فلسطینی نیشنلزم اور کشمیر(قسط2)

تاریخ شائد ہے محکوم اقوام کے نیشنلزم کی پشت پر عسکریت نہ ہو تو وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے ۔مختلف ممالک واقوم کے معروض کے عین مطابق وہاں کا نیشنلزم پروان چڑھتا ہے قدیم زمانے میں جب اسلام اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ سرحدیں عبور کر تا آگے بڑھ رہا تھا تب جس نیشنلزم کی بنیا رکھی گئی اسکے محرکات و مقاصد کچھ اور تھے اسے اسلام کی بڑھتی مقبولیت کو روکنے کیلئے استعمال کیا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلا نیشنلزم میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔اور نیشنلزم مظلوم ومحکوم اقوام جنہیں مختلف حیلے بہانوں سے غلام رکھا گیا تھا کے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کیلئے منظم ہونیکی بنیاد بنا ۔کسی بھی محکوم قوم میں نیشلزم کا بنیادی ہدف اس قوم کی بکھری ہوئی افرادی قوت کو مجتمع کر کے اسکی توانائیوں کواسکی نظریاتی و زمینی سرحدوں کی حفاظت اور بنیادی انسانی حقوق پر مرکوزکرتاہے کہ وہ قوم سب سے پہلے اپنے بنیادی حقوق کا حصول ممکن بنائے اور پھربین الاقوامی برادری میں ایک باعزت قوم کی طرح اپناتعارف و جائز کردار ادا کرے اسواسطے اس کٹھن اہداف کے حصول کیلئے محکوم اقوام کے منظم ہونے کیلئے نیشنلزم مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے جبکہ اس نیشلزم کے پیچھے عسکری طاقت کا ہونا اسلئے ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ کمزورہی محکوم بنتا ہے اور دنیا کبھی کمزور کی منطق کو نہ سمجھتی ہے نہ سنتی ہے اسلئے منطق کے پیچھے طاقت کا ہونا ضروری ہے اسی طرح نیشلزم کے پیچھے عسکریت کاہونا لازم ہے وگرنہ بنا عسکریت کے نیشنلزم بے ثمر و بے توقیر رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مظلوم ومحکوم اقوام نے جب جب اپنی بقا و سلامتی اور خودمختاری کیلئے جد وجہد شروع کی تو مذہبی اخلاقی اقدار کیساتھ نیشلزم بھی اسکی ٹھہرا اور اس سارے عمل میں عسکریت کا کردار جسم میں روح کے مترادف رہا اور ایسی تمام تحاریک کی کامیابی کا تناسب سو فیصد رہا دنیا کی ان مقبول ترین تحریکوں میں سے ایک تحریک آزادی فلسطین بھی ہے جسکے نیشنلزم نے دنیا بھر میں پھیلے فلسطینیوں کو ہی نہیں بلکہ عرب اقوام کو بھی کسی حد تک جوڑکر رکھ دیا۔اور اس تحریک کو دنیا میں جتنی پذیرائی و کامیابیاں ملیں جتنا نام و مقام ملا اسمیں اہم ترین کردار انکی عسکری جدوجہد کا ہے جسکی بنیاد 1936 معروف فلسطینی گوریلہ لیڈر عبدالقادر الحسینی نے رکھی تھی ۔
 

image

ساٹھ کے عشرے میں الفتح ایک مقبول و منظم عسکری قوت کا روپ دھار ے فلسطین کی سب سے بڑی عسکری و سیاسی تنظیم بن چکاتھااور یاسر عرفات کی ولولہ انگیز قیادت میں اس نے وہ مقام حاصل کر لیا کہ فلسطین کے اہم ترین پڑوسی ممالک لبنان ،سوریا،اردن اور مصر میں رہتے وہاں کی حکومتوں سے زیادہ انکارعب و دبدبہ تھا ۔کئی بار کئی ممالک میں صورتحال اسقدر پیچیدہ ہو ئی جیسے وہاں کسی اور کی نہیں الفتح کی حکومت ہے جبکہ ایک بار ایسا خیال کیا جانے لگا کہ صبح یا شام اردن میں الفتح کی حکومت کا علان ہو نیوالا ہے ۔

