سیاسی امتحان اور امید کی کرن

امیدوار قومی اسمبلی حلقہ این اے۔72 میانوالی سے جہاں اور سیاسی نمائندوں نے الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے وہی پر سابق تحصیل ناظم امجد علی خان نے بھی سیاسی دنگل لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے۔اپنے والد ڈاکٹر شیر افگن خان مرحوم کے اعلان کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی بجائے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم میانوالی کی معزز و بزرگ سیاسی شخصیت نے ایک طویل عرصہ تک سیاسی جدوجہد کر کے ضلع کی محروم طبقہ کے لئے جنگ لڑی اور ضلع کے غریب عوام کو شعور دے کر ووٹ کی اہمیت کا احساس دلوایا۔ہم ان کو غریبوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے پر اور عوامی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔روایتی سیاست کو ختم کرنے اور عوام کی عملی خدمت کا نعرہ لگا کر سیاسی دنگل میں حصہ لینے والے ہمارے نوجوان سوچ اور مثبت شخصیت کے حامل لیڈر امجد علی خان ضلع کی عوام کے لئے کیا واقع امید کی کرن ثابت ہوں گے؟ضلع کی ترقی کے لئے ان کی سابقہ کوشش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ان کے عملی اقدامات کی وجہ سے اپنے دور حکومت میں ضلع میانوالی کا نقشہ تبدیل کر نے میں اور ضلع کی پسماندگی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔روایتی سیاست کو ختم کرنے اور عملی خدمت کی سیاست کا قائل اور سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والا نوجوان سوچ لیڈر ضلع کی خاص کر نوجوان نسل کے لئے ایک اہم امید بن کر سامنے آیا ہے۔اس کے علاوہ ضلع کی غریب عوام کے مسائل اور ضلع کی پسماندگی کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے ایسے مسائل ہیں جو کہ امجد علی خان کے لئے سیاسی امتحان ثابت ہوں گے۔امجد علی خان سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ اپنے نام کے ساتھ صرف ایم این اے لکھوانے کا شوق نہیں اگر میں صحیح معنوں میں عوام کی خدمت نہ کر سکوں تو ایسی سیاست کو خیر باد کہ کر آرام سے گھر بیٹھ جانے کو ترجیح دونگا اور ہمیشہ اصولوں کی سیاست کو ترجیح دی اور دیتار ہوں گا۔میرا لاہور اور اسلام آباد میں گھر نہیں بلکہ میں مستقل طور پر میانوالی میں رہتا ہوں اس لیے کہ ضلع کی عوام کی خدمت میرا اولین کام ہے۔لیکن یہاں پر سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہر سیاسی لیڈر ضلع کی عوام کو سبز باغ دیکھا کر پھر پورے پانچ سال کے لیے غائب ہو جاتا ہے حتی کہ صوبائی و قومی اسمبلیوں میں بھی ان کی آواز کو کوئی نہیں سن سکتا اور نہ ہی کوئی ان کو وہاں موجود پا سکتا ہے۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک میانوالی کے باسیوں نے پارٹی سٹم کی بجائے برادری سٹم اور دھڑ بندیوں کا ماحول بنا رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے حکمران پانچ سال تک اپنی من مانیں اور منظور نظر افراد کو نوازنے کے علاوہ اور کوئی اجتماعی کام پر توجہ نہیں دیتے۔ یہاں کے حکمران انگریزوں کے فارمولے لڑو اور حکومت کرو پر عمل پیرا ہیں۔ضلع کی عوام کےلئے امید کی کرن کے ساتھ ساتھ ضلع کی غریب عوام کی بہت سی امیدیں امجد علی خان سے وابستہ ہیں۔ضلع کی عوام کو میموگیٹ کمیشن، منی لانڈری کیس، ارسلان افتخار کیس وغیر ہ وغٰیرہ جیسے معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔ضلع کی عوام نے موجودہ حکمرانوں کو اپنے نمائندے منتخب کیے لیکن اس کے بدلے عوام کو پیار کی بجائے نفرت ملی اور حلقہ کی نااہل قیادت کی وجہ سے عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھنے میںان سیاسی لیڈروں کا کردار ہے۔ صرف اور صرف اپنے ہی سیاسی مفاد کی خاطر غریب عوام کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر کے رکھ دیا ہے۔ضلع کی عوام کے مطالبات میں سے بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کو ختم کیا جائے،اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام جن میں میڈیکل، لاءاور انجیئنرنگ کالجز کے لئے حکمت عملی بنائی جائے،چھوٹے سے یونی ورسٹی کیمپس کو مزید وسعت دلوانے کے لئے کوشش کی جائیں۔انصاف کو یقینی اور آسان بنانے کےلئے ضلع کی پولیس کو رشوت اور کرپشن سے پاک کرنے کے لیے تگ ودو کی جائے۔علاج و معالجہ کی بہتر ی کے لیے اعلی اور اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کی ڈیوٹیز کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ آپریشن کےلئے نئی مشینری کا بندوبست کیا جائے،سڑکوں اور گلی و کوچوں میں سیوریج کے نظام کی خرابی کی وجہ سے لوگ گھروں سے نکل نہیں سکتے، ضلع کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کسانوں پر خصوصی شفقت کی جائے، انڈرپاس کو ری ڈائزین کیا جائے،معدنیات کے ذخائر کو استعمال میں لا کر ضلعی سطح پر انڈسٹریز لگائیں جائیں تاکہ غریب عوام دوسرے شہروں میں روزگار کے لئے ٹھوکریں کھانے کی بجائے ان کو گھر میں ہی روزگار مل سکے اور ضلع کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر بےروزگار ی میں کمی واقعہ ہو، نوجوانوں کے لیے نئے گراﺅنڈز بنائے جائیں ،ضلع میانوالی کے اہم مسائل میں منشیات، سود ، چوری، لوٹ مار، قتل وغارت میں کمی لانے کے لئے اقدامات کرنے چاہیں اور نہ جانے بہت سارے مسائل ہیں جن کی امید ہر عوام شہری کی طرح ہر سیاسی لیڈر سے لگی ہوئی ہیں۔میری آخر میں امجد علی خان سے یہی اپیل ہے کہ اب قیام پاکستان والے باسی نہیں رہے اب لوگ اپنے حق کو لینے کےلئے بہت سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔غریب کی طاقت ووٹ ہوتا ہے جس کی طاقت سے غریب آپ کو پانچ سال کے لئے غریبوں کی فلاح وبہبود کےلئے منتخب کرتا ہے نہ کہ غریب کا خون چوسنے کے لئے حکمران بناتا ہے، یہ حکمرانی اور کرسی سدا ساتھ نہیں رہتی اور نہ ہی قبر میں آپ کو کوئی استثنیٰ حاصل ہوگی وہاں صرف اور صرف ایک خدا کی حکمرانی ہے۔ خداراہ جیت کر دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح غریب عوام کو بھول نہ جانا۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 90468 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.