دو پرامن دھرنے مگر سبق ایک

ہر پاکستانی کی طرح میں بھی روزانہ ہونے والی ہڑتالوں اور ہنگاموں سے پریشان ہوں، موجودہ حکومت کے دورمیں امن و امان قائم رہنا ایک بہت بڑا مسلہ ہے۔ صورتحال اسوقت ایسی ہے کہ آپ صبح کو پہلے ٹی وی دیکھتے ہیں اور خبریں دیکھ کر گھر سے نکلتے ہیں، کم از کم کراچی میں تو یہ لازمی ہے، کوئٹہ اورپشاور میں بھی تقریبا یہ ہی صورتحال ہے۔ ہمارے ہاں نکلنے والے جلوس اور جلسے اس تمام علاقے میں خوف و ہراس پھلادیتے ہیں جہاں جہاں سے جلوس کو گذرنا ہوتا ہے یا جہاں جلسہ ہوتا ہے۔ آپکو یاد ہوگاکہ کچھ عرصہ پہلے گستاخانہ فلم کے خلاف پرامن مظاہرے ہوے مگر پشاور اور کراچی میں ہونے والے کچھ مظاہرے بہت ہی پرتشدد تھے،جانی نقصان کے علاوہ سرکاری و نجی املاک کو بھی ایک بڑا نقصان پہنچا۔

دس جنوری کوبلوچستان کے شہر کوئٹہ ميں ہونے والے بم دھماکوں کے نتيجے ميں116افراد ہلاک جبکہ تقريباً 250 افراد زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر ہزارہ شیعہ برادری کے لوگ تھے۔ شہید ہونے والوں کے ورثا نے دھماکوں میں مرنے والے اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو دفن کرنے سے انکار کردیا ہےاور مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے میں ناکام ہونے والے متعلقہ افسران کو برطرف کرے اور کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے ۔ لاشوں کے ورثااپنے 86 پیاروں کی لاشوں کے ساتھ علد ار روڈ پردھرنے پر بیٹھ گے، دھرنےمیں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے ۔ کراچی میں پانچ جگہ اور ملک کے کافی شہروں میں اس دھرنے کی حمایت میں دھرنے شروع ہوگے۔ کوئٹہ سمیت ملک بھر میں تین دنوں سے جاری دھرنے کے بعد وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے تیرہ اور چودہ جنوری کو رات گئے مظاہرین سے مذاکرات کیے جو کامیاب ہوگئے،انہوں نے صوبہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا جبکہ صوبائی حکومت کو برطرف کردیا گیا۔ وزیر اعظم کے اعلانات پر عمل درآمد کے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد کوئٹہ میں دھرنا ختم ہوگیا اور لاشوں کی تدفین کے بعد کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والےدھرنے بھی ختم ہوگے۔

تیرہ جنوری کوعلامہ طاہر القادری اپنے اعلان کردہ لانگ مارچ پر لوگوں کی ایک کثیرتعداد اور سینکڑوں بسوں ، ٹرکوں، کاروں اور موٹر سایکلوں کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ انکی روانگی سے پہلے مرکزی وزیر داخلہ نے دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ملک بھر میں ہونے والی دہشتگردی کی وجہ سے وزیر داخلہ کی بات پر شک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دوسری طرف پنجاب کی صوبائی حکومت کے اپنےخدشات تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ کہیں جلوس کے شرکا امن و امان کا مسلہ نہ پیدا کردیں۔ علامہ طاہر القادری نے دونوں خدشات کو رد کردیا اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ انکے لانگ مارچ کے شرکا ایک پتہ بھی نہیں توڑینگے۔ پاکستانی اور غیرملکی میڈیا لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی لحمے لحمے کی خبر نشر کر رہا تھا۔ میڈیا کی خبروں اور تبصروں میں دیکھا اور سنا گیا کہ فلاں شہر سے اتنے لوگ اس لانگ مارچ میں شامل ہوے یا شہر کے لوگوں نے کسطرح اس جلوس کا استقبال کیا - لاہور اور اسلام آباد کے درمیان جی ٹی روڈ پر آنے والے شہروں سے گذرتا ہوا یہ لانگ مارچ 38 گھنٹے میں پرامن طریقے سے اسلام آبادپہنچا جہاں اُسے دھرنا دینا تھا۔ کافی لوگ جو لانگ مارچ میں تو شامل نہ مگر دھرنے میں شریک ہونے کے لیےسیدھے اسلام آباد پہنچ گے اور لانگ مارچ کے شرکا کا پرامن طریقے سے انتظارکرتے رہے۔ اپنی آمد کے فورا بعد علامہ طاہر القادری نے اس جگہ اور اپنے لیے بنائے ہوے اسٹیج پر اعتراض کردیا اور پہلے پانچ منٹ اور بعد میں دوسرئے دن صبح گیارہ بجے تک کا ٹائم دیتے ہوے یہ مطالبہ کیا کہ اس تمام انتظام کو وہاں سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ڈی اسکوئر پر شفٹ کیا جائے، تھوڑی دیر میں ہی دھرنے کے شرکا نے اسٹیج کے پیچھے رکھے ہوئے کنٹروہ ہٹاکر ڈی اسکوئرکی طرف جانے والے راستے کو کھول دیا۔ پندرہ لاکھ کی آبادی کے شہر اسلام آباد کے شہری خصوصا اور سارا پاکستان خوف زدہ تھا کہ اب کب اور کس وقت ہنگامہ شروع ہوتا ہے مگر دھرنے کی انتظامیہ نے اپنے کارکنوں کو یہ ہدایت جاری کردی کہ وہ ڈی اسکوئرپر رکھے ہوئے کنٹینرسے آگےنہ جایں۔ دھرنے کے شرکا نے اپنی انتظامیہ کے کہنے پر پوراپورا عمل کیا اور کسی ایک شخص نے بھی اسکی خلاف ورزی نہیں کی۔ اگلے دن اپنی مدد آپ کےآپ کے تحت ڈی اسکوئر سے پہلے جناع اسکوئرمیں دھرنے میں شامل لوگوں نےسارا انتظام کرلیا۔ اس دھرنےمیں معصوم بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے ، مگر پورے اسلام آباد میں اسکول، دکانیں اور دفاترخوف سےبند تھے۔

