کشمیری حریت رہنماﺅں کا سرکاری دورہ پاکستان

حریت کانفرنس میر واعظ گروپ کے رہنماﺅں کا پاکستان او ر آزاد کشمیر کا تقریبا ایک ہفتے کا سرکاری دورہ مکمل ہو گیا ہے۔ 22دسمبر کو دن بارہ بجے حریت رہنماﺅں کا سرکاری پروٹوکول ختم ہو گیا۔اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات کے بعد حریت وفد26دسمبر کو واپس روانہ ہو گا۔حریت رہنماﺅں نے لاہور ،اسلام آبادپہنچنے کے بعد اپنے دورے کا آغاز مظفر آباد کے سرکاری دورے سے کیا۔صدر آزاد کشمیر او ر وزیر اعظم آزاد کشمیر کے ساتھ ان کی بند کمرے میں بات چیت ہوئی ۔آزاد کشمیر کے صدر اوروزیر اعظم کی دعوتوں کے علاوہ انہوں نے مہاجرین کے ایک کیمپ اور میڈیکل کالج میں منعقدہ تقریبات سے بھی خطاب کیا۔ حریت رہنماﺅں نے اسلام آباد میں وزیر اعظم پاکستان،وفاقی وزیر امور کشمیر میاں منظور وٹواورپارلیمانی کشمیر کمیٹی کے علاوہ چودھری نثار،چودھری شجاعت،اسفند یار ولی اور عمران خان سے ملاقات کی۔کراچی میں حریت رہنماﺅں نے مزار قائد پہ حاضری دی، صدر آصف علی زرداری ،بلاول زرداری سے ملاقات کی اور ایم کیو ایم کے رہنماﺅں سے ملاقات میں الطاف حسین سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی۔حریت ہنماﺅں نے لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب میاں شہبار شریف سے تفصیلی ملاقات کی۔حریت وفد نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور دیگر رہنماﺅں سے بھی ملاقات کی۔میر واعظ عمر فاروق نے اپنی ہر سرکاری ملاقات کے بعد کشمیر کے حوالے سے پاکستان سے متعلق مثبت رائے کا اظہار کیا لیکن22دسمبر کو سرکاری پروٹوکول کا وقت ختم ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے رہنماﺅں سے ملاقات میں ان کی طرف سے پاکستانی قیادت سے متعلق مایوسی کا اظہار بھی ہوا۔

حریت رہنماﺅں کی طرف سے اس دورے میں دو باتیں سامنے آئی ہیں۔ایک یہ کہ دیکھا جائے کہ پاکستان اور بھارت کے مزاکرات میں کشمیر سے متعلق کیا بات ہو رہی ہے اور دسرا یہ کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر کو اپنے انتخانی منشور میں شامل کریں۔دورے پر آنے سے پہلے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں میر واعظ نے کہا تھا کہ پاکستانی قیادت سے یہ جانیں گے کہ مسئلہ کشمیرکے حل کے حوالے سے کیسے آگے بڑہنا ہے،کشمیر کے حل کے لئے کیا کاوشیں ہو رہی ہیں اور کشمیر قیادت کو کس طرح اس عمل کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔۔میر واعظ عمر فاروق نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ” نئے جیو پولیٹیکل ماحول میں مسئلہ کشمیر کا حل“ کے موضوع پر منعقدہ تقریب سے خطاب اور سوالات کے جواب میں کہا کہ ہم پاکستان بھارت تعلقات کے خلاف نہیں لیکن ایسا کشمیر کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ دو چیزیں ہیں، کشمیر کی خواہشات اور شکایات،بھارت پہلے کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسری بات پر زور دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلہتستان کو صوبائی درجہ نہیں دینا چاہئے اس سے بھارت کو لداخ کو اپنا صوبہ بنانے کا موقع ملے گا۔میر واعظ نے کہا کہ عالمی برادری کو کشمیر کے65سال سے چلے آ رہے مسئلے پر دوہرا معیار ترک کرنا چاہئے،اگر عالمی برادری افغانستان،مشرق وسطی کے مسائل حل کرا سکتی ہے تو کشمیر کا مسئلہ کیوں نہیں حل کرایا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد بھارت کے عوام یا ریاست کی خلاف نہیں ،ہماری جدوجہد پرامن ہے، ہم لڑائی پر یقین نہیں رکھتے لیکن کشمیر میں فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی منظر نامہ بدل دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سخت پابندیوں کی وجہ سے حریت رہنماﺅں کو عوامی رابطوں کو موقع نہیں دیا جاتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر اشو کی بات کی ہے اور پاکستان ریفرنڈم اور مزاکرات میں کشمیریوں کی خواہشات کو پیش نظررکھنے کا عہد رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ابھی یہ طے نہیں کہ کشمیریوں کی طرف سے مزاکرات میں کون شامل ہو گا تاہم مزاکرات میںکشمیریوں کا شامل ہونا ضروری ہے ،اس کے بغیر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔
انہی دنوں وفد میں شامل حریت کانفرنس کے سینئر رہنما پروفیسر عبدلغنی بٹ سے ملاقات کا موقع ملا۔ ملاقات تو نجی نوعیت کی تھی لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دو کشمیری آپس میں ملیں اور مسئلہ کشمیر کا تذکرہ نہ ہو۔یہ اس لئے کہ مسئلہ کشمیر نے کشمیریوں کو سیاسی،سماجی،اقتصادی ،ہر لحاظ سے یوں شدید متاثر کر رکھا ہے کہ ان کے جسم ہی نہیں بلکہ ان کی روحیں بھی گھائل ہیں۔رات دس بجے ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا تو پروفیسر صاحب اپنے پاکستان میں متعین نمائندے منظور بٹ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔سرکاری شیڈول کے مطابق دن بھر کی مسلسل سرگرمیوں کی تھکن ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ یہ دیکھ کرذاتی تعلق کے حوالے سے سوچا کہ بٹ صاحب سے کشمیریوں کو درپیش صورتحال اور اس متعلق دوسرے امور پر بات نہ کروں، لیکن پھر سوچا کہ یہ لمحات قیمتی ہیں ،میرے خیال میں چند ضروری امور ان کے سامنے بیان کرنا ضروری ہیں اور بٹ صاحب سے بھی کئی اہم باتیں دریافت کرنا ہیں۔ بٹ صاحب کے کھانا کھانے کے دوران ہی بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔کئی اہم باتیں معلومات،اطلاعات کے حوالے سے تھیں۔اس ملاقات میں حقائق کے تناظر میں کھل کر باتیں ہوئیں،وہ باتیں جن کی سچائی کی تاب کا سامنا ہمارے سرکاری و غیر سرکاری سماج کے طرز عمل میں مشکل ہوتا ہے۔بٹ صاحب نے اس موقع پر اعتماد میں جو باتیں کیں ان میں سے صرف یہی بتا سکتا ہوں کہ ”اس مرتبہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی گئی اور کھل کر باتیں کی گئیں“۔دانشور کا منفرد اعزاز رکھنے والے سینئر حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ نے کہا کہ حریت کا یہ دورہ اس صورتحال کے تناظر میں ہو رہا ہے کہ جب مسئلہ کشمیر پاکستان کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کی قوت فیصلہ پر حاوی نہیں ہو سکتا۔اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دورہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان میں زندہ رکھنے کی کوشش کے طور پر بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ حریت کے اس دورے پر شور و غل کی موسیقی کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہی محسوس کیا جائے۔پروفیسر عبدالغنی بٹ نے کہا کہ اب مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا ءکے مستقبل سے منسلک ہو چکاہے۔جنگ تمام خطے کو بھسم کر دے گی۔مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔بھارت اقتصادی طور پر ترقی کر رہا ہے اوراقتصادی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا بھارت کے لئے اور بھی ضروری بن چکا ہے۔انتہا پسندی،تشدد،مداخلت کوئی قبول نہیں۔انہوں نے کہا کہ تاریخی عوامل کمزور اور نااہل لوگوں کو بھی فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ہمیں اپنی غلطیوں کی ذمہ داری دوسروں پر عائید نہیں کرنی چاہئے۔

