اور یا مقبول جان صاحب نے خطاب شروع کیا تو تمام حاضرین ہمہ تن گوش تھے۔ انہوں نے بہت مفصل اور مدلل انداز میں بلوچستان کی تاریخ سے بھی آگاہ کیا، موجودہ حالات، گھمبیر مسائل اور ان کے حل کی طرف بھی توجہ دلائی۔ جناب اوریا مقبول جان نے سات نکاتی ایجنڈہ بھی دیا جس پر اگر عملدرآمد کر دیا جائے تو پاکستان کے تمام ذی شعور لوگ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان جو اس وقت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے اور جہاں سے علیحدگی کے بارے میں آوازیں اٹھ رہی ہیں، یہاں تک کہ امریکہ اور ہندوستان سے مدد کے لئے بھی اپیلیں کی جارہی ہیں، اس کے حالات نہ صرف سدھر سکتے ہیں بلکہ وہاں کے عوام و خواص بھی مطمئن ہوسکتے ہیں۔ جناب اوریا مقبول جان نے سات نکاتی ایجنڈے میں کہا کہ بلوچستان کے لوگوں میں حکمرانوں کے بارے میں اعتماد بحال کیا جائے، صوبے میں از سر نو آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کیا جائے تاکہ بلوچستان کی حقیقی قیادت سامنے آسکے، ساتھ ہی ساتھ بی اے کی شرط بھی ختم کی جائے جس کا سہارا لے کر وہاں کی اصل قیادت کو منظر سے ہٹایا گیا ہے۔ نیم عسکری دستے وزیر اعلیٰ کے ماتحت ہوں کیونکہ ابھی صورتحال یہ ہے کہ ایف سی کی ایک چیک پوسٹ ختم کرنے یا اس کی جگہ بدلنے کے لئے بھی وزیر اعلیٰ کو وفاقی حکومت کو بیس بیس خط لکھنے پڑتے ہیں۔ بلوچ طلبہ کو پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں میں داخلے دئے جائیں تاکہ ان کے اذہان میں جو شکوک و شبہات ہیں وہ ختم کئے جاسکیں۔ آئین سے مشترکہ فہرست خارج کی جائے اور صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے۔ جس طرح پنجاب ، سرحد اور سندھ کے عوام زمین کے اوپر وسائل کے مالک ہیں اسی طرح بلوچستان کے عوام کو زیر زمین وسائل کا مالک تسلیم کیا جائے اور بہتر حکمرانی کے لئے صوبوں کی تعداد بڑھائی جائے جس طرح ہندوستان نے اپنے صوبوں کی تعداد بڑھائی ہے۔ ایک اور مقرر نئیر محمود نے تجویز دی کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کےلئے کل جماعتی کانفرنس منعقد کی جائے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں احتجاج کا موجودہ سٹائل بلوچ روایات کے مطابق نہیں۔ بلوچ کبھی سکولوں، بنکوں اور گاﺅں کو آگ نہیں لگاتے، بلکہ کچھ بیرونی طاقتیں اپنا کردار ادا کررہی ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ جناب الطاف قریشی صاحب نے غیر ملکی پریس کی رپورٹس کا حوالہ دیا کہ امریکہ اور بھارت بلوچستان میں بدامنی پھیلا رہے ہیں تاکہ انہیں وہاں موجود تیل کے ذخائر تک رسائی حاصل ہوسکے۔ دیگر مقررین نے بھی بہت فکر آمیز باتیں کیں۔ وہاں اتنے پڑھے لکھے اور Intelectual لوگوں میں بیٹھ کر نہ صرف بہت اچھا لگا بلکہ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یقیناً الطاف قریشی صاحب پاکستان کے لئے بہت اچھا کام کررہے ہیں، اور بلوچستان کے حوالے سے راﺅنڈ ٹیبل اجلاس غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا۔

