کیا محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سیاست میں آنے کافیصلہ درست ہے؟

مولانہ کوثر نیازی نے اپنی کتاب "اور لاین کٹ گی " میں لکھا ہے کہ "جب وہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملکر واپس جارہے تھے تو بھٹو نے اپنی میزپر بہت زور کا ہاتھ مارکرکہا تھا اب میں ان ہنددوں کو دیکھ لونگا"، اصل میں 1974 کےبھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھاکر گذارہ کرینگے لیکن ہم بھی ایٹم بم بناینگے، اور جلدہی ان کی ملاقات ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے والے ڈاکٹرقدیر خان سے ہوئی، ڈاکٹر صاحب کراچی اسٹیل مل میں نوکری کرنا چاہتے تھے لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے بات چیت کی تو جلدہی یہ معلوم کرلیا کہ ڈاکٹر صاحب ایٹمی سائنس دان ہیں۔ بھٹوسے ملاقات کے بعد جب وہ واپس جارہے تھے تب بھٹو نے کہا تھا "اب میں ان ہنددوں کو دیکھ لونگا"۔

31 مئی 1976 سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا یہ سفر 28 مئی 1998 میں پاکستان کے کامیاب ایٹمی تجربے پر ختم ہوا- یہ ایٹمی تجربہ بھارت کے ایٹمی تجربہ 11 مئی 1998کے ٹھیک 17 دن بعد کیا گیا۔ گزشتہ بیس برسوں میں پاکستان اور بھارت پانچ مرتبہ جنگ کے دہانے پر پہنچے ۔بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد تو بھارت نے 13ماہ تک اپنی ساری فوج پاکستانی سرحد پر حالت جنگ میں رکھی۔ بھارت کو علم تھا کہ پاکستان روایتی ہتھیاروں میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا مگر بھارت کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ پاکستان اپنی جغرافیائی سلامتی کو خطرے میں دیکھ کر ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال بھی کرسکتاہے۔ یہ ایٹمی ہتھیار ہی تھے جن کی بدولت یہ خطہ جنگ کی تباہی سے محفوظ رہا۔ ڈاکٹر قدیرخان اور ان کے ساتھیوں کی محنت اور کامیابیوں کے طفیل یہ ممکن ہوا کہ آج پاکستان کی جغرافیائی سلامتی کو کوئی بیرونی خطرہ لاحق نہیں۔اسکے علاوہ محسن پاکستان نے ایٹمی میزالوں کے بھی کامیاب تجربے کیے ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے عالمی یونیورسٹیوں میں ایک سو سے زیادہ لیکچردیئے، ان کو مختلف اوقات میں مختلف معتبر تنظیموں اور اداروں کی طرف سے 42 طلائی تمغے دیے گے، انہوں نے ایک سو اٹھاسی سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔ انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر قدیر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی۔ کہوٹہ میں جہاں ڈاکٹر صاحب نے کام کیا پہلے اسکا نام انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز تھا مگر یکم مئی 1981 سے اسکا نام بدل کر "ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز" رکھ دیا گیا۔

2004 میں مشرف حکومت سے اختلاف کے باعث ڈاکٹر قدیر خان اپنی ذمیداریوں سے علیدہ ہوگے ، اسکے بعد انہوں نےسیچٹ sachet کے نام سے ایک این جی او بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہے۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب جن کو ادب سے بھی لگاو ہے روزنامہ جنگ میں " سحر ہونے تک" کے عنوان سے کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ شروع شروع میں ڈاکٹر صاحب مختلف موضع کا انتخاب کرتے رہے مگر آہستہ آہستہ ان کے کالم سیاسی رنگ اختیار کرتے گے۔ بات یہیں تک رہتی تب بھی کچھ نہ تھا، مگر کچھ عرصے پہلے خبرملی کہ ڈاکٹر صاحب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کررہے ہیں اور اسکا وہ اعلان عمران خان کے لاہورکے جلسہٴ میں کرینگے مگر وہ وہاں نہیں گے اور تحریک انصاف کے جلسے کے بعد ان کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے فرمایا "کچھ دوستوں نے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی لیکن میں تیرتی ہوئی مچھلی ہوں، کوزے میں بند نہیں ہونا چاہتا۔ خدا نے مجھے عزت، شہرت اور بلندی دی۔ اب یہی خواہش ہے کہ ایمان سلامت رہے"۔ اسی بات کو دہراتے ہوے ایک ٹی وی پروگرام میں ڈاکٹر صاحب نےفرمایا ”مجھے دوستوں نے سیاست کے میدان میں گھسیٹنے اور اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تحریک انصاف کے لوگوں نے بھی کئی مرتبہ رابطہ کیا لیکن میں ایک آزاد شہری اور سیدھا سادہ انسان ہوں۔ میں ان چکرں میں نہیں پڑنا چاہتا“۔ سیاست ایک ایسا نشہ ہے کہ جو بھی اسکا شکار ہوجائے وہ پھر اسکو چھوڑتا نہیں، ڈاکٹر صاحب جو بھٹو سے مشرف تک ہر حکومت کے قریب رہے ہیں اسلیے سیاست کا نشہ وہ بھی کربیٹھے اور اپنی نئی سیاسی جماعت تحریکِ تحفظ پاکستان بنائی ہے اور جس کی رجسٹریشن 17 جولائی 2012 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کروا دی گئی ہے اور اب الیکشن کمیشن سے میزائل کانشان مانگاہے۔ تحریکِ تحفظ پاکستان کے سیکریٹری جنرل خورشید زمان نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، ملک کی حالت بدلنے کیلئے سیاست میں آئے ہیں اور وہ آخری امید ہیں جبکہ باقی تمام سیاسی جماعتیں ناکام ہوچکی ہیں۔ خورشید زمان کے مطابق ڈاکٹر صاحب کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ خود الیکشن میں کھڑے ہوں گے یا مہم کے زریعے پارٹی کی رہنمائی کریں گے۔

محترم ڈاکٹر صاحب! ہم پاکستانی جو اسوقت بٹی ہوئی قوم ہیں، ہم جولسانی ، مذہبی، علاقائی تعصب کا بھرپور شاہکار ہیں مگر اس کے باوجود ہم آپ کے حوالے سے اس بات پر متفق ہیں کہ آپ محسن پاکستان ہیں۔ ہم آپ کو اسلامی دنیا کے پہلے ایٹم بم کے خالق اور ہیرو کے طور پر جانتے ہیں- ہمیں یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ ہمارے دل میں آپ کا کیا مقام ہے۔ بھارت کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد اگر پاکستان ایٹمی صلاحیت سے محروم رہ جاتا تو آج پاکستان کی قومی سلامتی بہت بڑے خطرات سے دو چار ہوتی۔ جوہری صلاحیت کی بناہ پر پاکستان کا ایٹمی پروگرام آپ کے نام سے جوڑا گیا ہے۔ ہمیں 4 فروری 2004 کا وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب آپ کو ٹی وی پر لاکر آپ کو ایک ناکردہ گناہ کے اعتراف پر مجبور کیا گیا، آپ کو زیر حراست رکھنا، آپ کو ایک موذی مرض لاحق ہونے کی تکلیف دہ خبر، آپ کے خلاف بہودہ الزامات، یہ سب کچھ آپکے چاہنے والے پاکستانیوں کے لئے باعث اذیت تھا۔ آپ اُن چُنے ہوئے لوگوں میں سے ایک ہیں جس سے پورا پاکستان پیار کرتا ہے اور آپ کےلیےاس سے بڑا انعام کیا ہوگا کہ اللہ تعالی نے سارے مسلمانوں کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دی ۔ پاکستانیوں نے آپ سے بے پناہ محبت کی ہے، اتنی بے پناہ کہ یہ محبت عقیدت کی حدوں کو چھونے لگی۔ لیکن اب آپ نے بھی ہم جو بٹی ہوئی قوم ہیں جو ایک بات پر متفق ہیں کہ آپ محسن پاکستان ہیں اسکو بانٹ دیا، آپکے سیاست میں آنے کی وجہ سے ہمارا محسن پاکستان بٹ جائے گا- آپ وہ شخصیت ہیں جسے کافی اعزازات ملے لیکن آپ کا اصل اعزازات وہ بوسے ہیں جو لوگوں نے آپ کے ماتھے اور آپ کے ہاتھوں پہ ثبت کئے۔ پھولوں کے وہ ان گنت گلدستے ہیں جو لوگوں نے آپکی بیماری پر ایک ہسپتال کے باہر رکھے اور وہ دعائیں ہیں جو ساری پاکستانی قوم نے آپ کے لئے مانگیں۔ ایسی چاہتیں اور محبتیں ہر کسی کو نہیں ملتیں۔ سیاست ہرگز گناہ نہیں لیکن پاکستان میں ایک قومی ہیرو کے طور پرجاننے والے شخص کے لئے سیاست کا میدان اس لئے ٹھیک نہیں کہ پاکستانی سیاست ایک ایسی دنیا ہے جہاں لوگوں کی پگڑی اچھالنا ایک عام بات ہے- اس میدان کے لوگ بڑے بے رحم، بڑے بے لحاظ اور منہ پھٹ ہیں، اس میدان میں وہ وہ اوچھے وار کیے جاتے ہیں شاید جس کاآپ کو تصور بھی نہ ہو، یہاں نہ عورت کا لحاظ ہے ، نہ کسی کے مرتبے کا۔

محترم ڈاکٹر صاحب! یہا ں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف 1964 میں جب وہ ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لے رہی تھی وہ گندی زبان استمال ہوئی جو ناقابل بیان ہے، محترمہ رانا لیاقت علی خان کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی نے ہندنی کا خطاب دیا۔ 1970 کے الیکشن کے دوران بھٹو کو جماعت اسلامی کے حامی علما نے کافر قرار دیا، جواب میں بھٹو کے حامی علما نے مولانہ مودودی کو کافر قرار دے دیا۔ بھٹونے اصغرخان اور نور خان کوآلو کا خطاب دیا اور میاں ممتاز دولتانہ کو چوہا کہا، جبکہ چوہدری ظہور الہائی کوبھینس چور اور فٹ کانسٹبل کے خطاب ملے۔ الیکشن کے نتایج کے دوسرے دن پیپلز پارٹی کے اخبار نے اپنے صفہ اول پرموددی ٹھاہ، نصراللہ ٹھاہ، دولتانہ ٹھاہ کے نعروں کے ساتھ مولانہ مودودی کے چہرے کو ایک رقاصہ کے دھڑ کے ساتھ جوڑ کر اپنی جیت کا اعلان کیا۔ 4 اپریل 1979 کوبھٹو کو پھانسی ہوئی ، جماعت اسلامی کے اخبار جسارت نے اپنے ضمیمے کی ہیڈنگ لگائی "بھٹو بغیر وضو اور نماز کے پھانسی چڑھ گیا"، بے نظیر کے بارے میں بےہودہ الفاظ عام طور پر استمال کیے گے، نواز شریف کو قاضی حسین احمد نے لوہا چور کا خطاب دیا، جبکہ جدہ جانے کے بعد وہ بھگوڑے بھی کہلائے۔ پاکستان کے تین ملٹری جنرلوں ایوب خان، ضیاالحق اور مشرف کو کتے کے خطاب ملے جبکہ یحیی خان تو تھا ہی شرابی اور زانی۔ موجودہ دور میں زرداری کو ان گنت ناموں سے نوازہ جاتاہے، کرپٹ صدر تو عام بات ہے۔ وزیراعظم کو بجلی چور کا خطاب ملاہے۔ الطاف حسین کے ان گنت نام ہیں جس میں دہشت گرد زیادہ استمال ہوتا ہے،مولانہ فضل الرحمن کو ملا ڈیزل کہا جاتا ہے، حالیہ قومی اسمبلی میں عورتوں کے بارے میں وہ نازبینا الفاظ استمال ہوہے جو اشاعت کے قابل نہیں، تھوڑے عرصے پہلے ایم کیو ایم نے عمران خان کے بارے میں کراچی میں وہ بہودہ وال چاکنگ کروائی کہ خود ایم کیو ایم کے ہمدرد بھی پڑھتے ہوئے شرماتے تھے، اب سے کچھ ماہ قبل مریم نواز کے بارے میں بھی بہودہ الفاظ کا استمال کیا گیا اور حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ اور بلاول کے بارے میں بہودہ پروپگنڈا کیا گیا- گلوبل ولیج کے اس دور میں نہ لیڈر اور نہ عوام میڈیا کے محتاج نہیں ہیں وہ سوشل میڈیا کا بھرپور استمال جانتے ہیں اسلیے وہ جس کے خلاف یا حمایت میں جو بات کہنا چاہتے ہیں چند سیکنڈ میں اپنی بات پوری دنیا میں پھلادیتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، موجودہ وقت میں اب سیاست کے دل میں نہ ہی وفا رہی ہے اورنہ آنکھ میں شرم۔