منگل پندرہ جنوری کو دوپہر میں علامہ طاہر القادری نے تقریر کی اور اپیم آدھی تقریر دوسرے دن کے لیے چھوڑ دی۔ بدھ سولہ جنوری کو شدید بارش کےدوران پھر تقریر ہوئی اور علامہ طاہر القادری نے اپنے چار نکاتی مطالبات کوحکومت سے منظور کرنے کا مطالبہ کیا۔ ابھی تک سوائے ایک ناخشگوار واقعے کے جس میں بقول علامہ پولیس نے انکو گرفتار کرنے کی کوشش کی اور بقول انتظامیہ کہ دھرنے کے شرکا نے اس آبادی کی طرف جانے کی کوشش کی تھی جہاں غیر ملکی سفارت خانے ہیں۔ اس واقعے میں پولیس کی طرف سےہوائی فائرنگ بھی کی گی۔ سولہ جنوری کی شام سے پاکستانی میڈیا نے دھرنے کے شرکا کی پرامن رہنے پر تعریف کرنی شروع کردی۔ مگردوسری طرف رات کو وزیر داخلہ نے دھرنے کے شرکا کو اسلام آباد خالی کرنے کا حکم دیتے ہوے کہا کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو انکے خلاف کارروائی ہوگی۔ حکومت کے اتحادی اس کے خلاف چیخنے لگے دوسری طرف دھرنے کے شرکا نے اپنی حفاظت کے لیے ہاتھوں میں ڈنڈئے اٹھالیے ان میں خواتین بھی شامل تھیں مگر تھوڑی دیر بعد ہی صدر آصف زرداری کی طرف سے یہ یقین دھانی کروائی گی کہ دھرنے کے شرکا کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوگی ۔ یہ ساری رات دھرنے کے شرکانے اپنی پہرےداری میں گذری۔ جمرات سترہ جنوری کو اسلام آباد کے اسکول کھل گےاور کاروبار بھی شروع ہوگیا۔علامہ طاہر القادری نے دوپہر دو بجے اعلان کیا کہ آج فیصلہ کا دن ہے اگر ڈیڑھ گھنٹے میں حکومت نے مذکرات شروع نہیں کیے تو پھر میں دوسرا اعلان کرونگا۔ ایک مرتبہ پھر پورا پاکستان پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا۔ ساڑھے چار بجے حکومت کا دس رکنی اتحادی جماعتوں کا وفد آیا اور ساڑھے دس بجے رات کو ایک معاہدہ کے بعد علامہ طاہر القادری نے دھرنے کے ختم ہونے کا اعلان کیا۔ تھوڑی دیر بعد دھرنے کے شرکا کی اسلام آباد سے روانگی شروع ہوچکی تھی۔

کوئٹہ میں منفی چار ڈگری کی شدید سردی اور بارش کے باوجود چار دن تک اپنے 86 پیاروں کی لاشیں علدعار روڈ پر ساتھ لئے دھرنے پر بیٹھے ہوے افراد یا ان کا ساتھ دیتے ہوئے پورے ملک میں دھرنے پر بیٹھے ہوے افراد میں سے کسی ایک نے بھی ایک پتھر نہیں مارااور اپنے پر امن دھرنے کی بدولت ملک کے وزیر اعظم کو مجبور کیا کہ وہ خود وہاں پہنچ کرانکے تمام مطالبات منظور کریں۔ دوسری طرف چھ ڈگری کی شدید سردی اور بارش کے باوجود لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ اور پھر چار دن تک اپنے پر امن دھرنے کی بدولت ایک پتہ توڑے بغیر دھرنے کے شرکا نےملک کے صدر اوروزیر اعظم کو مجبور کیا اور اپنے تمام مطالبات منظور کروالیے۔ صرف سات دن میں ان دو دھرنوں نے پوری دنیا کو اور خاص کر ان کو جو ہمیں ایک دہشت گرد قوم کہتے ہیں یہ پیغام دیا ہے کہ ہم ایک پرامن قوم ہیں جبکہ ایک پیغام دہشت گردوں کو بھی گیا ہے کہ پاکستانی قوم انکی دہشت گردی کے سامنے کبھی نہیں جھکے گی۔ سب سے بڑھ کر ان دو پرامن دھرنوں نے ایک سبق ہم پاکستانیوں کو دیا ہے کہ پرتشددجلوسوں اور ہنگاموں سے مسلے حل نہیں ہوا کرتے بلکہ ان سے مسلے الجھا کرتے ہیں ۔ سیاسی طور پر کسے فاہدہ ہوا یا کسے نقصان یہ بغیرتعین کیےمیں سلام کرتا ہوں کوئٹہ اور اسلام آباد کے پرامن دھرنے میں شامل لوگوں کو کیونکہ مجھے یقین ہے کہ یہ دو پرامن دھرنے پاکستان کی سیاست پر ایک تاریخی اورسبق آموز اثرچھوڑینگے۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 445899 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More