آبائی وطن وادی کشمیر میں 28دن - قسط۔4

واپسی پہ جب آبادی شروع ہوئی تو ایک جگہ ایک شخص نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔وہ میرے ایک عزیز کا واقف کار تھا۔اس نے دوپہر کو دودھ پتھری جاتے دیکھ کر واپسی پر ہمیں اپنے گھر چائے پینے کی دعوت دی تھی۔ہم اس کے گھر گئے تو اس نے کشمیری روایت کی طرح ہماری بیٹھتے ہی ہمیں کمبل اوڑھا دیئے۔اس دن اس گھر میں میں نے وادی کشمیر کی سب سے بہترین نمکین چائے پی،ساتھ مکئی کی مکھن لگی روٹیاں،تین کپ چائے پی کر بھی طبیعت سیر نہ ہوئی۔اس نمکین چائے کا رنگ اور ذائقہ بے مثال تھا۔رات اپنے تایازاد بھائیوں کے گھر سدی پورہ بیروہ میں قیام کیا۔ بیروہ کے کئی رشتہ دار وہیں اکٹھے ہوئے اوررات دیر تک بات چیت چلتی رہی۔اگلی صبح،یکم اکتوبر کو میں اپنے ایک رشتہ دار کی سومو گاڑی پہ بیروہ سے براستہ ماگام نار بل پہنچا۔میرے ماموں رشید صاحب اپنے داماد داﺅد صاحب کے ہمرہ سرینگر سے کار پہ آئے اور ان کے ساتھ میں اپنے ننھیال بارہمولہ کے لئے روانہ ہوا۔میری والدہ اور نانی کی پیدائش بارہمولہ میں ہی ہوئی تھی۔یوں بارہمولہ میں مقیم میرے رشتہ داروں میں میرے نانا اور میری نانی کے دو الگ خاندانی سلسلے موجود ہیں۔بارہمولہ دریائے جہلم کے دونوں طرف نئی اور پرانی آبادیوںپر مشتمل کشمیر کا پرانا اور تاریخی شہر ہے۔دریائے جہلم پرتین،چار پل دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں۔وادی کشمیر میں ایک عجیب بات دریائے جہلم کا نہایت خاموشی سے بہنا ہے کہ دریا کا پانی رکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ہر سال آنے والے سیلاب پر قابو پانے کے لئے ڈوگرہ دور میںسرینگر سے بارہمولہ تک ریائے جہلم میں مشینوں کے ذریعے ” ڈریجنگ“ کی گئی جس سے جہلم کا پانی جھیل کی مانند رکا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ بارہمولہ پہنچ کر ہم مرکزی سڑک پہ ایک پہاڑی کے ساتھ رک گئے۔اس پہاڑی کے اوپر مدفن اپنے ایک بزرگ کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔نیچے اتر کر سڑک کے ساتھ ایک چھوٹی سی جگہ پہ مدفون چند اور مرحوم رشتہ داروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی۔اس کے بعد ہم سڑک کے پار اپنے چند رشتہ داروں کے گھر گئے ،یہ میری زندگی میںان سے پہلی ملاقات تھی۔چند رشتہ داروں کے گھروں سے ہو کر ہم قریبی جانباز صاحب کی زیارت میں داخل ہو گئے۔وہاں موجود ایک شخص نے جانباز صاحب کے بارے میں تفصیل بتائی اور مقبرے کے مختلف حصے دکھائے۔فاتحہ کے بعد وہاں سے نکلے اور مختلف رشتہ داروں سے ملنے کئی اور گھروں میں گئے۔دوپہر کا کھانا ایک عزیز نثار صاحب کے گھر تھا۔وہاں صفاپور کےاپنے ایک عزیز غلام مصطفے صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی جو اسی محلے میں رہتے ہیں۔رات کا کھانا اور قیام امین ماموں کے گھر تھا،جو آئندہ چند دنوں میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب روانہ ہونے والے تھے۔یہاں میرے کئی رشتہ دار مجھ سے ملنے آتے رہے۔