کشمیر سے کسی کے آنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور نہ کشمیر سے آنے پر کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے۔اس دورے کا ایک پہلو یہ بھی کہ اس سے مسئلہ کشمیر پر ایک بار پھر بات ہوئی ہے ،لیکن گراوٹ کا چلن دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہاں مسئلہ کشمیر سرینگر مظفر آباد بس سروس اور ٹرک تجارت کی سہولیات میں اضافے کا مطالبہ ہی بن کر نہ رہ جائے۔میر واعظ عمر فاروق نے چند سال قبل اپنے سرکاری دورہ پاکستان کے موقع پر کہا تھا کہ جو ہمیں قبول نہیں وہ یہ کہ” سٹیٹس کو “قبول نہیں، لائین آف کنٹرول کی بنیاد پر تقسیم قبول نہیں،تیسرا مجھے یاد نہیں اور شاید میر واعظ صاحب بھی وہ تین امو ر دونوں ملکوں کے تعلقات کے اتار چڑہاﺅ کی دھول میں فراموش کر چکے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا حریت رہنما یہ دیکھنے بھی آئے تھے کہ پاکستان کی طرف سے کشمیر کاز کو کس حد تک نظر انداز کرنے کی سوچ کارفرما ہے اور پاکستان میں مسئلہ کشمیر کو کیسے زندہ رکھا جا سکتا ہے۔میر واعظ عمر فاروق بات کرنے میں سفارتی انداز رکھتے ہیں ۔یہ انداز کسی آزاد ریاست کے کسی عہدیدارکی طرف سے تو مناسب ہو سکتا ہے لیکن مطالبہ آزادی میں بے مثال جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود جبر کا نشانہ بننے اور نظر انداز ہونے والے کشمیری اور سنگین مسئلہ کشمیر اس نرم و ملائم سفارتی انداز تکلم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ایک طرف میر واعظ عمر فاروق یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مزاکرات میں کشمیریوں کی نمائندگی کون کرے گا،ابھی طے نہیں ہوا،اس صورت مزاکرات میں کشمیریوں کی شمولیت کا مطالبہ کیا معنی اور وزن رکھتا ہے ،اس بارے میں میر واعظ صاحب نے بات نہیں کی۔

حریت رہنماﺅں کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ نہیں ہے لیکن یہ جب بھی آئے سرکاری دورے پر ہی آئے،عوامی دورہ کوئی نہیں رہا۔کشمیریوں کے مختلف حلقے ان سے بات چیت کے متمنی ہی رہے لیکن کسی بھی دورے میں ان کو عوامی رابطوں کی ضرورت کا احساس نہیںہوا۔اگر پاکستان کی آزاد فضاﺅں میں بھی حریت رہنما سرکاری پابندیوں کا شکار رہتے ہوئے کشمیر کے عوامی حلقوں سے دور رہیں تو اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے ۔متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے انہی دنوں ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت کے خلاف جہاد آزادی تک جاری رہے گا۔حریت رہنما اپنے دورے کے موقع پر تحریک آزادی سے متعلق اہم امور پر اتفاق رائے کے لئے بھی رابطے اور ملاقاتیں کرتے تو اس سے پاکستان بھارت مزاکرات پر مکمل انحصار سے قطع نظر کشمیریوں کی اپنی حکمت عملی تیار کرنے کی ابتداءہو سکتی تھی۔لیکن” کمانڈ اینڈ کنٹرول “ کی پابندیوں سے نکل کر کشمیریوں کی مشاورت سے کشمیریوں کی اپنی حکمت عملی اختیار کرنے کی سوچ و کوشش بڑے حوصلے کا کام ہے۔میرے خیال میں کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت کے مزاکرات اور اتفاق رائے پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے اپنا طریق کارمرتب و اختیار کرنے پر توجہ دینی چاہئے،اسی صورت کشمیریوں کی نمائندگی کے تقاضوں میں پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے، اور اسی صورت مزاکرات میں کشمیریوں کی شمولیت کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اکثر کشمیری مہجور کے اس شعر پر یقین رکھتے ہیں کہ ” وقت آئے گا کہ جب کشمیر اہل مشرق کو بیدار کرے گا“ لیکن مہجور کے اس پیغام پر عملدر آمد اسی وقت ممکن ہے کہ جب کشمیری خود پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی سوچ اور اپنے فیصلے اپنائیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614079 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More