بلوچستان اور سرحد کے لوگ جو اس وقت ایک عذاب سے گزر رہے ہیں، ان کے لئے آج تک ہم نے کچھ نہیں کیا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم پنجاب اور سندھ کے لوگ آگے آئیں اور اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں۔ سرحد اور بلوچستان کے لوگ بہت محبت کرنے والے ہیں۔ ان کی محبت کے دو واقعات آج تک میرے ذہن پر نقش ہیں۔ میری عمر کوئی آٹھ برس تھی جب میں اپنے والد صاحب کے ساتھ تبلیغی جماعت کے ساتھ سوات گیا،وہاں ایک انتہائی خوبصورت علاقہ ہے دیر، جب وہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا، اب لوگ بس میں بیٹھ گئے، میں اپنے والد صاحب کی انگلی تھامے بس میں بیٹھنے لگا تو ایک میری عمر کا بچہ تھا جس نے سر پر بہت خوبصورت ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ میرے والد صاحب نے وہ ٹوپی اس سے لے کر میرے سر پر رکھی اور ایک فوٹو بنائی، ٹوپی اس بچے کو واپس کی اور ہم بھی بس میں سوار ہوگئے۔ ابھی بس روانہ نہیں ہوئی تھی کہ ایک آدمی بس میں داخل ہوا اور میرے والد صاحب کو کہنے لگا کہ آپ اپنے بچے کو لےکر نیچے آجائیں۔ والد صاحب نے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے؟ اس نے کہا بس آپ سے کہہ دیا کہ آجائیں تو آجائیں! میرے والد صاحب نے میرا ہاتھ تھاما اور ہم باپ بیٹا بس سے اتر آئے۔ نیچے اترے تو اس آدمی نے والد صاحب سے ہاتھ ملایا، مجھے بھی پیار کیا اور اس ٹوپی والے بچے کے سر سے ٹوپی اتار کر میرے سر پر رکھ دی اور خالص پٹھانی لہجے میں کہا ”یہ ٹوپی ہمارا طرف سے تحفہ لے جاﺅ“ والد صاحب نے کہا کہ یہ ٹوپی آپ کے بچے پر زیادہ اچھی لگ رہی ہے، اس نے اصرار کیا اور والد صاحب نے انکار، چنانچہ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے یہ آپ مت لیں، لےکن مجھے اپنا ایڈرےس لکھ دیں اور ساتھ ہی ایک دھاگے سے میرے سر کا سائز لیا۔والد صاحب نے اس کو ایڈریس دے دیا، ٹھیک پندرہ دن بعد ڈاک کے ذریعہ ہمارے گھر اس سے بھی خوبصورت ٹوپی پہنچ چکی تھی جس کی محبت کی خوشبو آج بھی میرے ساتھ ہے۔ دوسرا واقعہ کوئٹہ کا ہے جہاں میں 12/13 سال کی عمر میں ایک سکاﺅٹ جمبوری میں اپنے سکول کی نمائندگی کے لئے گیا۔ وہاں ایک مارکیٹ میں جانا ہوا، دکاندار کو جب پتہ چلا کہ میں لاہور سے آیا ہوں تو اس نے ان چند چیزوں کی قیمت لینے سے انکار کردیا جو میں نے وہاں سے لی تھیں۔ اس نے کہا کہ یہ ہماری طرف سے تحفہ ہیں۔ کیا ہم باقی پاکستان کے لوگ سرحد اور بلوچستان کے عوام کو بھرپور محبت کا تحفہ نہیں دے سکتے؟ کیا ہم ان کے حقوق کی جنگ نہیں لڑ سکتے؟ کیا وکلاء کے لئے صرف عدلیہ بحالی تحریک توشہ آخرت ہے؟ کیا پورے ملک کے عوام کو سرحد اور بلوچستان کے عوام سے اظہار یکجہتی نہیں کرنا چاہئے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو دیر مت کریں، اپنے اپنے حصہ کا فرض ادا کردیں، اپنے حصہ کا دیہ جلا دیں، کہیں دیر نہ ہو جائے
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 208214 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.