بارہمولہ میں ڈوگرہ دور میں قائم سینٹ جوزف ہسپتال اب بھی کام کر رہا ہے۔اس کے ساتھ ایک مشنری سکول بھی ہے جو تقریبا ایک سو سال قبل قائم ہواتھا۔1947ءسے قبل سینٹ جوزف ہسپتال کی ایک انگریز لیڈی ڈاکٹرڈاکٹر بروس بارہمولہ میں بہت مشہور تھی۔ڈاکٹر بروس روزانہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر بارہمولہ کی سیر کو نکلا کرتی تھی۔ڈاکٹر بروس جب کبھی بھی دیکھتی کی کسی ٹانگے والے نے چار سے زیادہ سواریاں بٹھائی ہوئی ہیں تو وہ اسی ٹانگے کی چابک لیکراس سے کوچوان کو پیٹا کرتی تھی۔اس کے ساتھ شیر وانی کیمیونٹی ہال اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 1947-48ءکی جنگ کشمیر کے دوران قبائیلیوں نے مقبول شیر وانی کو ہلاک کیا تھا۔قریب ہی انڈین آرمی کے ایک سابق چیف کے نام پر ایک چھوٹا سا کریاپا پارک موجود ہے۔قریب ہی بارہمولہ ہائیر سکینڈری پبلک سکول کی بڑی عمارات اورایک میدان ہے۔یہ سکول 1990ءمیں بارہمولہ کے چند شہریوں نے ایک معیاری درس گاہ قائم کرنے کے مقصد سے اس عظیم کام کا آغاز کیا۔اب اس سکول کا شمار بارہمولہ ہی نہیں بلکہ تمام ریاست کے بہترین سکولوںمیں ہوتا ہے۔کشمیر کے پہلی 20پوزیشنوں میں اس سکول کی پوزیشن نمایاں ہوتی ہے1992ءمیں ہر کلاس کے دو دو سیکشن شروع کئے گئے۔سکول کے انتظامات کے لئے منیجمنٹ بورڈ اور اکیڈیمک کونسل قائم ہے اور یہ سکول غیر منافع بخش کے طور پر چلایا جاتا ہے۔برسری کلاس کی فیس6سو روپے،پرائمری کی7سو روپے،مڈل8سو اور ہائیر سکینڈری کلاسز کی فیس 14سو روپے ہے۔بارہمولہ کی اکثر شخصیات کے بچے اسی سکول میں پڑہتے ہیں ۔سکول میں داخلے کے لئے میرٹ کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔ٹیچر کی تنخواہ پہلے سال 52سو روپے جبکہ ہائی سکینڈری کے ٹیچر کی13ہزار ۔میں نے اس سکول کا معائینہ کیا،بلڈنگ دیکھی،سکول کو چلانے کے نظام سے آگاہی حاصل کی،ہر کلاس میں جا کر دیکھا۔اسی دوران میںنرسری کی ایک کلاس میں داخل ہوا تو دیکھا کہ لیڈی ٹیچر نے ایک بچے اور بچی سے بورڈ پر کچھ لکھوا رہی تھی۔بچے نے چار لائنوں پر مشتمل ایک جملہ لکھا تھا۔منیجمنت بورڈ کے ایک سینئر رکن نے بچے سے جملہ پڑھنے کو کہا تو اس نے فورا جملہ پڑھا،سینئر رکن نے ایک لفظ کی اصلاح کی تو بچے نے فورا اسی لفظ پہ آ کر اس کی گرائمر درست کی۔ہمارا نر سری کا بچہ پڑہتا اور لکھتا ہے لیکن جھجک کے ساتھ،اس بچے نے جس طرح ”پر فیکشن“ کے ساتھ جملہ لکھا،پڑہا اور اصلاح کی اس سے میں بہت متاثر ہوا۔ منیجمنٹ بورڈ اور اکیڈیمک کونسل کے ممبر کے بچے بھی میرٹ پر پورا نہ اترنے کی صورت سکول میں داخلہ حااصل نہیں کر سکتے۔اس سکول کا شاندار معیار تعلیم دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے بچے بھی اسی سکول میں پڑھ سکیں۔اس سکول کی عمارت اور جگہ کی موجودہ مالیت ساڑھے آٹھ کروڑ سوے زائد بتائی گئی لیکن میرے خیال میں اس کی قیمت اس سے بھی بہت زیادہ ہو گی۔سکول کے لئے قریبی علاقہ میں 60کنال زمین حاصل کی گئی ہے جہاں تعمیرات کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کی کلاسز الگ کر دی جائیں گی۔بارہمولہ ہائیر سکینڈری سکول کا سالانا بجٹ ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے اور سکول انتظامیہ سکول کے لئے کوئی سرکاری گرانٹ قبول نہیں کرتی تا کہ سکول کو سرکاری اثر و رسوخ سے بچایا جا سکے۔
 

image

بارہمولہ ڈگری کالج وادی کشمیر کے تعلیمی اداروں میں نمایاں مقام رکھتا ہے،کشمیر کے کالجز میں اس کالج کا رزلٹ اور ریکارڈ نمایاں رہتا ہے اور اس کالج کا معیار تعلیم اور سہولیات قبل رشک ہیں۔میں بارہمولہ کالج دیکھ رہا تھا کہ اسی دوران جالندھر کے ایک تعلیمی ادارے کی ایک ٹیم وہاں پہنچی۔یہ گروپ کشمیر میں پوسٹ گریجویشن مضامین متعارف کرنے کے دورے پر آیا تھا۔گروپ نے کالج کے طالب علموں کے سامنے اپنے تعلیمی ادارے کا تعارف پیش کیا۔پرنسپل کے آفس میں اس گروپ سے تعارف ہوا۔گروپ کے افراد نے پرنسپل سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کشمیر میں انگلش کے معیار سے بہت متاثر ہوئے ہیں،انہوں نے کہا کہ وہ اس بات سے متاثر ہوئے ہیں کہ کشمیر کے دیہی علاقوں کے سٹوڈنٹس کی بھی انگریزی بہت اچھی ہے۔گروپ کی ایک عہدیدار منجو ورک سے تعارف ہوا اور بات چیت ہوئی۔بارہمولہ ڈگری کالج میں ماس کیمیونیکیشن کی ڈگری کا تین سال کورس ہے۔اس شعبے میں ہر سال 8ڈاکومنٹریز تیار کی جاتی ہیں۔شعبے میں سوشل نیٹ ورکنگ ڈاکومنٹری بھی تیارکی جاتی ہیں جس کا موضوع کا انتخاب فیکلٹی مشاورت سے کرتی ہے۔شعبے میں سٹوڈنٹس کے تعداد 20ہے اور انہیں 30سبجیکٹ پڑہائے جاتے ہیں۔کالج میں ایک بہت اچھی لائیبریری بھی قائم ہے۔ایک خصوصی سافٹ ویئر کی بدولت کالج کا ہر طالب علم پرنسپل سے براہ راست رابطے میں رہتا ہے۔کالج میں کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کا سسٹم بھی بہت اچھا اور موثر ہے۔لائیبریری کے کمپیوٹر کے ذریعے کسی بھی کتا ب کی لوکیشن اور پوزیشن معلوم کی جا سکتی ہے۔لائیبریری میںموضوعات کے لحاظ سے کتابیں رکھی گئی ہیں۔میں نے ماس کیمیونیکنشن کی کلاس سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔تھوڑی ہی دیر میں میں ماس کیمیونیکیشن کے شعبے کے سٹوڈیو میں طلبہ و طالبات کے روبرو تھا۔میں نے صحافت سے متعلق بنیادی ضروری امور ان کے سامنے رکھے اور ان کے سوالات کے جواب دیئے۔