یاسر عرفات نے دنیا بھر سے فلسطینی نوجوانوں کو باقاعدہ بھرتی کر کہ ریگولر آرمی کی طرز پر گوریلہ فورس تیار کر لی تھی ۔الفتح کی کامیاب حکمت عملی سے فلسطینی ان ممالک کی نیشنل آرمی کے اعلی ترین عہدوں تک پہنچتے رہے لیکن انکی نیشنلسٹ تربیت نے انہیں کبھی اپنے دیس اور اپنی قومی زمہ داریوں سے غافل نہ ہونے دیا ۔جو کہ فلسطینی تحریک کا ایک انتہائی خوبصورت پہلو ہے ۔الفتح نے 1967میں فلسطینی اتحاد پی ایل او میں شمولیت اختیار کی۔اور 67کی عرب اسرائیل جنگ میں بظائر عرب کو شکست ہوئی لیکن پی ایل او نے اسے اپنی فتح قرار دیا ۔اس جنگ کے کچھ ہی عرصہ بعد 68میں ایک بار پھر اسرائیل کیساتھ مڈبھیڑ ہوئی ۔جسے معرکہ کرامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان ایام میں الفتح نے اردن کے سرحدی گاؤں کرامہ میں ایک درمیانے سے مہاجر کیمپ کی صورت میں اپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھا ۔باقی ماندہ تمام ممالک یعنی لبنان ،شام،اور مصر کی ان سرحدوں سے جو فلسطین سے ملحق تھیں اکثر اسرائیل پر حملے کیے جاتے تھے ۔اور انہی دنوں ایک اسرائیلی سکول وین کو بم سے اڑا دیا گیا تھا جسمیں چند اسرائیلی فوجی اور بچے ہلاک ہو ئے جسکے رد عمل میں اسرائیلی قیادت نے فتح ہیڈ کوارٹر کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا اردنی افواج کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کسی بھی وقت حملہ کرنیوالا تھا ۔ہیڈکوارٹر میں ہزراوں گوریلاز موجود تھے پی ایل او قیادت کو متنبہ کر دیا گیا دونوں اطراف سے بھر پور تیاریاں جاری تھیں کہ زرائع ابلاغ میں کچھ ایسی خبریں بھی خبر نشر کی گئی کہ الفتح میں اختلافات ابھرے ۔اسرائیلی ڈیفنس فورس بھاری ہتھیاروں سے لیس ارٹلری ،بکتر بند گاڑیوں اور زمینی دستوں نے پیش قدمی شروع کر دی جسے اسرائیلی فضائیہ کی بھر پور مدد حاصل تھی دوسری جانب الفتح کے اہم ترین رہنما جارج حبش نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے پاپولر فرنٹ آف لبریشن آف فلسطین PFLP جبکہ نائف حائتم ڈیموکریٹک فرنٹ لبریشن آف فلسطینDFLPکے قیام کا علان کرتے ہوئے اپنے اور اتحادی دھڑوں کو علاقہ خالی کرنیکا حکم دیا یہ الفتح کیلئے بہت ہی کٹھن امتحان کا وقت تھا جب وہ اپنی ساری طاقت میدان کارزار میں جھونک چکا تب تمام پڑوسی و خیر خواہ ممالک کی چیرا دستیوں اور دشمن کی سازشوں کا شکار ہوتے ہوئے عرفات کے اہم ترین ساتھی پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے تنظیم تقسیم ہو گئی لیکن اس شخص نے ہمت نہ ہاری استقامت کے ساتھ میدان میں جمے رہے یہاں تک کہ فتح کے حامی اردنی افواج کے ڈوژنل کمانڈر نے بھی عرفات سے کہا کہ مناسب ہوگا آپ ہیڈکوارٹر شفٹ کر لیں لیکن اس نے علان کیا کہ کوئی رہے نہ رہے فتح باقی رہے گی اور فتح سے ہمکنار ہو گی ہم نے جس راہ پہ اپنے ا ٓپ کو ڈھال دیا ہے کوئی بزدل ہمارا ساتھی نہیں ہو سکتا اور ہم اپنا راستہ بدل نہیں سکتے دشمن نے ایک بار پھر للکارہ ہے الفتح اسکا جواب دیگا۔اوراسرائیل پوری قوت سے اس علاقے میں وارد ہوا اور وہ سمجھا کہ الفتح آج اسکے لئے محض ایک سیندوچ ثابت ہو گا اور وہ اسے ہی نہیں بلکہ اس علاقے کو بھی قبضہ میں لے گا مگر چشم فلک نے دیکھا کہ الفتح نے میدان جنگ میں اسرائیل ہی نہیں پوری دنیا کو حیران کر دیا ۔اس معرکے نے الفتح کی مقبولیت میں چار چاند لگا دئیے ۔
 

image

یہ سب ویسا ہی تھاجیسا کہ نوے کے عشرے میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میدان کار زار میں تھا سازشی عناصر نے تنظیم کو تقسیم کروا دیا اور نادیدہ قوتوں نے ریاست میں انہی لوگوں کو ایکدوسرے کیخلاف صف آرہ کر دیا ۔کشمیری نے کشمیری پر بندوق تان لی اور اپنے ہی تحریک خلاف سازشوں کا حصہ بنے ۔تحریک زوال پذیر ہونے لگی یہاں تک کہ عسکریت پر سوال اٹھائے جانے لگے ۔اور قوم کو قومی آزادی کی تحریکوں کے مسلمہ اصولوں کے منافی فرسودہ و دقیانوسی فلسفوں اور مباحثوں میں الجھایا جانے لگا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ آج لاکھوں شہداء وطن کی قربانیاں خطرات میں گھری ہیں ۔(جاری ہے)
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 75445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.