مولانا طاہرالقادری صاحب اور انقلاب

جس روز پاکستان وجود میں آیا تھااسی روز سے دنیا بھر کے اسلامی ممالک یہ خیال کرتے تھے کہ یہ ملک مسلمانوں کی امامت کرے گا اور اسی بنیاد پر اس کو اسلام کا قلعہ بھی کہا گیا۔آج جبکے امریکہ ہمارے ملک کی سرحدوں میں گھس کر اپنے ڈرون سے حملے کررہا ہے کسی طرف سے بھی کسی اسلامی ملک کا ردعمل سامنے نہیں آتا آخر کیوں؟ اسلئے کہ پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دے کر پاکستان کو اسلامی دنیا سے الگ کرلیا ہے۔ اب کوئی ہمارے ساتھ کیوں آئے گا۔ اور جوہمارے لئے مسلمانوں کی امامت کا منصب دینے پر آمادہ تھے ہماری بزدلی کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے خاموش ہوگئے۔ اسی طرح جب ناصر نے عرب لیگ کا نعرہ لگایا تھا اور اتحادیوں نے نہرِ سوئز کے معاملے میں مصر پر حملہ کیاتو پاکستان کا موقف تھا کہ یہ عرب دنیاکا معاملہ ہے اسلامی دنیاکا نہیں۔ لہذا پاکستان نے مصر کی حمایت میں ایک لفظ نہیں کہا یہ تو مرحوم جنرل ضیاء الحق کاکمال تھاکہ عربوں نے مصر کو عرب لیگ سے باہر کردیا تھا۔ انھوں نے درمیاں میں پڑکر دوبارہ عرب لیگ میں شامل کرادیا اورعربوں کوبشمول اسلامی ممالک متحد رہنے کا سبق دیا ۔ اس وجہ سے عرب اور اسلامی دنیا میںآج بھی ضیاء الحق کابڑااحترام ہے جبکہ ہمارے ہاں ارباب حل و عقد کی پوری کوشش ہے کہ مملکت اسلامیہ جمہوریا پاکستان کو ایک لادینی اور سیکولر مملکت میں تبدیل کردیں۔اسلامی اور دینی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ اسی کا پیش خیمہ ہے، پیپلزپارٹی ہمیشہ سے اسی نظریہ کی ترجمان ہے اور اسی لئے اس ملک کی اقتصادیات کو بربادکرنے کا ہر جتن جاری ہے ہر چیزمصنوعی طورپر غائب کی جارہی ہے ۔ بجلی ہو یا گیس اس کی کمی کرکے فیکٹریوں کو تباہ کیا گیا ۔ بیروزگاری کا طوفان کھڑاکیا گیادوسری طرف مہنگائی پیدا کرکے اپنے کمیشن میں اضافہ کیا رینٹل پاور اسکی ایک مثال ہے۔ دوسری طرف کرپشن اور نوٹ چھاپنے کا کام اس ملک کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لینے کے متراد ف ہے مگریہ ارباب حل وعقد اور جمہوریت کے ناکارہ سیاستدان اس کاروبار میں پوری طرح شامل ہیں۔ اسی طرح اب جبکہ طاہرالقادری صاحب میدان میں آئے انکا جو بھی ایجنڈا تھا وہ ایک طرف جو وہ کہ رہے تھے ایک حقیقت تھی اور عوام اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے پریشان ہوکر ان کی ایک آواز پر لونگ مارچ کے لیے باہر نکل آئے اور اسلام آباد پہنچنے کی اذیت اُٹھائی جو پانچ دنوں پر مشتمل رہی مگر یہ نام نہاد سیا ست دان طاہرالقادری صاحب ہی کو موضوع بحث بنائے رہے جمہوریت کے یہ علم بردار عوام کی مصیبتوں کا تذ کرہ طاہرالقادری صاحب پر تنقید کو موئثر کرنے کے لیے کرتے رہے مگر شرکاء کی مصیبتوں میں کسی کمی کے لیے باہر نہ نکلے یہ پانچ سال آئین کے خلا ف قائم اور کام کرنے والی حکومت کی حمایت کرنے کے لئے آئین کی رٹ لگا نے لگے ان کو نظر نہ آیا کہ جعلی ڈگریوں کے اسمبلی ممبر آئین کے مطابق نہ تھے ۔یہ دہشت گردی اور کرپشن کا فروغ آئین کے عین مطابق نظر آتا رہا فیصل آباد کے بے روز گاروں کی چیخ و پکار نہ سنائی دی مگر یہ الیکشن اور جمہوریت کا نعرہ مارتے رہے جمہوریت اور مینڈیٹ کے علم بردار اسلام آباد میں جمہور کی توہین کرتے رہے اگر ان کو ذرا بھی شرم ہوتی تو عوام کے جذ بات کا احترام کرتے ہوئے یہ خود آگے آتے ۔مجھے اسی طرح کا ایک وقعہ دار العلوم دیوبند کے ایک جید عالم نے سنایا تھاکہ جب پاکستان کے لیے مسلم لیگ تحریک چلا رہی تھی اور کانگریس کے علما ء کی نظر میں (قائد اعظم ) محمد علی جناح کا کوئی اسلامی تشخص نہ تھا لہذ ان کو یہ فکر تھی کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی جمعیت محمد علی جناح کے پیچھے جا رہی ہے اور یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ کوئی نہ کوئی دینی شخصیت محمد علی جناح کہ ساتھ جائے تاکہ مملکت کو صحیح طور پر اسلامی تشخص دیا جا سکے اس مقصد کے لئے دار العلوم دیوبند کے تمام جید علماء کا یہ فیصلہ تھا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی اس ذمہ داری کو نبھائیں اگر چہ کہ مولانا مرحوم اس کے لیے تیار نہ تھے مگر سب کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ پاکستان آگئے جو لوگ فیصلے سے نا واقف تھے انہوں نے مولانا مرحوم کو بہت برا بھلا کہاحالانکہ آج پاکستان انہی کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے اسی طرح آج کے سیاست دانوں کی ذمہ داری تھی کے اگر وہ طاہرالقادری کو صحیح نہیں سمجھ رہے تھے تو مسلمانوں کی اتنی بڑی جمعیت کی خاطر جہاں عورتین اور بچے میں اپنے مصائب کے حل کے تلاش میں لانگ مارچ میں شریک تھے ۔ یہ افلا طون سیاست دان خود سامنے آتے اور ان کے مسائل کا حل نکالتے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک دن بھی قابل بر داشت نہیں ہے اور یہ پریشانیاں ہر روز بڑھتی جاتی ہیں مگر یہ اپنی باری کے انتظار میں ہیں ان کو یہ نظر نہیں آتا کے حکومت نے کس طرح عدالتوں کا مذاق اُڑایا اور جرائم پیشہ افراد کی پزیرائی کی گئی انہیں اہم سرکاری منصب عطا کیے گئے جہاں بیٹھ کر انہوں نے قومی دولت پر ڈاکہ ڈالا مفاہمت کی پولیسی یہ ہے کہ کوئی نظم و ضبط نہیں ہمیشہ مجرموں کی حمایت ان کا شعار ہے ۔

