جنازہ جلد دفنانے کا شرعی حکم اور مولانا فضل الرحمن

نقی بخاری

کوئٹہ علمدار روڈ پر کئی روز سے 86 جنازے پڑے تھے۔ ہزارہ قبیلے کے مظلوم ان کے گرد بیٹھے فریاد کناں تھے۔ سردی کی شدت ان کی استقامت کو آزما رہی تھی۔ ان کا صبر پاکستان کو گوشے گوشے میں ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کے دلوں کو ہلائے دے رہا تھا۔ لوگ ہر شہر میں ان صابر مظلوموں کی حمایت میں دھرنے دے رہے تھے۔ پہلی مرتبہ پاکستان کے میڈیا نے بیک آواز ملک میں شیعوں کی بالعموم اور ہزارہ قبیلے کی بالخصوص ٹارگٹ کلنگ کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ ایک مظلوم ملالہ کے لیے شب و روز چیخنے والوں کو عرصہ تک بسوں سے اتار اتار کر، مکانوں، دفتروں میں، سڑکوں اور چوراہوں پر، امام بارگاہوں اور مسجدوں میں، ہسپتالوں اور قبرستانوں میں سفاکی سے قتل ہونے والے شیعہ گویا دکھائی ہی نہ دیتے تھے لیکن اب کے ہزارہ قبیلے کے مظلوموں نے اپنی فریاد بلند کرنے کا جو راستہ اختیار کیا اس نے دلوں کو ہلا دیا، پتھروں کو پگھلا دیا اور ہاتھی کے کانوں کو بھی اپنی چیخ سنوا دی تھی۔ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں، حکمران اور عوام سب بول اٹھے۔

تین روز بعد آخر وفاقی حکومت کو خیال آیا اور بلوچستان میں گورنر راج لگانے کے لیے مشورے ہونے لگے۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے ایک کے سوا تمام اراکین وزیر تھے۔ وہ اور ان کے سرپرست ہرگز نہ چاہتے تھے کہ گورنر راج لگے۔ انہی میں سے ایک مولانا فضل الرحمن ہیں۔ ان سے رائے طلب کی گئی تو ان کے ارشادات کا خلاصہ یہ تھا کہ صوبائی اسمبلی کے ذریعے تبدیلی لائی جائے۔ یعنی وزیراعلیٰ نیا بنا دیا جائے۔ گویا باقی سلسلہ ویسے ہی چلتا رہے۔ انھوں نے اتحاد امت کی کوششوں کے لیے اپنے ماضی کا حوالہ دیا اور ہزارہ قبیلے کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے انھیں شرعی حکم یاد دلایا کہ جنازے کو جلدی دفن کرنا چاہیے۔ جنازے جلد دفن کرنے کے حکم کا انھوں نے بار بار ذکر کیا۔

مولانا فضل الرحمن اس ملک کے قد آور سیاسی راہنما ہیں۔ ان کے حامی اس ملک میں ایک بڑی تعداد میں نہ ہوتے تو وہ قد آور سیاسی راہنما کیسے ہوتے۔ ان کے ناقدین کی بھی تعداد کم نہیں۔ البتہ میدان سیاست میں کون ہے جس کے حامی اور ناقد نہ ہوں۔ ہمیں اس بحث سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں جنازے جلد دفنانے کے شرعی حکم کی یاد آوری پر کچھ عرض کرنا ہے۔

مولانا صاحب! آپ کا شہر ڈیرہ اسماعیل خان ہو یا آپ کے حامیوں کا علاقہ کوہستان، آپ کی حکومت کا صوبہ بلوچستان ہو یا پاکستان کا کوئی اور علاقہ جہاں بھی کسی خاص مسلک کے جرم میں جب بھی کوئی مارا گیا اس کا جنازہ حتی المقدور فوراً دفنا دیا گیا۔ مجلس عزا میں مرنے والے دفن ہو گئے۔ مسجد میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والی لاشیں جلد آسودہ خاک ہو گئیں۔ نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے قتل ہونے والے خاک و خوں میں غلطاں ہوکر جلد قبروں میں جا اترے، ہسپتالوں میں بموں اور گولیوں کا نشانہ بننے والے جلد سپرد خاک ہو گئے، بسوں سے اتار اتار کر مار دیے جانے والے جلد تہ خاک جا سوئے، جلوس ہائے عزا کے مقتولین جلددفنا دیے گئے۔ آہیں اور سسکیاں بھی جلد دم توڑ گئیں، احتجاج کی آوازیں بھی بلند بام نہ ہو سکیں، میڈیا نے ایک روز خبر چلائی، اخبارات نے ایک سرخی جمائی اور بات آئی گئی ہو گئی۔ اہل دین اور ا ہل سیاست ہر قتل، ہر سانحے اور ہردھماکے پر یوں دکھی ہوئے جیسے ایک اور دکھ کے لیے بھی تیار ہیں۔

