آبائی وطن وادی کشمیر میں 28دن - قسط ۔5

سفر نامہ:

ہم کھانا کھا رہے تھے کہ اسی دوران ایک نوجوان انڈین جوڑا ہمارے قریب بیٹھ کر تصویریں بنانے لگا۔ہم نے انہیں کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ وہ جین مت سے ہیں ۔ممبئی سے آئے اس جوڑے کو ہم نے اخروٹ اور مولی سے بنی چٹنی پیش کی جو انہیں پسند آئی۔کچھ ہی دیر بعد میں دریائے لدر کے پانی کا مزہ لینے نیچے اتر گیا۔پانی ٹھنڈا تو تھا لیکن شدید نہیں،کافی دیر پانی میں کھڑا اس سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ واپسی پہ پہلگام رکے اور وہاں کی جنت سے بھی لطف اندوز ہوئے۔پہلگام میں سڑک کے ساتھ ہی جنگل کی باڑ کے پیچھے ایک بڑے درخت کے نیچے متعدد ہرن موجود تھے۔انہیں سیا حوں کو دکھانے کے لئے انہیںاکٹھا کرنے کے لئے درخت کے نیچے ان کی خوارک رکھی گئی تھی۔کشمیر کے ہرن کی اس قسم کو کشمیری میں ہانگل کہا جاتا ہے۔یہاںدریائے لدر کا سبز پانی ایک عجب ہی نظارہ پیش کرتا تھا۔دوبارہ دریائے لدر کے کنارے جا کر اس سے ملاقات کی ،اسے محسوس کیا ،اس کے ساتھ خود کو فلمبند کیا تا کہ ان حسین لمحات کی یادیں میری زندگی میں تر وتازہ رہیں۔ خواب جب حقیقت بنتے ہیں تو ان لمحات کے لطف کو ہمیشہ کی زندگی دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔

واپسی دوسرے راستے سے اختیار کی گئی۔اسی سڑک پہ بائیں ہاتھ کشمیر کے مقبول حکمران بڈ شاہ کی تعمیر کردہ نہر اب بھی قائم ہے۔عشمقام آیا،اوپر کی جانب بلندی پہ زیارت نظر آئی تو کشمیر کا صوفیانہ دمبالی رقص یاد آگیا۔چھٹی سنگھ پورہ اور مٹن کے قصبوں سے گزر کر ہم اننت ناگ(اسلام آباد) شہر پہنچ گئے۔یہ سرینگر کے بعد کشمیر کا دوسرا بڑا شہر ہے۔پھر اونتی پورہ سے ہوتے ہوئے پامپور علاقے میں داخل ہو گئے۔ہمارے دائیں اور بائیں دونوں طرف زعفران کے وسیع کھیت تھے۔اس وقت ان میں زعفران کی بوائی کی گئی تھی۔شام کی تاریکی چھا رہی تھی،نامعلوم کیوں مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ڈوبتے سورج کی جانب کھیتوں کے اختتامی حصے میں زعفرانی رنگ نظر آ رہے ہیں۔میں نے آنکھیں مل کر دوبارہ دیکھا لیکن وہ جادوئی رنگ اپنی جگہ موجود تھے۔ سورج ڈھلنے کے بعد کی روشنی دم توڑ رہی تھی،افق پہ عجیب سی سرخی چھائی ہوئی تھی،کار میں ہم دونوں( ڈاکٹر شاہد ٹاک اور میں) اکیلے اور خاموش تھے،کار میں اندھیرا ہو چکا تھا، افق پہ چھائی سرخی کی خوبصورتی نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کر لی تھی۔ گاڑی کے اندھیرے میںاچانک ڈاکٹر شاہد کی آواز گونجی،شاید وہ خود کلامی میں بول رہے تھے،
شفق کی لالی یہ میرا لہو
کبھی وہ جلا کبھی میں بجھا
میں ہوں منتظر تیرے حسن کا
ابھی اور کتنا ہے فاصلہ
وہ جو آنسوﺅں میں چھلک گئی
اسی زندگی سے دھنک بنی
 

image

ڈاکٹر شاہد اور بھی کچھ بول رہے تھے لیکن میں خود منظر کشمیر کے اس رنگ میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ اس پر توجہ نہ دے سکا۔رات سرینگر بمنہ توحید کالونی کے اسی کمرے میں گزری جو مجھے اس تما عرصہ جنت کے ایک گوشے کی طرح لطف دیتا رہا۔دو طرف کی کھڑکیوں سے آنے والی خوشبو دار،زندگی سے بھرپور تازہ ہوا کمرے کے اندر بھی بتا دیتی تھی کہ میں وادی کشمیر جنت نظیر میں موجود ہوں،کشمیر میں کہیں بھی چلا جاﺅں اس جنت کا احساس مجھے شدت سے محسوس ہوتا رہے گا۔