شام کو بارہمولہ خانیار میں دریائے جہلم کے کنارے تعمیر کردہ ” ایکو پارک“ دیکھا۔یہاں دریائے جہلم دو حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد دوبارہ ایک ہو جاتا ہے۔ بارہمولہ سے اوڑی جانے والی سڑک پہ ہی گاڑیاں پارک کر کے ایک پیدل ]پل عبور کر کے ایکو پارک کا داخلی دروازہ آتا ہے۔یہاں بھی داخلے کے لئے ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔یہاں ایک خوبصورت پارک تعمیر کیا گیا ہے۔دریائے جہلم کے پرسکون پانی کے ساتھ اس پارک میں بیٹھنے کا لطف ہی الگ ہے۔دریا کی طرف بیٹھنے کے لئے لکڑی کے چبوترے بنائے گئے ہیں۔اس کے بعد بارہمولہ اولڈ سٹی کے علاقے میں دریائے جہلم کے ساتھ جموں و کشمیر بنک کے تعمیر کردہ ”گلنار پارک“ دیکھنے گئے۔اس پارک میں دریا کی جانب ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ بھی قائم ہے جس کے ٹیرس سے دریا کا خوبصورت نظارہ انسان کو وہاں سے جانے نہیں دیتا۔رات کو کرکٹ T20ورلڈ کپ کے میچ میں بھارت سیمی فائنل سے باہر ہو گیا اور پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا تواس وقت ہم گھر پہ بیٹھے ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے۔اتنے میں ایک عزیز اپنی دکان بند کر کے جلدی گھر آ گئے۔انہوں نے بتایا کہ بھارتی ٹیم کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے اور پاکستانی ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچتے ہی بارہمولہ بازار میںنوجوان بڑی تعداد میں اکھٹے ہو گئے اور انہوں نے اس خوشی میں خوب پٹاخے چلائے۔تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک فوجی ٹرک میں سوار بھاری فوجی قریبی کیمپ سے وہاں پہنچ گئے۔اس پر نوجوانوں نے فوجی ٹرک پر اتنا شدید پتھراﺅ کیا کہ اسے وہاں سے نکلنا ہی پڑا۔ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی ہار پر بھارتی فوجیوں نے اپنے کیمپ میں بہت ہوائی فائرنگ کی تھی،اب بھارتی ہار اور پاکستانی جیت پر کشمیری نوجوانوں نے اپنے جزبات کا پٹاخے چلا کراظہار کیا۔مجھ سے کشمیر میں کئی افراد نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں بات کی،طالب علم ،کاروباری ،ملازمت پیشہ ، اعلی تعلیم یافتہ سے لیکر پھلوں کے باغات میں کام کرنے والے ان پڑھ دیہاتی تک سب نے مجھ سے اس بارے میں اپنے جزبات کا اظہار کیا،ہر ایک کے الفاظ مختلف تھے لیکن مفہوم ایک جیسا ہی تھاکہ” پاکستانی کرکٹ ٹیم میچ خصوصا بھارت سے ہارتی ہے تو ہمارے (کشمیریوں کے) ماں باپ مر جاتے ہیں“۔ایک بزنس مین نے کہا کہ ” پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہارنے پر کشمیر میں جتنے ٹی وی ٹوٹے ہیں ان کا بل حکومت پاکستان کوادئیگی کے لئے جاتے ہوئے آپ کو دیں گے“۔

