بینظیر بھٹو کے قاتل کہاں ہیں؟

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو بیدردی سے قتل کیا گیا اور پانچ سال گزرنے کے باوجود ان کے خون سے سینچے جانے والے اقتدار پر موج میلہ کرنے والے یہ زحمت نہیں کرسکے کہ جیالوں کو یہ تو بتا سکیں کہ ہماری محبوب قائد کو کس نے قتل کیا ہے۔قاتلوں کو سزا دلانے میں تو تاخیر ہوسکتی ہے لیکن قاتلوں کی نشاندہی کرنے میں کیا امر مانع ہے یہ ناقابل فہم ہے۔گزشتہ پانچ سالوں سے قصر صدارت پر زرداری صاحب قابض ہیں اور وزارت اعظمیٰ بھی ایک جیالے کے پاس ہے۔ آرمی چیف بھی ان کی مٹھی میں ہیں جن کو انہوں نے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ملازمت میں توسیع دی ہے۔ ایف آئی اے مکمل طور پر وزیر داخلہ کے کنٹرول میں ہے۔ پولیس بھی ان کی دسترس میں ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ دختر پاکستان کا خون کس ظالم نے کیا تھا۔ اس کے محرکات کیا تھے اور قاتلوں نے مرحومہ کے خون کے بدلے میں کیا، کیا پایا؟ پیپلز پارٹی کے جیالے بھی مسلسل خاموش ہیں اور اپنے حکمرانوں سے یہ سوال پوچھنے کی جرات نہیں کر رہے کہ ماجرا کیا ہے۔ بینظیر بھٹو کی دست راست ناہید خان کچھ، کچھ بولتی تھیں تو انہیں بھی خاموش کردیا گیا ہے۔ان کے شوہر بھی مسلسل مطالبات کے بعد بینظیر بھٹو کو شائید بھول چکے ہیں۔

جیالے اقتدار کے نشے میں اپنی قائد کاخون بھول گئے ہیں لیکن پاکستان کے عوام اس دلخراش واقعے کو نہیں بھول سکتے ۔ بینظیر بھٹو اقتدار کے باوجود اپنے بھائی کے قاتلوں کی نشاندہی نہیں کرسکیں تھیں اور آج ان کے شوہر اور پوری پارٹی بینظیر کے قاتلوں کو تلاش نہیں کرسکی۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ حیلوں بہانوں سے اس پر مٹی ڈال دی جائے۔پیپلز پارٹی کے جیالے زرداری صاحب کو اقتدار ملا جانے کی صورت میں بینظیر کے خون کا قصاص قبول کرسکتے ہیں لیکن اہل پاکستان کو یہ سودا قبول نہیں۔ پاکستان کا ہرفرد اس واقعے پر رنجیدہ تھا اور آج بھی وہ اس کی کلک محسوس کر رہا ہے۔ بینظیر کے سیاسی افکار سے شدید اختلاف رکھنے والوں نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ جیالوں کے پورے پاکستان میں احتجاج کیا اور پرتشدد احتجاج کے نتیجے میں کروڑوں کی املاک تباہ کیں۔ آج وہ اپنی حکومت سے پرتشدد نہ سہی پر امن طور پر قاتلوں کی نشاندہی ، گرفتاری اور سزا کا مطالبہ کیوں نہیں کر رہے؟

اب عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جو پارٹی اپنی قائد کے خون کے ساتھ انصاف نہیں کرسکی، جو بلاول اور بختاور کو انصاف نہیں دے سکے وہ بیس کروڑ عوام کو خاک انصاف دلائیں گے۔مجھے تو اس خاموشی بلکہ مجرمانہ خاموشی سے یہ لگتا ہے کہ پی پی پی قیادت نے محترمہ کے قاتلوں سے کوئی خفیہ سمجھوتہ کر لیا ہے اور وہ انہیں سزا دلوانے کے بجائے مکمل طور پر تحفظ دیے رہے ہیں۔کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قتل میں .... فلاں، فلاں شامل ہیں ۔ اس لیے لازم ہے کہ حکومت ایک غیرجانبدارانہ کمیش مقرر کرے جو محترمہ کے قتل کی تحقیق کرکے قوم کو بتا سکے کہ اس سفاکانہ قتل و غارت کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا اور اس کے محرکات کیا تھے اور قاتلوں کو گرفتار کرکے عبرتناک سزا دی جائے تاکہ لیاقت علی خان کی شہادت سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ قتل و غارت ختم ہو سکے۔

پی پی پی کی قیادت بینظیر کے قاتلوں اور جیالے اپنی قیادت سے سمجھوتہ کرسکتے ہیں لیکن اہل پاکستان ایک قومی راہنماءکے قتل پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سانحہ کیوں رونماءہوا اور اس کے قاتل کیوں گرفتار نہیں ہوسکے۔محترمہ کے خون سے سینچی ہوئی حکومت اگر پانچ سالوں میں ایک ایف آئی آر پر کاروائی نہیں کرسکی تو اس سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ مظلوم عوام کی داد رسی کر سکے گی۔ پی پی پی والوں کے پاس وقت کی بہت کمی ہے۔ انہوں نے جو کچھ کرنا ہے وہ عبوری حکومت کے قیام سے قبل ہی کرنا ہوگا۔ اگر کوئی سرکاری ادارہ اس سانحہ کی تحقیق میں رکاوٹ ہے تو قوم کو بتایا جائے ورنہ حکومت کے خاتمے کے بعد کسی معذوری کا اظہار قابل قبول نہیں ہوگا۔ لوگ اس خون ناحق کا حساب چاہتے ہیں۔ ہم مسلسل یہ زخم برداشت نہیں کرسکتے۔ لیاقت علی خان سے بینظیر بھٹو تک کتنے لوگ قربان ہو چکے ہیں لیکن کسی کا قاتل گرفتار نہیں ہوتا۔ اس معاملے کو اب رک جانا چاہیے۔ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ قومی قائدین کو کس نے اور کیوں قتل کیا ہے اور قاتلوں کے ہاتھ روکنے چاہیے ورنہ یہ سلسلہ کبھی نہیں روکے گا۔ موجودہ حکومت کو جو مینڈیٹ حا صل ہے، آرمی اور قانون نافذ کرنے والے سارے ادارے ان کے مکمل کنڑول میں ہیں۔ بظاہر کوئی رکاوٹ بھی نہیں، جس کا بہانہ بنایا جا سکے۔ اس لیے قوم کو دو ٹوک بتایا جائے ورنہ کل آنے والے لوگ جب اس کی تحقیق کریں گے تو وہ شائید بہت سارے لوگوں کے لیے قبول کرنا مشکل ہو اور صورت حال کا سامنا بھی نہ کر پائیں۔

بلاول، بختاور اور آصفہ نے بھی مستبقل میں سیاست کرنی ہے، وہ آج ایوان اقتدار میں موجود ہیں۔ اگلے انتخاب میں عوام کے سامنے آنے سے پہلے وہ محترمہ کے قاتلوں کو کٹہرے میں لائیں ورنہ عوام ان کی بات نہیں سنیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ جیالے میں موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد ایسی قیادت کے ساتھ چلنے سے انکار کردیں گے جو محترمہ کے قاتلوں کو پکڑنے کے بجائے بچانے میں ملوث ہیں۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105472 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More