اگلی صبح،10اکتوبر کو دس بجے دن میں پبلک سروس سومو جیپ میں بیٹھ کر بارہمولہ کے لئے روانہ ہوا جہاں میرے ماموں ڈاکٹر ارشاد ( پرنسپل بارہمولہ ڈگری کالج)میرا انتظار کر رہے تھے۔ گیارہ بجے مین روڈ پہ واقع بارہمولہ ڈگری کالج پہنچ گیا اور ساڑھے گیارہ بجے ہم کپواڑہ کے لئے روانہ ہو گئے۔کالج کی سومو جیپ کا ڈرائیور شرن پال سنگھ بارہمولہ کا ہی رہائشی ہے۔سوپور،چوگل،دائیں ہاتھ پہ نالہ پہرو،آرمپورہ اور پھر کپواڑہ کی حدود شروع ہو گئیں۔ڈاکٹر ارشاد صاحب نے میری توجہ دائیں جانب کھیتوں کے عقب میں موجود ایک گاﺅں کی طرف دلاتے ہوئے بتایا کہ یہ ماڈل ولج ”درگ ملا “ ہے۔کیا،میں یہ نام سن کر چونک گیا،درگ ملا ،مطلب مہنگا مولوی،ڈاکٹر ارشاد صاحب سمجھ نہ سکے تو میں نے کہا ”expensive molvi“اس پر ڈاکٹر ارشاد صاحب مسکرائے اور کہا جی ہاں درگ ملا۔(کشمیری زبان میں درگ کا مطلب مہنگا ہے) کپواڑہ بازار میں آزاد کشمیر کی طرح کے ہی مناظر نظر آتے ہیں ۔بازار سے ہم چوکی بل ،ترہگام جانے والے سڑک پہ آ گئے ۔کپواڑہ ڈگری کالج سے ہو کر ہم کاری ہامہ جنگل کی جانب سڑک پہ چل دیئے۔دیدی کوٹ نامی گاﺅں آیا،پھر گچی گاﺅں آیا تو مجھے کشمیری سنتور نواز ملک مختار یاد آ گئے،ان کا تعلق بھی گچی سے تھا۔کپواڑہ کے ممبر اسمبلی میر سیف اللہ کا تعلق نیشنل کانفرنس سے ہے۔تھوڑی ہی دیر بعد ہم کاری ہامہ کے جنگل میں پہنچ گئے۔سڑک کے ساتھ گھنا جنگل بہت خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔

کپواڑہ بازار میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم ہندواڑہ کے لئے روانہ ہوئے۔وہاں ہم نے ایک گاﺅں سراج پورہ،وپز ونی جانا تھا۔سراج پورہ میرے سسر، آزاد کشمیر و پاکستان کے معروف کشمیری رہنما مرزا غلام رسول بیگ(مرحوم) کا گاﺅں ہے۔گاﺅں کا راستہ ہمیں معلوم نہ تھا ،پوچھتے پوچھتے ایک سڑک پہ مڑ گئے۔اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ہوا یوں کہ میں سرینگر میں اپنے ایک رشتہ دار سے ہندواڑہ کے سراج پورہ گاﺅں کے بارے میں دریافت کر رہا تھا۔ان کی اہلیہ کا تعلق ہندواڑہ سے ہے۔میں نے ان سے پوچھا کہ یہ اپز ونی ہے کہ وپز ونی ؟ انہوں نے جواب دیا یہ وپز ونی ہے۔اس پر میں نے کہا نہیں، میرا سسرال ہے اسلئے اپز ہی ہو گا۔کشمیری زبان میں اپز جھوٹ کو کہتے ہیں۔ارشاد ماموں کے ساتھ سراج پور پہنچنے تک اپز اور وپز کا مزاق چلتا رہا۔ایک جگہ سے وپز ون گاﺅں کا پوچھا تو انہوں نے تھوڑے ہی پیچھے ایک موڑ مڑنے کی ہدایت کی۔واپس مڑ کر وہاں پہنچے تو ایک کچی سڑک ایک چھوٹی پہاڑی پہ چڑھ رہی تھی،چند ہی موڑ کاٹنے کے بعد ہم دوبارہ زمینی علاقے میں داخل ہو گئے۔ہر طرف کھیت ہی کھیت تھے،کہیں کہیں کوئی گاﺅں نظر آتا تھا۔پہلا گاﺅں آیا تو وہاں کوئی نظر نہیں آیا۔ سڑک پر قائم ایک دکان کے باہر کھڑے تین افراد سے وپز ونی کے بارے میں معلوم کیا تو جواب ملا یہی وہ گاﺅں ہے۔وپز ونی اس گاﺅں کا پرانا نام ہے،اب اس کا نام سراج پورہ ہے۔ اشرف بیگ (مرزا غلام رسول بیگ مرحوم کا ایک بھتیجا)کے بارے میں پوچھا،انہوں نے ساتھ والی گلی میں آگے جا نے کو کہا،میں اور ڈاکٹر ارشاد صاحب اس گلی میں داخل ہو کر آگے بڑہتے گئے۔بائیں قطار کو آخری گھر کو دیکھ کر میں ٹھٹھک گیا،وہ گھر مکمل طور پر لکڑی سے بنا ہوا تھا،گھر کے سامنے دا ئیں طرف لکڑیوں کی باڑ لگا کر اس میں رنگ رنگ کے پھول لگائے گئے تھے۔ درمیانی عمر کا ایک کشمیری دیہاتی پھولوں کی اس باڑ کی ساتھ نہایت مطمن انداز میں بیٹھا ہوا تھا،تین چار سال کا ایک بچہ اس کے ارد گرد گھوم رہا تھا۔میں رک کر اسکی تصویر لینا چاہتا تھا لیکن ڈاکٹر ارشاد صاحب نے کہ پہلے اپنا سسرال دیکھ لو۔ہمیں راستہ بتانے والا شخص بھی ہمارے پیچھے پیچھے چلا آیا تھا۔اس کے بتانے پہ ہم ساتھ ہی موجود ایک گھر میں داخل ہوئے تو ایک خاتون نے حیرانی سے ہمارا سامنا کیا۔اشرف بیگ کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ ہندواڑہ گیا ہوا ہے۔مزید سوالات سے معلوم ہو گیا کہ یہ ہمارا مطلوب اشرف بیگ نہیں ہے۔ہم نے وہاں سے نکلنا چاہا لیکن اس گھر کی خاتون نے اصرار شروع کر دیا کہ جائے پئے بغیر ہم وہاں سے نہیں جا سکتے ۔مشکل سے اس خاتون سے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ ہمیں اپنے عزیز دوسرے اشرف بیگ کے گھر پہنچنا ہے۔باہر نکلتے ہی میں فورا ساتھ والے اس گھر کے سامنے پہنچ گیا جو مجھے کشمیرکے تاج محل کے طور پر نظر آیا تھا۔وہ کشمیری جوان اسی طرح اطمینان سے پھولوں کی کیاری کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔میں آگے بڑھ کر اس کی تصویر کھینچنے لگا تو اس کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔میں اس مسکراہٹ کو کوئی معنی دینے کے متضاد اندازے لگاتا رہا ،لیکن ناکام رہا۔میں نے قریب گھومتے بچے کی تصویر اتارنے کی کوشش کی لیکن وہ بچہ شرما اور بوکھلا کر جل دے گیا۔
 

