جمہوریت رہے نہ رہے

 مانا کہ جمہوریت بڑی اچھی چیز ہے لیکن انسانیت سے زیادہ اچھی نہیں ،انسانیت دوسروں کو جینے کا حق دیتی ہے اورجمہوریت انسانیت کے اُصولوں پر عمل کرنے کو کہتے ہیں ۔ اگر دنیا میں انسانیت ختم ہوجائے تو جمہوریت کس طرح زندہ رہ سکتی ہے۔دنیا کے تمام انسانوں کے لیے مقام فکر ہے کہ آج انسانیت کم یاب نہیں نایاب ہونے کو ہے ۔حقوق نسواں ،بچوں کے حقوق ،بزرگوں کے حقوق ،معذوروں کے حقوق اور کئی قسم کے حقوق کی بات تو کی جاتی ہے لیکن آج انسانیت کے حقوق و بقاء کی بات کوئی نہیں کرتا ۔کسی کو کوئی حق ملے نہ ملے میری طرف سے پاکستانی قوم کو (نام نہاد )جمہوریت مبارک جواپنی آئینی مدت یعنی پانچ سال پورے کرنے کو ہے۔پاکستانی سیاسی قیادت اس فخر کے ساتھ عام انتخابات کی تیاری میں ہے کہ انہوں نے پانچ سال تک جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھ کر قوم پر احسان کیاہے۔حکمران کہتے ہیں کہ انہوں نے جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے کر کے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیاہے بظاہر لگتا بھی کچھ ایسا ہی ہے لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اس کارنامے کا ثمر کس کے حصے میں آئے گا؟میں تو فقط اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جو زندہ بچے گا اُس کو جمہوری نظام کے تسلسل سے فوائد حاصل ہوں گے۔یہ بات تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کس کے جینے کا سامان باقی ہے اورکس طبقے کو جینے کا حق حاصل ہے جی ہاں حکمران طبقے کی بات کررہاہوں۔ عوام کے حصے میں ابھی تک توصرف جمہوریت ہی آئی ہے۔حکمران ہرسوال کے جواب میں جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں ۔عوام مایوس نہ ہوں کیاہوااگر بجلی نہیں،کیا ہوا اگر گیس نہیں ۔کیاہوا اگر موبائل سروس نہیں،کیاہوا اگر پانی نہیں ،کیا ہوااگر روزگار نہیں ،کیا ہوا اگر امن و امان نہیں،کیا ہوا اگرانصاف زندہ نہیں،کیا ہوااگرقانون کی حکمرانی نہیں، کیا ہوا جو انڈسٹری تباہ و برباد ہوگئی ہے،کیا ہوا اگر غریب عوام کے تن پر کپڑا نہیں ،کیا ہوااگرکھانے کو روٹی نہیں ،کیا ہوا جوغریب کا بچہ پڑھ لکھ نہیں سکتا،کیا ہوا جوغریب اپنی بیماری کا علاج نہیں کروا سکتا، کیا ہوا جو غریب عوام بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکرخودکشی کرلے،کیا ہوا جو ملک میں زندہ رہنے کاحق صرف امیر کو ہے ۔عوام پریشان نہ ہوں حکمران اور باقی سیاسی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ عوام کے پاس زندہ رہنے کا کوئی سامان باقی نہیں رہا،اسی لیے تو پیارے حکمرانوں نے جمہوریت کا مرکب تیار کیا ہے ،قوم کے ہر دکھ اور درد کی دوا ہے جمہوریت۔جسے بھوک لگے وہ کاغذ پر جمہوریت لکھ کر کھالے اور اگر پیاس لگے تو اپنے ہی آنسو پی لے ،جس کے پاس کپڑے خریدنے کے لیے پیسے نہیں وہ اپنے جسم پر جمہوریت لکھ لے ،مختصریہ کہ جمہوریت کھاؤ،جمہوریت پیو،جمہوریت پہنو،جمہوریت سنو،بولو،پڑھو،لکھو،اور اس کے علاوہ بھی اگر کوئی مشکل پیش آئے تو ہر دھوکے کے بعد سو مرتبہ جمہوریت پڑھ کر دم کرلومکمل آرام آجائے گااگر پھربھی افاقہ نہ ہوتو قریبی کرپٹ ترین سیاست دان سے رجوع کریں(نوٹ خبردار، کیونکہ جمہوریت ابھی نایاب ہے اس لیے جمہوریت پر عمل کرنا سخت منع ہے ۔قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو حوالہ جمہوریت کیا جائے گا)قارئین محترم اس طرح کے خیالات ہر پاکستانی کے دل و دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں جو ملک میں موجود ہرمسئلے اور مشکل کی ذمہ داری صرف حکومت پر ڈالتے ہیں ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکمران انسانیت کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے ۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایسے حکمران ہمارے حصے میں کیوں آئے ؟اگر ہم مسلمان کی حیثیت سے سوچیں تو یہ بات بڑی واضع ہے کہ جیسی قوم ویسے حکمران ۔بہت سے دوسرے عذابوں کی طرح برُے حکمران بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ عذاب ہیں ۔مطلب کہ ہمیں اگر اچھے حکمرانوں کی طلب ہے تو پھر ہمیں اپنے اعمال درست کرنے پڑیں گے کیونکہ درست سمت میں سفر کیے بغیر منزل نہیں ملا کرتی ۔ایک دوست نے بذریعہ ای میل بہت ہی خوبصور ت بات کہی کہ بیمار قوم یا کسی بھی بیمار شخص کی بیماری کا علاج اس وقت تک ممکن نہیں جب تک صحیح تشخیص نہیں ہوجاتی۔آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے تولگتا ہے کہ قوم کے گناہوں کی وجہ سے عذاب الٰہی ناز ل ہورہے ہیں ۔یعنی ہمارے گناہ ہی سب سے بڑی بیماری ہیں ۔معاشرے میں برائیاں یعنی گناہوں کے پھیلنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے احکام الٰہی پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔پاکستان کی بنیاد لاالہ اﷲ تھی لیکن بد قسمتی سے ہم نے اﷲ تعالیٰ کی پاک ذات پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے مال و دولت پر توکل کرلیا جس نے ہمیں فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کردیاہے۔جہاں تک بات ہے پاکستان کے حالات کی توملک خُدا داد میں برائیوں کی اصل ذمہ دار صرف حکومت نہیں بلکہ خود پاکستانی قوم بھی ہے۔ہر شخص ہر مسئلے اور ہر گناہ کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود مطمئن ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو پاک دامن تصور کرتا ہے ۔کیا ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کافی نہیں کیوں ہم اپنی ہر مشکل ہرمسئلے کا حل غیر مذہب قوانین میں تلاش کرتے ہیں ؟اگر ہم اپنے آپ کو زندہ قوم سمجھتے ہیں تودن رات بری حکومت کا رونا رونے کی بجائے اپنی اُن برائیوں کی نشاندہی کریں ۔جن کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے اور اُن برایؤں کواﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت کے مطابق دور کرنے کی کوشش کریں ۔اگر یہ کام نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم زندہ نہیں مردہ قوم ہیں ۔رہی بات جمہوریت کی توجمہوریت رہے نہ رہے انسانیت باقی رہنی چاہیے ۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں سچے دل سے توبہ کرنے اور توبہ پر قائم رہنے کی توفیق و طاقت عطا فرماے(آمین)
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 513969 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.