سچ کہیے حضرت! آپ نے اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ آپ نے پریس کانفرنس کی؟ آپ کے وزراءکرام نے احتجاج کیا؟ سانحے پر سانحہ ہوا، آپ کو دکھ ہوا ہوگا لیکن ایسا دکھ جس کا خیال کرکے دل دکھتا ہے۔

ہم نہیں سمجھتے کہ گورنر راج کا دو ماہ کے لیے نفاذ اس قتل و غارت گری کو روک دے گا، ظلم پیہم بند ہوجائے گا، سب قاتل بے نقاب ہو جائیں گے، دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا مل جائے گی لیکن اس احتجاج اور حکومت کی وقتی تبدیلی سے جو کچھ حاصل ہوا وہ بہت اہم ہے۔ ہم اس طرف ذرا بعد میں آتے ہیں لیکن جنازے جلد دفنانے کے شرعی حکم کی یاد آوری پر کچھ بات اور ہوجائے۔

اس کا کون انکار کر سکتا ہے کہ احادیث میں جنازہ جلد دفنانے کا حکم آیا ہے لیکن کیا قرآن میں نہیں ہے کہ” تمھیں کیا ہو گیا کہ تم اللہ کے راستے میں لڑتے نہیں جبکہ کمزور کردیے جانے والے مرد، عورتیں اور بچے کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے رہنے والے ظالم ہیں، اپنی طرف سے ہمارا کسی کو سرپرست بنا اور کسی کو ہمارا مدد گار قرار دے۔“(نسائ:۵۷)

مولانا صاحب! ان مستضعف مردوں، عورتوں اوربچوں کی فریاد پر کون اٹھا اور کب اٹھا؟ واللہ اپنی ہی زمین اور بستی میں کمزور کردیے جانے والے یہ مرد، عورتیں،بچے اگر سردیوں کی یخ بستہ راتوں اور منفی آٹھ درجے کی جما دینے والی گھڑیوں میں کوئٹہ کی علمدار روڈ پر ان جنازوں کے ہمراہ نہ بیٹھے رہتے تو کیا کہیں ان کی فریاد پہنچتی؟ کیا آپ نے پہلے بھی کبھی ان کے قتل عام پر ان ہاﺅس تبدیلی کی بات ارشاد فرمائی؟

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہیں۔ جب بدن کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے قرار ہوجاتا ہے۔ خدا لگتی کہیں تو اس مسلسل قتل عام پر کون کون سا مسلمان بے قرار ہوا؟ کسی کی ایک شب کی نیند میں کچھ دیر کے لیے اس سے پہلے خلل پڑا؟

ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا کیا یہ شرعی حکم نہیں؟ کیا ایسی آیات و احادیث کسی حکم شرعی کا مصدر نہیں بنتیں؟ شریعت کے احکام انسانوں ہی کے فائدے اور انسانی معاشرے کے فائدے میں ہیں۔ مقاصد شریعت بیان کرنے والے علماءنے کیا انسانی جان کی حفاظت کو حکم شریعت کا ایک بنیادی مقصد قرار نہیں دیا۔ اسلامی اصول فقہ میں ” اہم اور مہم“ کا اصول بھی موجود ہے۔ کبھی دو حکموں کے اکٹھا ہوجانے پر دیکھنا پڑتا ہے کہ زیادہ اہم کونسا ہے۔ اسی طرح اضطرار کی حالت میں حکم تبدیل ہوجاتا ہے۔ حالت اضطرار کے اپنے احکام ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر جنازوں کے دفن ہونے سے مظلوم کا خون چھپ جاتا ہو، مظلوموں کی فریاد حکمرانوں اور معاشرے تک نہ پہنچ پاتی ہو، خاموشی سے جنازے دفن ہوجانے سے مزید قتل عام کا خطرہ بڑھ جاتا ہو تو پھر کیا تدبیر کی جائے؟ جو تدبیر ان جنازوں کے ورثا، بیواﺅں، ماﺅں، بیٹوں، بیٹیوں،بوڑھے باپوں، بھائیوں اور بہنوں نے اختیار کی اس کا کچھ تو نتیجہ نکلا۔ یہ اگر اس طرح سے فریاد نہ کرتے تو کیا کرتے؟ جن کے پیاروں کے جنازے شب و روز ان کے سامنے پڑے تھے ان سے زیادہ کسے انھیں جلد دفن کرنے کی فکر ہو سکتی تھی۔ ان کا رنج و غم شدت کے کچھ اس عالم تک جا پہنچا تھا کہ وہ کئی شب و روز اپنے سامنے ان جنازوں کو پڑا دیکھتے رہے اور انھیں دفن کرنے کے لیے نہ اٹھے۔ مسلمان جنازوں کی حرمت میں کیا شک ہے لیکن کیا”زندہ جنازوں“ کی بھی کوئی حرمت ہے؟ مرنے کے بعد حرمت کی قائل شریعت مرنے سے پہلے کی حرمت کی بھی قائل تو ہوگی۔