image

گاﺅں کے اسی شخص جس سے ہم نے پتہ معلوم کیا تھا ،کی رہنمائی میں ہم واپس اسی جانب چل پڑے جہاں سے گلی میں داخل ہوئے تھے اور سڑک کی دوسری جانب کے مکانات کی جانب چل دیئے۔ایک گھر میں داخل ہوئے تو سامنے موجود نوجوان، سوٹ اور پینٹ جیکٹ میں ملبوس دو افراد کو تیز تیز چلتے ہوئے اندرآتے دیکھ کر حیران سا ہوا۔ہم نے آگے بڑھ کر تعارف کرایا تو وہ فورا ہمیں لکڑی سے بنے گھر کی پہلی منزل پہ لے گیا۔چند ہی منٹوں میں چائے اور خاطر تواضع کی اشیاءآگئیں۔تھوڑی ہی دیر کے بعد تیزی سے دو دو چار چار افراد وہاں پہنچنے لگے۔دس منٹ بعد یہ تعدا د اتنی زیادہ ہو گئی کہ ہمیں کمرے سے نکل کر نیچے کھلی جگہ جا پڑا۔بیگ خاندان کے تیس چالیس افراد وہاں جمع ہوگئے۔مرزا غلام رسول بیگ( مرحوم) کے دو معمر بھائیوں سے ملاقات ہوئی،ان کے بھتیجوں ،بزرگ خواتین سے ملاقات ہوئی۔یہاں موبائل فون کے سگنل نہیں آ رہے تھے،خیال تھا کہ ان کے بات اپنے برادر ان لاءعبدالرشید بیگ سے کرا دوں جو لندن رہتے ہیں ۔ہم نے اجازت چاہی تو انہوں نے کہا کہ کم از کم ایک رات گزارے بغیر آپ یہاں سے نہیں جا سکتے۔بڑی مشکل سے دوبارہ آنے کے وعدے پررخصت کی اجازت ملی۔گاﺅں میں گھروں کی تعداد پوچھی تو جواب ملا کہ ساڑھے تین سو چولہے ہیں۔گاﺅں کے زیادہ افراد زراعت سے وابستہ ہیں۔کشمیر کے گاﺅں اب بڑے ہوتے جا رہے ہیں لیکن سراج پورہ مکمل طور پر ایک گاﺅں ہے جہاں کی سادگی اور علاقے کی خوبصورتی منفرد ہے۔لکڑی سے بنے گھر،ہر گھر کے لان میں پھولوں کی کیاریاں،خاموشی،سکون کی کیفیت،ارادہ کیا کہ آئندہ یہاںقیام ضرور کروں گا۔ ہندواڑہ سے ممبر اسمبلی انجینئر عبدالرشید جو آزاد کامیاب ہوا۔ انجینئر عبدالرشید اپنے مخالفانہ بیانات اور مضامین کی بدولت پہچانے جاتے ہیں۔

