چیف جسٹس سپریم کورٹ سے کراچی کےایک عام شہری کی فریاد

محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، میں کراچی کا ایک عام شہری ہوں اور ایک فریاد آپ سے کرنا چاہتاہوں،محترم اگر آپ میری اس فریاد کو یہاں ہی پڑھ لیں تو یہ آپکا مجھ پر اورکراچی کے شہریوں پر احسان ہوگا کیونکہ موجودہ حکومت کے اس دور میں مہنگائی میں اسقدرترقی ہوئی ہے کہ سارا کام کریڈٹ پر ہوتا ہے، اسلیے اسلام آباد آنے سے قاصرہوں۔ سب سے پہلے میں اقرار کرتا ہوں کہ میرا کسی بھی سیاسی، مذہبی اور لسانی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر ہر سیاسی، مذہبی اور لسانی جماعت نے مجھے خودکار انداز میں میری مادری زبان اور میرے مسلک کی بنیادپر مجھے اپنا ممبربنا لیاہے۔ میں آپ کوکراچی میں ہر جگہ ملوں گا، ایک ٹھیلے والا ، رکشہ والا، دفتر میں کام کرنے والا، دوکانوں پر بیٹھا ہوا غرضیکہ ہر جگہ میں ہی ہوں۔میں اورنگی، کورنگی، پٹھان کالونی، پنجاب کالونی، لیاقت آباد، ناظم آباد غرضیکہ میں کراچی کی ہر بستی کا رہاشی ہوں۔ میں ایسا عام شہری ہوں جوروزانہ کی ہڑتالوں، لوٹ مار، بھتہ خوری، لاقانونیت، قتل وغارت گری اور دہشت گردی سے نہ صرف معاشی طور پربلکہ ذہنی طور پربھی دیوالیہ ہوچکا ہوں، مجھ پر ہر وقت خوف کا عالم رہتا ہے، آپ مجھے نفساتی مریض بھی کہہ سکتے ہیں۔ میرے بچے یا میں خود گھرسے باہر جاتے ہیں تو میں خوف زدہ رہتا ہوں، برداشت کسے کہتے ہیں میں بھول چکاہوں۔اسلیےاپنی فریاد عرض کرنے سے پہلے میں اپنے شہر کا تھوڑاسا ذکر کرلوں تاکہ آپ میری فریاد کو بہتر طور سمجھ سکیں۔