محترم ڈاکٹر صاحب! شاہ جہاں نے تاج محل بنوایا، دنیا کے اس آٹھویں عجوبے کو دیکھنے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں، مگراس عجوبے سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں، مگر سرسید احمد خان کے بنائے ہوئے ایک مدرسے سے جو آج علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے اس سے دنیا فیض یاب ہوئی، ہورہی ہےاور ہوتی رہے گی۔ ہمیں آج پہلے سے زیادہ سائنس دانوں کی ضرورت ہے، اگر آپ جعفر الحیان [بابائے کیمسٹری]، ابن خلدون، ابو ریحا ن البیرونی ، سلیم الزماں صدیقی، ثمر مبارک ،عطاالرحمان اور اپنے جیسے اوربنادیتے تو یہ آپکا پاکستانی قوم پر ایک او ر احسان ہوتا، آپ اور دوسرے سائنس دانوں کو نمائش کی ضرورت نہیں ہوتی، آپکا کام ہی آنے والی نسلوں کو ہمیشہ یاد رہے گا- آج پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی کے بعد کوئی ایسا سیاست داں نہیں جو متنازہ نہ ہو، سلیم الزماں صدیقی، عطاالرحمان اور ثمر مبارک کا کو ئی مخالف نہیں۔ آپکو بہتر معلوم ہوگا کہ پاکستان کے کامیاب ایٹمی تجربے کے بعد دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں میں ہمارے بچوں کو نیوکلیر انجینئرنگ میں قطی داخلے نہیں دیے جاتے۔ خاصکر گیارہ ستمبر کو امریکہ پر حملے کےبعدمختلف حلیے بہا نے سےمسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں پر علم کے دروازئے بند کردیے گئے ہیں،۔ ایسے میں آپکو چاہیے تو یہ تھا کہ ایسی درسگاہ بناتے جہاں ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ سائنسی علوم حاصل کرتے۔ مگر آپ سیاست کے میدان میں اترگئے اور ابھی پوری طرح سیاست میں داخل بھی نہ ہوپائے ہیں کہ سیاست دانوں کے حملے آپ پر شروع ہوگئے، پیپلزپارٹی، نواز لیگ اور تحریک انصاف نے آپ پر چاروں طرف سے حملے بھی شروع کردیے۔ آپکے خلاف تنخواہ والے لکھاریوں نے اپنا کام شروع کردیا، آپ کے بارے میں ایک تنخواہ دار لکھاری نے کچھ یوں لکھا "پاکستان میں گندی سیاست میں مہارت رکھنے والوں میں ایک سے بڑھ کر ایک مداری شامل ہے ۔ وہی بازیگر ڈاکٹر صاحب کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیئے بطور " بچہ جمہورا " استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ اور منظر نامہ کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان مداریوں کے ہاتھوں میں کھیلتے اپنی شہرت و عظمت کو داؤ پر لگا دیں گے"۔ ایک اور تنخواہ دار لکھاری نے لکھا " ڈاکٹر قدیر خان جس زمانے میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے سربراہ تھے، وہ اس وقت بھی پیشہ ور سائنس دانوں سے مختلف تھے ۔روزاول سے شخصیت کو نمایاں کرنا اور خبروں میں رہنا ڈاکٹر صاحب کی کمزوری ہے۔اپنے کارناموں کی تشہیر کا وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ایک زمانے میں زاہد ملک بڑے تسلسل سے یہ خدمت سرانجام دیا کرتے تھے۔ کئی ایک اور صحافی بھی عشروں سے ڈاکٹر صاحب کی خدمت کرتے اور حصہ بقدر جثہ پاتے رہے"۔

پھر سیاست کے بارے میں آپکے اپنے خیالات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں، آپ نے اپنے کالم "سحر ہونے تک" میں بعنوان "پاکستانی جمہوریت : ایک مذاق" میں ایک جگہ آپ نے لکھا "مغربی ممالک میں یا دوسرے چند ممالک میں جہاں جمہوری نظام کامیاب رہا ہے وہاں شرح خواندگی یعنی پڑھے لکھے عوام کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان ممالک میں عموماً تین چار سیاسی پارٹیوں سے زیادہ پارٹیاں نہیں ہوتی ہیں اور الیکشن کے بعد نفاق ختم ہوجاتا ہے۔ جہاں ملکی مفاد ہو وہ سب مل جاتے ہیں خواہ یہ قانونی ہو یا غیر قانونی سب ایک ہیں۔ اندرونی معاملات پر اختلاف ہوں تو یہ کشتی پارلیمنٹ میں لڑی جاتی ہے"۔ آگے آپ لکھتے ہیں "ہمارے ملک میں جمہوریت نام کا پرندہ عنقا ہے ۔ یہ پرندہ بے چارہ غلام محمد کے ہاتھوں 1953 میں قتل ہوا اور دفن ہوگیا۔ اس وقت سے صرف نام نہاد جمہوریت رہی ہے جو بھی حکمران بنا اس نے یک شخصی حکومت قائم کی، درباریوں کا جمگھٹا لگایا اور من مانی کی۔ مخالف لوگوں کو جیلوں میں ڈالا، قتل کرایا اور تمام سرکاری ادارے اسی کام میں لگا دیے۔ بدقسمتی سے متاثرین کو عدلیہ سے بھی کوئی ریلیف نہیں ملا۔ کہانی غلام محمد سے شروع ہوئی اور اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو، ضیاء الحق، بینظیر، نواز شریف، مشرف اور اب زرداری اور گیلانی تک جاری ہے۔ صرف دکھاوے کے لئے تھوڑا سا میک اپ بدل جاتا ہے اور حکمران عوام کی ضروریات اور خواہشات کی پروا کئے بغیر من مانی کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ ربر اسٹیمپ ہے اور مخالف پارٹیاں ذاتی مفاد اور خودغرضی کاشکار ہیں اور ”دوستانہ مخالفت“ کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں"۔ پھر اسی کالم میں آپ اپنی سیاسی بیزاری کا اظہار کرتے ہوے لکھتے ہیں "ہمارے بے چارے سیدھے سادھے عوام کی اکثریت کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے وہ تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے ملک کی حکمران پارٹی اور اپوزیشن پارٹیوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کے نِت نئے طریقہ جات ایجاد کر لئے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں دھواں دھار تقریریں کرتی ہیں۔ اپنے ڈیمانڈ (شرائط) زور شور سے پیش کرتی ہیں اور پھرچپ چاپ حکومت سے مل کر وہی حلوہ پوری۔ حکومت جب کوئی کام پارلیمنٹ سے کرانا چاہتی ہے تو ملی بھگت کے تحت اپوزیشن پارٹیاں نام نہاد احتجاجی واک آؤٹ کرکے حکومت کو کھلی آزادی دے دیتی ہیں۔ جس طرح روس اور چین نے سیکیورٹی کونسل میں ووٹ میں شرکت نہ کرکے امریکہ اور اس کے حواریوں کو جواز مہیا کیا کہ وہ لیبیا پر جارحانہ حملے کریں، تباہی پھیلائیں اور قتل عام کریں۔ جمہوریت کو بچانے کا ڈھونگ رچانے والی ن۔لیگ جمہوریت کے قتل کا وسیلہ بن کر کرپٹ اور نااہل حکومت کو موقع دیتی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ یہی وطیرہ ایم کیو ایم نے اختیار کر رکھا ہے۔ اگرچہ پی پی پی حکمراں جماعت ہونے کی وجہ سے خرابیوں کی جڑ ہے مگر ن۔لیگ، ایم کیو ایم اور اے این پی بھی فرشتے نہیں ہیں۔ ان پر بھی ان خرابیوں کی بڑی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے"۔

محترم ڈاکٹر صاحب! پاکستان میں سیاست بہت سے لوگ کر رہے ہیں ، ان لیڈروں پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو کسی کو پرواہ نہیں ہوتی آپ پر اٹھیں گی تو شاید بہت سارے پاکستانیوں کو بہت تکلیف ہو، آج جیسے آپ نے ن لیگ، ایم کیو ایم اور اے این پی کے بارئے میں لکھا ہے کیا آپ اپنی جماعت تحریکِ تحفظ پاکستان کا نام بھی ان میں شامل ہونا پسند کرینگے۔اسلیے گذارش ہے کہ آپ اپنے آپ کو متنازع ہونے سے بچائیں ابھی وقت ہے ۔ جو کام آپ نے پاکستان کےلیے کیا ہے اسی کو آگے بڑھائیں ورنہ یقین کریں آپ کی سائنس دان کی حیثیت بھی متنازعہ ہوجائے گی، اور نہ جانے آپ پر کیا کیا الزام لگیں گے۔ پاکستان میں اب کوئی عہدہ و منصب ایسا نہیں جو آپ کی قدر ومنزلت میں اضافے کا باعث ہو۔ آپ تحریکِ تحفظ پاکستان کی قیادت کسی دوسرے کو سونپ کر واضح اور غیر مبہم اعلان کردیں کہ تحریکِ تحفظ پاکستان سے اب آپکا کوئی واسطہ نہیں اور آپ عملی سیاست میں حصہ نہیں لینگے۔ آج کی سیاست، اور سیاسی شخصیات کے بارے میں آپ سے بہتر کون جانتا ہے لیکن اگر آپ نےاپنے اس سیاسی عمل کو جاری رکھا تو پھر اللہ تعالی آپکا حامی و ناصر رہے۔ آمین
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 445938 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More