رات بارہمولہ قیام کے بعد صبح،11اکتوبر کو ڈاکٹر ارشاد صاحب نے مجھے ناربل ڈراپ کیا جہاں میرے تایا زاد بھائی عبدالقیوم وانی کا بیٹا ارشد وانی مجھے لینے آیا ہوا تھا۔وہاں سے ماگام کے راستے سیدھا سدی پورہ بیروہ پہنچے۔دوپہر کا کھانا کھا کر ہم سومو جیپ میں گلمرگ کے لئے روانہ ہو گئے۔ماگام سے بائیں ہاتھ مڑ کر ہمارا رخ ٹنگمرگ،گلمرگ کی جانب ہو گیا۔ماگام سے نکلے تو دھوبی ون،کنزر اورچندی لورکے مقامات آئے۔ اس کے بعد ہم ٹنگمرگ پہنچ گئے۔گلمرگ پہنچے تو وہاں ہندوستانی سیاح کافی تعداد میں موجود تھے۔گلمرگ کے پہاڑی میدان کے گرد سے چکر لگاتے ہوئے دوسری جانب پہنچے۔گلمرگ کے میدان کے اطراف میں جدید سہولیات سے آراستہ ہوٹل بنے ہوئے ہیں۔ایک بڑا حصہ فوج کے پاس ہے۔یہاں سے ہم نے گنڈولا کے ٹکٹ لئے۔گنڈولا کے ذریعے پہاڑ کے اوپر تقریبا سات کلومیٹر کا سفر طے کیا جاتا ہے۔اس گنڈولا رائیڈ کا ٹکٹ آٹھ سوروپے فی آدمی ہے۔ایک وقت میں چھ افراد تک اس میں بیٹھ سکتے ہیں چلنے سے پہلے خود کار طور پر گنڈولے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔درمیان میں کھلن مرگ کے مقام پر گنڈولا رکتا ہے یہاں ایک اچھا ریسٹورنٹ قائم ہے اور اچھے کھانے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔یہاں پارک نما جگہ ہے جہاں سے ارد گرد کے خوبصورت مناظر ہیں۔ہم کھلن مرگ سے گنڈولے سے اتر کر دوسرے گنڈولے میں سوار ہو کر اوپر آخری سٹیشن کی جانب روانہ ہو گئے۔برفانی پہاڑ کی اس چوٹی کو افر وٹھ کہا جاتا ہے۔ یہاں گنڈولے سے اترتے ہی سخت موسم کی شدت کا احساس ہوا حالانکہ ابھی ہم بند جگہ پہ تھے۔گنڈولا رکنے کے ہال نما کمرے میں تین فوجی اپنی رائفلوں سمیت کھڑے تھے ۔باہر نکلے تو نہایت تیز اور برفانی ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔باہر ایک نوجوان انڈین فوجی کسی چپس کے پیکٹ کا خالی ریپردکھاتے ہوئے انڈین سیاحوں کے ساتھ تصویریں کھنچوا رہا تھا۔افر وٹھ کا پہاڑ 13500فٹ بلند ہے ۔بائیں ہاتھ پہ انڈین آرمی کا اگلو نظر آ رہا تھا۔دائیں ہاتھ پچاس ساٹھ قدم کے فاصلے پہ فوج کی طرف سے نصب بورڈ پر مزید آگے نہ جانے کی ہدایت درج تھی۔چند بڑے پتھروں کی آڑ میں سیگریٹ سلگانے کے لئے لائٹر جلانے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا،پھر یاد آیا کہ اس بلندی پہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لائٹر نہیں جلتا،ایسے بلند مقامات پر آگ جلانے کے لئے ماچس ضروری ہے۔سامنے دیکھا تو برفانی پہاڑ کے پیچھے گولائی کی شکل میں ایک برفانی وادی نظر آئی جس کے درمیان میں ایک برف پوش پہاڑ تھا۔اس برفانی وادی کا نظارہ پرستان کے منظر کی مانند تھا ۔دائیں ہاتھ کے برفانی پہاڑوں کے پیچھے کے علاقے کو آزاد کشمیر کا علاقہ بتایا گیا۔ایک فوجی سے پوچھا کہ اس پہاڑ کے پیچھے پاکستان کا کون سا علاقہ ہے تو اس نے جواب دیا میرپوری۔میرا خیال ہے کہ یہ علاقہ فاروڈ کہوٹہ، باغ اور راولاکوٹ کے سرحدی علاقوں سے ملحقہ ہے۔ بائیں طرف نظر دوڑائی ،جہاں سے گلمرگ کے میدان اور وادی کشمیر نظرآ رہے تھے،یہاں ایک الگ ہی منظر نظر آیا،گلمرگ ایک چھوٹی وادی کا منظر پیش کر رہا تھا جس کے نیچے وادی کشمیر کا میدانی علاقہ نظر آ رہا تھا۔اس پہاڑ سے نظر آنے والے تین مناظر ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے،حسن کے ایسے زاویئے تھے جو ایک دوسرے سے الگ الگ دکھائی دینے کے باوجود ایک ہی شے سے پیوستہ ہیں۔آزاد کشمیر کی طرف الگ قسم کے پہاڑ اور الگ ہی قسم کے بادل تھے۔سامنے برفانی وادی کا منظر ہی منفرد ،دیو مالائی کہانیوں جیسا،جس کے اوپر سفید اور پھر گہرے رنگ کے بادل اک عجب منظر کشی کر رہے تھے۔گلمرگ کا میدان اور وادی کشمیر کے منظر بادلوں میں آ کر ڈرامائی کیفیت پیدا کر رہے تھے۔اتنے میں اپنی جیکٹ پر نظر پڑی تو جا بجا برف کے نشان نظر آئے۔اس جگہ کی زمین پر گہرے لال رنگ کے چھوٹے چھوٹے پتوں والے پودے تھے۔پندرہ بیس منٹ کے بعد ہی تیز تر برفانی ہواﺅں کی تاب نہ لاتے ہوئے گنڈولے کے ذریعے نیچے جانے کا فیصلہ کیاگیا۔حیرت انگیز طور پر مجھے اتنی بلندی میں بھی سانس لینے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی سانس پھولنے کی شکایت ہوئی۔حالانکہ وادی کاغان میں جھیل سیف الملوک کی سیر کے دوران میں نے ہلکی چڑہائی پر سانس پھولتے محسوس کیا تھا۔گنڈولے میں بیٹھ کر نچلے مقام کھلن مرگ جا کر اترے تو تب بھی سردی کا اثر ختم نہیں ہوا ۔ریسٹورنٹ میں جا کر گرما گرم کافی پی تو جان میں جان آئی۔یہاں سے افر وٹھ کی پہاڑی چوٹی صاف دکھائی دے رہی تھی،جہاں سے چند منٹ قبل ہی ہم ہو کر آئے تھے۔دوبارہ گنڈولے میں بیٹھ کر نیچے گلمرگ کا رخ کیا۔چند ہی منٹوں کے بعد ہم واپس گلمرگ کے میدان میں پہنچ چکے تھے۔

ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی۔ہم گاڑی میں سوار ایک ہوٹل پہنچے اور بارش کے سماں میں چائے سے لطف اندوز ہوئے۔اب ہماری منزل بابا رشی کی زیارت تھی۔چند منٹوں کی ڈرائیو کے بعد ہم بابا رشی کی زیارت کے سامنے کھڑے تھے۔زیارت میں جا کر فاتحہ پڑھی،زیارت کے مختلف حصے دیکھے،تصاویر بنائیں اور واپسی کے سفر پہ روانہ ہوگئے۔ٹنگمرگ پہنچے تو میں نے گاڑی رکوا لی اور نیچے اتر آیا۔اس جگہ میں کوئی ایسی کشش تھی کہ جس نے مجھے گاڑی سے اترنے پہ مجبور کر دیاتھا۔نیچے اتر کر دیکھا تو ایک طرف قطار میں دکانیں اور ہوٹل تھے۔ان کی بناوٹ اور ماحول دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں یورپ کے کسی حسین خطے میں موجود ہوں۔ان کے پیچھے گھنے جنگلات۔بابا رشی کی زیارت پہ پہنچنے سے پہلے ہی میں نے جیکٹ اتار کر فرن پہن لیا تھا۔ٹنگمرگ کے بازار میں ماحول ،مناظر دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے بھتیجے ارشد نے اس جگہ میری دو تصاویر اتار لیں۔میرے خیال میں اس پورے دورے میں یہ میری بہترین تصویر ہے،جس میں میں فرن پہنے ٹنگمرگ کے بازار میں کھڑا ہوں اور میرے قریب سے سڑک پہ ایک گھوڑا جا رہا ہے۔ رات کو سدی پورہ بیروہ میں قیام رہا۔کشمیر میں ایک نئی چیز جو میں نے دیکھی وہ کچن کے ساتھ ہی بیٹھنے کی جگہ تھی جہاں گھر والے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔کشمیر کے سرد موسم کی وجہ سے اس طرح کے کچن کا انداز اپنایا گیا ہے۔رات کے کھانے کے بعدہم کچن کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ اکٹھے بیٹھ گئے اور دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔یہ بھی میری زندگی کے یاد گار لمحات تھے۔
 

image

اگلے دن میں براستہ ماگام،نار بل کے بجائے دوسرے بڈگام کے راستے سے سرینگر روانہ ہوا۔اس دن گیس کی مہنگائی کی وجہ سے ہڑتال تھی ۔انہی دنوں کشمیر میں بھارتی حکومت نے گیس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کر دی اور سبسڈی پر سال میں صرف چار سلینڈر دینے کا فیصلہ کیا۔اس پر کشمیر میں عوام میں مخالفانہ ردعمل ہوا۔بیروہ سے بڈگام کی جانب 15کلومیٹر کے فاصلے پر نصراللہ پورہ ہے۔اس علاقے میں بہاری بڑی تعداد میں مقیم ہیں جو ہرسال مزدوری کی غرض سے یہاں آتے ہیں اور سردیوں کا موسم واپس ہندوستان جا کر گزارتے ہیں۔ میر گنڈ سے ہو کر ہم بمنہ چوک جا نکلے،جہاں سے دائیں ایئر پورٹ اور بائیں بارہمولہ راستہ جاتا ہے جبکہ سیدھا راستہ ٹٹو گراﺅنڈ اور لال چوک کی طرف جاتا ہے۔دن کا کھانا ایک عزیز کے گھر تھاجو مومن آباد بٹہ مالو رہتے ہیں ،رات ہونے تک انہی کے گھر رہا۔شام سے ہی طبعیت کچھ ناساز تھی۔اگلے روز اتوار کا دن تھا جو میں نے بمنہ توحید کالونی کے اپنے محبوب کمرے میں آرام کرتے گزارا۔اگلے روز ایک عزیز کے گھر گیا اور وہاں سے ان کے ایک عزیز کے ساتھ چشمہ شاہی گیا۔رات بمنہ توحیدکالونی میں اسی جنت جیسے کمرے میں گزری۔