میرا شہر کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اور جیسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے امن وامان کا گہوارا ہوا کرتا تھا ، نہ جانے کس کی نظر لگ گی کہ اب یہ شہر جرائم پیشہ افراد، دہشت گردوں، بھتہ خوروں، لٹیروں اور سفاک قاتلوں کے مکمل قبضہ میں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور پورا شہر بغیرکسی قانون کے چل رہا ہے۔ ایک زمانے میں اس شہر میں گھروں کے دروازے صبح کو کھول کر رات کو سونے سے پہلے بند کیے جاتے تھے مگر آج اربوں روپے کا لوہا کھڑکیوں اور دروازوں پر خرچ ہوچکا ہے, مگر اس کے باوجود زندگی خوف و ہراس میں گزر رہی ہے۔ یہ شہر جو کبھی قائد اعظم کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا اب یہ شہر دنیا بھر میں رحمان ڈکیت ،جاوید لنگڑا، فاروق دادا اور ارشد پپو وغیرہ کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ پہلے لوگ مزار قائد کو کراچی کی پہچان کہتے تھے، مگر اب کٹی پہاڑی، قصبہ و بنارس، اورنگی، کورنگی، چکرا گوٹھ، لیاری وغیرہ سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔عسکری ونگز نے نوگو ایریا بنا کر اپنی اپنی حد بندیاں قائم کر رکھی ہیں اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ آہنی ہاتھ کہیں نظرنہیں آتا جس کی ماضی میں کبھی دھوم تھی ،یہی پولیس تھی جو کبھی قانون شکن عناصر کے لئے فولاد تھی مگر اب وہ بھی بےبس نظر آتی ہے۔مو جودہ حالات جن سےمیرا شہر گزر رہا ہے شاید اس کی تاریخ کا بدترین دور ہے۔ انسانی جان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ہر روز ایک عام سی بات ہوگی ہے آج دس مرگے اور آج بارہ۔ بے گناہ قتل ہونے والے کی تو شناخت ہو جاتی ہے لیکن قتل کس نے کیا یہ کبھی معلوم نہیں ہوتا۔ بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ ماؤں کے جوان بیٹے، بہنوں کےلاڈلے بھائی قتل ہورہے ہیں۔جوان سہاگنوں کے سہاگ کو اجاڑاجا رہا ہے اوران معصوم بچوں کے سروں سے باپ کا سایہ چھینا جا رہا جن کو ابھی دنیا کاکچھ پتہ ہی نہیں ۔ گذشتہ پچیس سال سے جاری اس قتل وغارت گری کی وجہ سے اب تک ایک اندازہ کے مطابق بیس ہزار کے قریب بےگناہ لوگ اپنی زندگی ہارچکے ہیں۔ یہ سب جو کھلے عام ہوتاہے اور جو سب کو نظر آتاہےمگر اس شہر کے نمائندوں اور افسران واہلکاروں کوہی نظر نہیں آتا ، لیکن شاید ان تمام بے قاعدگیوں اور جرائم کے پیچھے سر پرست موجود ہیں جو بہت طاقتور ہیں۔ شہرکے سیاسی اور مذہبی رہنماوں کو ایک دوسرے پہ الزام لگانے سے ہی فرصت نہیں اسلیے انہیں کراچی کے حالات کی کوئی پرواہ نہیں صرف اپنی سیاست چمکانے کی فکر ہے، اگر اپنی سیاسی ضرورت ہوتی ہے تو پھر ایک آدھ اخباری بیان یا پریس کانفرنس کر لی، یا زیادہ سے زیادہ اپنی پارٹی کی طرف سے ایک آدھ مذمتی قرارداد پاس کر دی ۔ اس شہر کا شاید ہی کوئی خوش نصیب ہوگا کہ وہ یا اسکے گھر کا کوئی فردلوٹ ماریا بھتہ خوری کا شکار نہ ہوا ہو، شہری اپنی کار میں ہو، موٹر سائیکل پر ہو، بس میں سفر کررہا ہویا پیدل ہو اسکو ہر وقت اپنے لٹنے کا ڈر رہتا ہے۔عام شہری سے اگر راستے میں کوئی پتہ پوچھ لے یا کوئی اجنبی چہرہ اسکے دروازے پر آجائے تو وہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور اسکو اپنی جان ومال کی فکر پڑجاتی ہے اور ایسا کراچی میں عام طور پر لٹیروں کا اندازہے۔ عام طور سے اب کراچی کے شہری اور اس کے گھر والے لٹنے کے بعدخوش ہوتے ہیں کہ چلو مال ہی گیا جان تو بچ گی۔