رات کو دیر تک نیند نہ آئی تو ریڈیو پر ’وائس آف امریکہ‘ کی نشریات سنتا رہا۔رات تقریبا ڈیڑھ بجے اس سٹیشن سے کشمیر کے متعلق ایک پروگرام نشر کیا گیا۔’وائس آف امریکہ‘ کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل میں غیر معمولی تاخیر کے تناظر میںکشمیر سے متعلق انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات کی ضرورت ہے۔اس موضوع پر ایک بھارتی اور ایک پاکستانی ماہر سے بات چیت کہ گئی۔بھارتی ماہر نے آئندہ دس سال میں منظر نامہ تبدیل ہونے کی بات کی۔اس سے مجھے خیال آیا کہ منقسم جرمنی کے مسئلے کو بھی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر حل کیا گیا جس سے جرمنی کا دیرینہ سیاسی مسئلہ بھی حل ہو گیا۔جب کشمیر سے متعلق انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات کی بات ہو گی تو کشمیریوں کی شہری آزادیاں ،حقوق بحال کرنے کی بات ہو گی،کشمیریوں کی آمد و رفت پر پابندیوں کے خاتمے کی بات ہو گی۔میری ”انڈر سٹینڈنگ“ یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری مزاکرات،امن عمل امریکی ہدایات کی روشنی میں ہو رہا ہے،اس میں دونوں ملکوں کی اپنی بھرپور خواہش شامل نہیں ہے،اسی لئے دونوں ملک اس معاملے میں دو دو کشتیوں پر سوار محسوس ہوتے ہیں۔چند بھارتی دوست میرے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ بھارت کے ادارے مستحکم ہیں اور وہ ہدایات پر عمل کے بجائے اپنے فیصلے خود کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں اپنی اسی بات پہ قائم ہوں۔

کشمیر کے جس حصے میں بھی میں گیا وہاں میں نے آوارہ کتے بڑی تعداد میں دیکھے،جو دن بھر اونگتے رہتے اور رات ہوتے ہی activeہو جاتے تھے۔میں نے اس بارے میں دریافت کی تو پتہ چلا کہ مانیکا گاندھی کے کہنے پر کشمیر میں آوارہ کتوں کو ہلاک کرنا جرم قرار دیا گیا ۔سرکاری طور پر ایسے کتوں کے لئے خصوصی مرکز قائم ہیں جہاں آوارہ کتوں کو پالتے پوستے ہو ئے ان کی نس بندی کر دی جاتی ہے۔تاہم اب تک صرف تقریبا ڈیڑھ سو کتوں کو یہ ”سرکاری سٹیٹس “ حاصل ہو سکاہے۔دوسری طرف کشمیر میں (AFSA) قانون کے ذریعے انسانوں کو فورسز کے ہاتھوں بے گناہ بھی مارے جانے پر فورسز کو قتل و غارت گری کا مکمل اختیار اور تحفظ حاصل ہے۔اس حوالے سے وادی کشمیر کے اخبارات میں ایک کارٹون شائع ہوا جس میںکشمیریوں کو آوارہ کتوں کے برابر ”سٹیٹس“ دینے کے مطالبے کی بات کی گئی تھی،یعنی کشمیریوں کو انسان نہیں تو ان آوارہ کتوں کے برابرحق دیا جائے جنہیں جان سے مارے جانے سے تحفظ حاصل ہے۔
 

image