اب ہر طرف ایک شور ہے کے طاہرالقادری صاحب ناکام رہے تو دوسری طرف کھوٹے سکوں کی کامیابی کو ن تسلیم کرتا ہے ۔کل الیکشن میں یہی لوگ امید وار ہیں جن سے کسی خیر کی کوئی امید نہیں ہے یہ حلقہ بندیاں اور ووٹرلسٹ کی تصدیق بھی ایک ڈھو نگ ہے ہر شخص کے پاس شناختی کار ڈ ہے وہ کہیں بھی اور کسی کو بھی ووٹ دے ایک وقت میں ایک ہی ووٹ تو استعمال کرے گا ان لسٹوں اور تصدیق سے کیا فائدہ ہونے والا ہے ہمیشہ سے دیکھتے آئے ہیں عین الیکشن کے وقت شناختی کارڈ کی پابندی ختم کردی جاتی ہے اور ایسا بھی ہوا کے شناختی کارڈ زور اور زبردستی سے جمع کرلئے گئے اور اپنی مرضی سے ووٹ ڈالے جسکے سد باب کے لئے الیکشن بوتھ میں فوجیوں کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا مگر وہاں سے فوجیوں کو بھی رخصت کردیا گیا اور ووٹ اپنی مرضی کے ڈالے گئے ۔

کرپشن کی اسقدر دیدہ دلیری اور سینہ زوری کہ آگے کون انصاف حاصل کرسکتا ہے شاید ہم سب کسی آسمانی فیصلے کے منتظر ہیں ۔کیوں کہ انقلاب قلب کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے اور جس قلب میں خدا خوفی نہ ہو وہ انقلاب سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا اس کا علاج صرف عذاب ہے ۔
Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madani: 79 Articles with 82945 views Since 1964 in the Electronics communication Engineering, all bands including Satellite.
Writing since school completed my Masters in 2005 from Karach
.. View More