کچھ عرصہ پہلے بغیرکسی وجہ کے شہر میں پولیو کی دوا پلانے والی چار خواتین کو ہلاک کردیا گیا جسکی وجہ سے پولیو مہم بند کردی گئی۔ یہ خواتین جو ایک مقدس فریضہ انجام دے رہی تھیں، ہماری آنے والی نسل کو محتاج اور اپاہج بننے سے بچارہی تھیں ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے لیے تھوڑا بہت رزق حلال صرف 250 روپے روزانہ بھی کمارہی تھیں بغیر کسی وجہ کے ہلاک کردی گیں۔ اب مجھ بے بس شہری کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ اپنی بے بسی کا رونا روں یا بے حس حکمران ٹولےکی بے حسی کا ماتم کروں ، آخر لوگ کب تک اپنے پیاروں کی لاشوں پر بے بسی کے آنسو روتے رہے گے۔ مگر ہمارے حکمران طبقےکی سوچ مختلف ہے، صوبے کےوزیراعلی جنکے پاس وزارت داخلہ کا چارج بھی ہے، وہ کہتےہیں " کراچی میں امن وامان کی صورتحال اتنی خراب نہیں جس قدر میڈیا اور اخبارات میں پیش کی جارہی ہے"، گورنر صاحب کے بھی خیالات وزیراعلی جیسے ہی ہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ تو جادوگرہیں جب چاہتے ہیں، موٹرسائیکل پر ڈبل سواری اور موبائیل بند کراکر امن وامان قائیم کردیتے ہیں مگر کوئی پائیدار حل انکے پاس نہیں ہے۔صدر صاحب جب بھی اپنی ضرورت کے تحت کراچی میں ہوتے ہیں تو انکو کراچی کا درد اٹھتا ہے اور سارے ارباب اختیار کو حکم فرماتے ہیں کہ کراچی کے حالات فورا ٹھیک کرو مگر ہوتا کچھ نہیں۔ وزیراعظم صاحب کا فرمانا ہے کہ جلدہی حالات ٹھیک ہوجاینگےمگرکب ہونگے، گذشتہ پچیس سال سے ہر حکومت یہ ہی کہتی چلی آرہی ہے۔

پاکستان کے دستور کے مطابق تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں، ہر شہری کی جان ومال کی حفاظت مملکت کی ذمہ داری ہے۔ ہر شہری کو انصاف مہیا کرنا اور قانون پر عمل کروانا بھی مملکت کی ہی ذمہ داری ہے۔ مگر افسوس میرئے شہرمیں جان ومال لٹیروں اور سفاک قاتلوں کے اختیار میں ہے۔ جان ومال کی حفاظت ایسے ہی ہے جیسے کسی ہوٹل کے مسافر کا سامان، جہاں ہوٹل انتظامہ کی جانب سے ایک نوٹس میں لکھا ہوتا ہے کہ اپنے سامان کی خود حفاظت کریں انتظامیہ کسی بھی نقصان کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔اسی طرح کسی لکھے ہوئے نوٹس کے بغیرکراچی کا ہر شہری جانتا ہے کہ اُسکے جان ومال کی ذمہ داری خود اُس پر ہے، مملکت کسی بھی شہری کے نقصان کی ذمہ دار نہیں ہے۔ قانون کسی بھی مجرم کو پکڑنے کا ذمیدار نہیں، حقوق صرف حکمرانوں کے لیے ہیں اور انصاف اول تو ملتا ہی نہیں اور اگر کوشش کی جائے تو بہت مہنگا ہے۔ اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوا کراچی کے عام شہری کو نہ تو پاکستان کےدستور سے اور نہ ہی قانون سے کوئی فائدہ نہیں۔ انصاف کی بھی امید نہیں تو پھرمیں کیا کروں۔ میں مملکت کا باغی بھی نہیں کہ حبیب جالب کی طرح کہوں: ایسے دستور کو، صبح بےنور کو - میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ کسی فوجی آمر کی حکومت ہو یا پھر جمہوری حکومت ہو، ہر دور میں ہمیں ہی جان ومال سے محروم ہونا پڑرہا ہے۔

ہم کراچی کے شہریوں کو اس دستور، قانون اور انصاف سے آزاد کردیں کیونکہ اس سے ہمیں سوائے نقصان کے کچھ نہیں ملا۔ سناہے کہ جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتاہے ،لگتا ہے ہمارئے لیے اس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوگا کیونکہ پھر جنگل کے دستور کے مطابق جب بھی ہمیں جان ومال کا خطرہ ہوگا ہم اپنی مادری زبان اوراپنے مسلک کو بھول کر ایک دوسرئے کی مدد کرینگے۔ اس لیے کہ جنگل کا قانون کہتا ہے: "جب وہاں کوئی طوفان آجائے، کوئی پل ٹوٹ جائے۔ تولکڑی کےکسی تختے پر گلہری ، سانپ ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں"۔ اس لیے آپ سے فریاد ہے:
خُدا وندا ، جلیل و معتبر ، دانا و بِینا ، منصف و اکبر
میرے اِس شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 445984 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More