رہی بات ان ہاﺅس تبدیلی کی تو انہی وزراءمیں سے ایک نیا وزیر اعلیٰ بن جاتا جو پہلے بھی مقتولوں اور زخمیوں کا تماشا دیکھتے رہے۔ دن رات ان کے سامنے جنازے اٹھتے رہے اور ان کے دل نہ پسیجے۔ انہی کے خلاف تو یہ احتجاج تھا۔ پھر انہی بے حس افراد میں سے ایک اور بے حس لیڈر منتخب کرلیا جاتا۔ انہی اراکین نے چند روز قبل ہی تو نئے سرے سے اسی وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ انہی نے نئے اسپیکر اسمبلی کا انتخاب اپنے پسندیدہ وزیراعلیٰ اور اپنی وزارتوں کے بچاﺅ کے لیے کیا تھا۔

مولانا صاحب! اپنے اراکین صوبائی اسمبلی سے باز پرس کریں۔انھوں نے اپنے صوبے کے افراد کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے کیا کیا؟ انھوں نے مسلسل بہتے خون ناحق کو روکنے اور مقتولین کے خاندانوں کی داد رسی کے لیے کیا کیا؟ ان کی دلسوزی اور ہمدردی کی خبر ان مقتولین کے خاندانوں کو ہوتی تو وہ انھیں برخاست کرنے کے لیے آواز بلند کیوں کرتے؟

مولانا صاحب! اتحاد امت کے لیے آپ کے نیک جذبوں کی خیر، انھیں بروئے کار لائیں اور تمام مظلوم شیعہ و سنی خاندانوں کی دستگیری کے لیے اٹھیں تاکہ اب نہ کوئی لاش گرے اور نہ کوئی جنازہ دیر تک کسی سڑک پر پڑا خاموش ہونٹوں سے اپنی مظلومیت کی دہائی دیتا رہے۔

مولانا صاحب! آپ تو اہل علم ہیں قرآن کے قاریوں میں سے کون نہیں جانتا کہ ایک نبی کے سامنے ایک مظلوم مقتول کا جنازہ رکھا تھا۔ نبی اسے جلد دفن کرنے کے بجائے قاتل کوبے نقاب کرنا چاہتے تھے۔ قاتل اوراسے بچانے والے لیت و لعل کررہے تھے۔ اللہ کا حکم تھا کہ ایک گائے کو ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت اس مقتول کو لگایا جائے۔ اس تدبیر سے قاتلوں کو بے نقاب کرنا مقصود تھا۔ بنی اسرائیل نبی کا تمسخر اڑاتے رہے اور طرح طرح کے سوالات کرکے معاملے کو ٹالتے رہے۔ اللہ کے نبی یہ سب کچھ سہتے رہے اور لاش کے پاس بیٹھے رہے۔ انھوں نے بھی فیصلہ کر رکھا تھا کہ لاش اس وقت تک دفن نہیں کریں گے جب تک ظالم قاتل آشکار نہ ہوجائے۔ آخر کار بنی اسرائیل کے خون چھپانے کی سازش کرنے والے ناکام ہو گئے انھیں وہ گائے ذبح کرنا ہی پڑی۔۔۔ اگرچہ سورہ بقرہ میں قرآن حکیم کے بقول وہ ایسا کرنا نہ چاہتے تھے۔

قبلہ! بلوچستان کی یہ صوبائی اسمبلی عصر حاضر کے بنی اسرائیل کی گائے ہی ہے۔ اسے ذبح ہونے سے بچانے کی کوشش نہ کریں۔ ورنہ لوگ سمجھیں گے کہ جو اسے بچانے کے درپے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ قاتل بے نقاب ہوں۔
Albasirah
About the Author: Albasirah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.