رینٹل پاور کیس میں تفتیشی افسر کامران فیصل کی روح انصاف مانگتی ہے

اور وزیراعظم کے خلاف تفتیشی رپوٹ کا مقدمہ قائم ہونے سے پہلے ہی قربان ہو گیا اگر محب وطنوں کے ذہنوں میں یہ ہو کہ بالکل اسی طرح عبدل ستار لالیکا اورعمر اصغر خان بھی اسی قسم کے حالات کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلے گئے تھے ۔ وہ دونوں صرف اسیمالی بد عنوانی کو افشا کرنے کی کوششوں کے باعث کام آئے کہ دونوں ہی نے غالبا ای او بی آئی میں بہت بڑے پیمانے پرخرد برد اور گھپلوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا پہلے لالیکا کو رستے سے ہٹا کر اس حکمنامہ کو روکا گیا تھا پھر اسکے بعد عمر اصغر خان نے بھی اسی کیس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا دونوں مرتبہ تحقیقات روک لی گئیں۔ اور شاید کی بھی نہ گئیں ہو لیکن یہ دونوں شہید ہو گئے۔

اور اب جبکہ نیب کے تفتیشی تیتیس سال کے جوان تفتیشی افسر ا کامران فیصل رینٹل کیس کی تفتیش کر رہے تھے جسکی بنیاد پرسپریم کورٹ نے ملزمان کے خلاف کاروائی کے احکامات دیے تھے ۔ اسی بنیاد نیب نے کامران فیصل اور ان کے ایک دوسرے ساتھی کو اس تفتیش سے علیحدہ کر دیا گیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیتے ہوئے کامران فیصل کو دوبارہ اسی تفتیش پر بحال کر دیا تھا، فیصلہ مارچ ۲۰۱۲ء سپریم کورٹ نے اس کیس پر اپنا موقف دے کر باضابطہ چالان پیش کرنے کا حکم دیا تھا جس پر نیب کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں کی گئی جبکہ۵ ۱، جنوری ۲۰۱۳ء کو سپریم کورٹ نے پھر اس کیس میں ملزمان کو گرفتار کر کے چالان پیش کرنے کا حکم دیا تھا ۔ جسکے جواب میں چیرمین نیب نے موقف ااختیار کیا کہ رپوٹ ناقص ہے اس لئے کاروائی ممکن نہیں ۔ جس پر سپریم کورٹ نے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا جو غالبا ۲۳ جنوری ۲۰۱۲ء کوہو گی ۔ لیکن اس سے پہلے ہی اس تفتیشی افسر کی خود کشی کی اطلاع ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی لوگوں کے ذہنوں میں یہی خیال آیا کہ اسے رستے سے ہٹایا گیا ہے ، کامران فیصل کس طرح اپنی ہی رپورٹ جو اس نے پہلے مرتب کی تھی خود کیسے تبدیل کرنے پر راضی ہو سکتا تھا اسی رپورٹ کوسپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے سراہا بھی تھا۔ سپریم کورٹ کی ناراضگی کے پیش نظر کامران فیصل کو معطل بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اس لئے لوگوں کاخیال ہے کہاپنے مطلوبہ رپوٹ کی تبدیلی میں ناکامی پر اسے رستے سے ہٹا کر خود کشی کا رنگ دیا گیا۔

اس قسم کی اموات بلکہ اچانک اموات لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں محب وطن لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس وقت ملکی افق پر بد دیانتی اور لوٹ مار کا دور دورا ہے اور لوگ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ ان کرپٹ لوگوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں جو اپنی راہ میں آنیوالوں کو ایک طرف کر دیتے ہیں بلکہ زندیگیوں ہی سے محروم کر دیتے ہیں۔

رینٹل پاور کیس کے تفتیشی افسر کامران فیصل کی اچانک موت پر چیرمین نیب اوروزیراعظم کا کردار اس حوالے سے مشکوک نظر آتا ہے۔ کیا اس ملک میں کوئی منصف اتنا بااختیار ہے جو انصاف کا بول بالا کر سکے اور حقائق منظر عام پر لاکر معصوموں کے خون کا حساب لے سکے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کی موت اس پر شدید دباؤ اسکی حود کشی کا باعث ہو سکتی ہے۔ پوسٹمارٹم رپوٹ آنے کے بعد ہتمی تفتیشی رپوٹ مرتب کی جائے گی ۔ تفتیشی رپوٹیں بھی تو ایسے ہی مرتب ہوجاتی ہیں ،جیسے بینظیر کی موت پر میڈیکل رپوٹ منظرعام پر لائی گئی تھی قوم خود اندازہ کر سکتی ہے۔

کیاکامران کی پوسٹ مارٹم رپوٹ حقائق پر مبنی ہو سکتی ہے ۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے اب یہ فرانس تو ہے نہیں جہاں آگسٹا آبدوزوں میں کمیشن لینے والوں کی جا ن نہیں چھوڑی گئی جبکہ ہمارے ہاں اصل ملزمان تو ہاتھ نہیں آئے ایک اہلکار کو نیب کے زریعے باہر سے لا کر رقم وصول کی گئی جو نیب کو وصول ہونے والی پوری رقم کا اسی فیصد تھی تو اس کمیشن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس ملک میں بے گناہوں کا لہو پکار پکار کر انصاف کاتقاضہ کر رہا ہے ، فاٹا میں آئے روز ڈرون حملوں میں بے کناہوں کا لہو حکمرانوں سے حلف سے روگردانی کا تقاضہ کرتا دکھائی دیتا ہے اس ملک کے طول و عرض میں بہتا ے گناہوں کا لہو پکار پکار کر انصاف مانگ رہا ہے ۔

بے گناہوں کے خون رائگاں نہیں جائے گا اللہ ظالموں سے حساب لینے والوں کواتنا حوصلہ اور قوت دے کہ مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر مجرموں کو چوراہوں پر پھانسیاں دیں۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75465 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More