سری پرتاب سنگھ میوزیم اور لائیبریری ساتھ ساتھ واقع ہیں۔کشمیر کلچرل اکیڈمی کی عمارت اس سے ملحق ہے ۔معلوم ہوا کہ اتوار کو میوزیم کھلا رہتا ہے اور سوموار کو تعطیل ہوتی ہے۔سر پرتاب سنگھ لائیبریری1898ءمیں قائم ہوئی۔لائیبریری میں 80ہزار کتب ہیں۔پہلے میوزیم اور لائیبریری اکٹھے تھے۔1999ءمیں انہیں الگ کیا گیا۔ مرکزی لائیبریری کی 80ہزار کتب میں سے 20ہزار کتب سرینگر کی سٹی سنٹرل کے ممبران کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں سٹوڈنٹس بھی شامل ہیں۔جمعرات کو لائیبریری بند رہتی ہے۔لائیبریری کی ویب سائٹ اپ گریڈ کی جا رہی ہے اور جلد ویب پر لائیبریری کی کتابوں کی فہرست مہیا ہو ںگی۔206نایاب کتابوں کی فلم بندی کی گئی ہے۔لائیبریری کی اس قدیم عمارت کو غیر محفوظ قرار دیا جا چکا ہے۔لائیبریری کی نئی بلڈنگ لال چوک کے پاس کالج آف ایجوکیشن کے قریب زیر تعمیر ہے۔اس لائیبریری سے کئی اہم تاریخی دستاویزات بھارت آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ منتقل کی گئی ہیں جن میں ریاست کشمیر کے بھارت سے الحاق کی وہ اصل دستاویز بھی شامل ہے جس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں۔لائیبریری سے باہر نکلا تو دیکھا کہ سامنے دریائے جہلم پر ایک پیدل پل ہے،یہ پل عبور کر کے آپ لال چوک علاقے میں پہنچ جاتے ہیں۔پل سے سکول کے بچے بڑی تعداد میں گزر رہے تھے۔یہاں سے دریائے جہلم نہایت خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔دریا کے دونوں کناروں پہ وقفے وقفے سے ہاﺅس بوٹس کھڑی تھیں۔پانی کا عجب سا رنگ اور اس میں چنار کے درختوں کی تصاویر،ہاﺅس بورٹس کے پیچھے متوازی ڈھلوان۔پل عبور کر کے دریا کے متوازی جانے والی چھوٹی سڑک پہ پہنچے تو بائیں ہاتھ پہ چار دیواری میں انگزوں کا قبرستان ہے۔میں نے دیوار پر سے جھانک کر اندر کا نظارہ دیکھا اور تصویر بنائی۔مجھے یہ قبرستان انگریزوں کے صاف ستھرے،خوبصورت قبرستانوں کے برعکس نظر آیا۔قبرستان میں پودے بڑہے ہوئے تھے اور قبریں ان میں چھپ رہی تھیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی انگریز اب ان قبروں پہ نہیں آتا۔عیسائی مشنریاں کئی صدیوں سے کشمیر میں فلاحی کام کر رہی ہیں۔تعلیم اور طبی علاج کے لئے قائم مشنریوں کے سکول اور ہسپتال اپنے اعلی معیار کے لئے مشہور ہیں۔انہی دنوں سرینگر میں ایئر پورٹ روڈ پہ قائم کانونٹ ہائیر سکینڈری سکول میں داخلے کے حوالے سے سکول انتظامیہ کی بعض شرائط پر عوامی حلقوں میں سخت تنقید کی گئی۔سکول انتظامیہ سے عیسائی،سیکورٹی فورسز اور اعلی تعلیم یافتہ والدین کی صورت پانچ پانچ اضافی نمبر دینے کی شرائط عائید کیں۔سرینگر کے کئی عوامی حلقوں نے اسے مذہبی تخصیص اور غیر اصولی فیصلہ قرار دیا ہے ۔عیسائی مشنری ادارے کشمیر میں عوامی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ ان اداروں پر سرکاری اثر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔

پہلے میرا 8اکتوبر کوواپسی کا ارادہ تھا،پھر15اکتوبر کی تاریخ طے کی۔مجھے معلوم نہ تھا کہ وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں میرے رشتہ دار ،عزیز و اقارب کی تعداد اتنی زیادہ ہے۔تسلی نہ تو میری ہو رہی تھی نہ رشتہ داروں کی،بلکہ رشتہ داروں اور عزیز و اقارب میں ناراضگی بھی جھلکنے لگی کہ میں انہیں مناسب ٹائم نہیں دے رہا ہوں،جبکہ میںسرینگر، صفاپور، بیروہ،بارہمولہ،بجبہاڑہ کے درمیان محو سفر رہا۔اگر مجھے پہلے سے علم ہوتا کہ میں نے وہاں26دن قیام کرنا ہے تو میں ہر جگہ چار پانچ دن دے سکتا تھا۔لیکن قیام میں ایک ایک ہفتے کا اضافہ زیادہ فائدہ نہ دے سکا۔پہلے8اکتوبر واپسی کے خیال سے اکثر رشتہ داروں سے ملاقاتوں کا پہلا راﺅنڈ مکمل کیا، مزید ایک ہفتہ قیام کیا تو ملاقاتوں کا دوسرا راﺅنڈ کیا،پھر22اکتوبر تک قیام کیا تو متعدد مقامات پر تیسرا راﺅنڈ کرنا پڑا۔16اکتوبر سے میں نے مختلف علاقوں میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے واپسی سے قبل کی ملاقات کا سلسلہ شروع کیا۔16اکتوبر کے دن میں سرینگر سے صفا پور آ گیا۔اگلے روز صبح اپنے والد مرحوم(خواجہ عبدالصمد وانی)کے بچپن کے دوست ،کلاس فیلو ڈاکٹر غلام رسول سے ملنے صفاپور کے کوہستان کالونی علاقے میں گیا۔ ڈاکٹر غلام رسول کے فرزند اور اہل خانہ سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر غلام رسول صاحب نے مرحوم والد صاحب کے بچپن کے کئی قصے سنائے ۔ ڈاکٹر غلام رسول صاحب کے فرزند کے گھر کی آﺅٹ لک نہایت شاندار تھی۔میں نے کوشش کی کہ اپنے آبائی وطن کے اس دورہ کے دوران پسند آنے والے گھروں کی تصاویر بھی لے لوں،پھر بھی کئی ایسے گھروں کی تصاویر نہ لے سکا جو مجھے اچھے لگے۔اپنی ایک بھتیجی کے گھر کے بعد میں ایک قریبی گاﺅں لارسن کے لئے روانہ ہوا۔وہاں میری تایا زاد بہن رہتی ہے جن کے شوہر میرے والد صاحب کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔چند گھنٹے ان کے گھر گزارنے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو انہوں نے تقریبا ناراضگی میں ہی اجازت دی،ان کی توقع تھی کہ میں کم از کم ایک رات تو وہاں ضرور رہوں گا۔اس دورہ میں میں نے محسوس کیا کہ میرے قریبی رشتہ داروں کی ہی تعداد اتنی ہے کہ اگر میں وہاں چھ ماہ بھی رہوں تو تمام رشتہ داروں سے نہیں مل سکتا۔کئی قریبی رشتہ داروں بھی ملنے سے رہ گئے جس کا مجھے دلی افسوس ہے۔جن سے ملا، ان کی اور نہ میر ی تسلی ہوئی۔

شام ساڑھے چار بجے اشم کے لئے روانہ ہوا اور رات کو پونے آٹھ بجے واپس صفاپورہ پہنچا۔گھر والوں سے رخصت دینے کی درخواست کی تو انہوں نے بتایا کہ صفاپور میں پندرہ دن کے لئے رات آٹھ سے صبح چار بجے تک کرفیو نافذ ہے لہذا اس وقت بارہمولہ جانے کا ارادہ ترک کیا جائے۔ہوا یوں کہ چند دن قبل جب میں صفاپور میں اپنے بڑے تایا زاد بھائی کے گھر میں تھا تو اچانک رات پونے آٹھ بجے قریبی جامع مسجد سے اعلان ہوا کہ رات آٹھ سے صبح چار بجے تک کرفیو نافذ ہے ،اس دوران کوئی اپنے گھر سے باہر نہ نکلے۔ارد گرد کے علاقوں میں فون کر کے پتہ کیا لیکن انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا۔سرینگر چند صحافی دوستوں نے میرے فون کرنے پر پولیس کنٹرول سے بھی صفاپور ہ میں لگنے والے کرفیو کے معتلق دریافت کیا لیکن کچھ معلوم نہ ہو سکا۔
(باقی آئندہ قسط میں)
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614100 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More