شام کو بارہمولہ سے سرینگر جانے کا پروگرام تھا کہ اتنے میں صفاپور سے میرے تایا زاد بھائی بشیر وانی کا فون آیا کہ صفا پور آجاﺅ،میں نے عرض کی کہ میں نے8اکتوبر کو واپس جانا ہے ،لیکن انہوں نے کہا کہ بس اپنا چہرہ دکھا کر چلے جانا۔چناچہ بارہمولہ سے صفاپور کے لئے روانہ ہوا۔رات صفاپور قیام کے بعد اگلی صبح سرینگر کے لئے روانہ ہو گیا۔شام کو محمد حسین وانی کی عیادت کے لئے ان کے گھر گیا،اپنے ایک اور کزن ڈاکٹر شاہد اقبال ٹاک( کارڈیالوجسٹ)کے گھر جا کر ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔اگلا پورا دن(7اکتوبر) سرینگر میں رشتہ داروں اور عزیز و اقرباءسے ملاقاتوں میں گزرا۔دن کو ہی میں نے کشمیر میں ایک ہفتہ مزید قیام کرتے ہوئے15اکتوبر کو واپسی کا ارادہ کیا۔

اگلے روز ” جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ،کلچر اینڈ لینگویجز“ کے سیکرٹریٹ کا دورہ کیا۔اکیڈمی کے سیکرٹری خالد بشیر سے ملاقات ہوئی۔1958سے اب تک اکیڈمی کے 19سیکرٹری رہ چکے ہیں۔محمد یوسف ٹینگ ادارہ کے1973ءسے 1975ءتک اور دوسری مرتبہ1976ءسے1993ءتک سیکرٹری رہ چکے ہیں ۔ان کے دور میں اکیڈمی نے کشمیری ادب کے حوالے سے کئی اہم کتابیں شائع کرائیں۔اکیڈمی کا سیکرٹریٹ ایک قدیم عمارت میں قائم ہے۔اکیڈمی کے زیر انتظام شائع ہونے والے ”شیرازہ“ کے تین شعبے ہیں،آرٹ،کلچر اور زبان۔نیشنل لیول پر ان شعبوں کی الگ الگ اکیڈمیز ہیں۔جموں و کشمیرو لداخ کے کلچرلٹریچر پر 7,8 سپیشل اشو شائع ہو چکے ہیں۔اشاعت کے علاوہ اکیڈمی کی سرگرمیوں میں تھیٹر،فیسٹول،میوزیکل پروگرام،نمائش،پینٹنگ،ایوارڈز،مشاعرے،سیمینارزاوردوسری ریاستوں کے ساتھ تقافتی وفود کے تبادلے شامل ہیں۔اکیڈمی گزشتہ تین سال کے دوران شائع ہونے والی کتابوں پر 9زبانوں میں بہترین کتاب پر ایوارڈ بھی دیتی ہے ۔اس کے علاوہ بہترین ترجمہ ،فوٹو گرافی اور پینٹنگ پربھی ایوارڈ دیئے جاتے ہیں۔ ” جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ،کلچر اینڈ لینگویجز“ کا صدر ریاست کشمیر کا چیف منسٹر ہوتا ہے اور سیکرٹری چیف ایگزیکٹیو۔یہ ادارہ1958ءمیں قائم کیا گیا۔اس کا مرکزی دفتر سرینگر جبکہ جموں ،لداخ،کرگل،ڈوڈہ اورراجوری میں ذیلی دفاتر موجود ہیں اور پونچھ،اودھمپور اور اسلام آباد اننت ناگ میں مزید دفاتر قائم کئے جا رہے ہیں۔اکیڈمی کی بلڈنگ اپنی ہے تاہم اب 88کروڑ روپے کی لاگت سے اکیڈمی کا کمپلکس تعمیر کیا جا رہا ہے۔اکیڈمی کی سالانا گرانٹ 14کروڑ روپے ہے۔اکیڈمی نے قلم کاروں کی مالی معاونت کے لئے ایک فنڈ قائم کیا ہے جس میں 50لاکھ روپے حکومت دے گی۔اکیڈمی کی طرف سے ایوارڈز دینے کا سلسلہ 1960ءسے جاری ہے۔خالد بشیر گزشتہ چار ماہ سے اکیڈمی کے سیکرٹری متعین ہیں اور اس سے پہلے وہ ڈائیریکٹر لائیبریریز تھے۔انہوں نے بتایا کہ چند ہفتے قبل ہی آزاد کشمیر حکومت کے سیکرٹری اطلاعات شوکت مجید ملک اپنے دورہ کشمیر کے موقع پر اکیڈمی بھی آئے تھے۔خالد بشیر صاحب نے آزاد کشمیر حکومت کے قائم کردہ کشمیر سیل اور کشمیر کلچرل اکیڈمی کے حوالے سے علمی و ادبی کام کے بارے میں دریافت کیا تو میرے پاس شرمندگی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔

اسی شام کو میںبجبہاڑہ(اسلام آباد اننت ناگ) رہنے والے اپنے ایک کزن ڈاکٹر شاہد اقبال ٹاک ( جو سرینگر میں کارڈیالوجسٹ ہیں) کے ساتھ بیجبہاڑہ کے لئے روانہ ہوا۔اندھیرا ہو رہا تھا لہذا ارد گرد کے مناظر سے لطف اندوز نہ ہو سکا۔پامپور کا زعفرانی علاقہ بھی اندھیرے میں گزر گیا۔ قدیم دور میں بجبہاڑہ میں آرین کی یونیورسٹی ” وجے شور“ قائم تھی اور اب اس جگہ ایک مندر قائم ہے ۔ویش ور کے قدیم مندر کی مرمت اشوکا نے کرائی(راج ترنگنی)۔بجبہاڑہ تاریخی طور پر مشہور علاقہ ہے۔ریاست کشمیر کی پہلی خاتون شاعرہ لل عارفہ یہیں مدفن ہیں۔کشمیری لوک کہاوتوں کے مطابق حضرت شاہمدان اور لل عارفہ کا مکالمہ اسی مقام پہ ہوا تھا۔بابا نصیب الدین غازی سیالکوٹ کے بادشاہ کے بیٹے تھے،انہیں حضرت شیخ حمزہ/مخدوم صاحب نے بابا داﺅد خاکی کے سپرد کیا تھا۔کشمیر کے ہر مقام پر بابا نصیب الدین غازی کے افراد کے مقبرے موجود ہیں۔دریائے جہلم کے کنارے واقع بجبہاڑہ کی آبادی تقریبا بیس ہزار ہے ،قصبہ اور تحصیل ہے۔یہاں کے لوگ 40فیصد ملازمت اور 60فیصد تجارت سے منسلک ہیں۔شرح خواندگی80فیصد ہے۔بیجبہاڑہ میں مغل حکمران دارلشکوہ کا تعمیر کردہ مغل گارڈن موجود ہے جہاں چنار کا ایک بہت پرانا درخت بھی موجود ہے۔ بجبہاڑہ مفتی سعید کا آبائی علاقہ ہے۔قدیم تاریخ میں کشمیر کے جو صدر مقام رہے ان میں پریاس پورہ(بارہمولہ کے قریب ایک چھوٹی پہاڑی پہ قائم) بدر پٹھن،اونتی پورہ،بجبہاڑہ اور مٹن کے علاقے شامل ہیں( بحوالہ تاریخ حسن)اسلام آمد سے پہلے بجبہاڑہ میں یہودی بھی آباد تھے۔ترال کے قریب ایک بڑی شکار گاہ ہانگل ہے۔علاقے کے سیاحتی مقامات میںککر ناگ،پہلگام،اچھا بل،ویری ناگ اور ڈکسم ہیں۔ویری ناگ دریائے جہلم کا منبع ہے جہاں ایک ہی مقام پہ اکٹھے بہت سارے چشموں سے پانی نکل کر دریائے جہلم کی بنیاد رکھتا ہے۔یہیں سے شوپیاں ریجن،پیر کی گلی اور روجوری ،پونچھ وغیرہ راستے جاتے ہیں۔ پہلگام سے چند کلومیٹر دور چندر وادی شیش ناگ میں امر ناتھ گھپاہے۔اگلی صبح بجبہاڑہ قصبے میں رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد دارلشکوہ کا قائم کردہ مغل گارڈن، اس کا دوسرا حصہ اور قصبے کے ساتھ خاموشی سے بہتا دریائے جہلم دیکھا۔اس کے بعد پہلگام کی طرف روانہ ہو گئے۔بجبہاڑہ سے پہلگام تک دو راستے جاتے ہیں۔ہم بڑی شاہراہ کو چھوڑ کر دوسرے راستے سے روانہ ہوئے۔یہ راستہ چھوٹے چھوٹے دیہات اور باغوں سے گزرتا ہے۔میں نہایت محویت سے گاﺅں کے گھروں،باغات اور منظر کو دیکھتا جا رہا تھا۔پہلگام پہنچے تو سڑک سے گزرتے ہی اس کے حسن کی مشہور ی کا احساس ہو گیا۔ پہلگام جانے والی دونوں سڑکوں پر گزشتہ چند سالوں سے ہر سال امر ناتھ کی گھپا تک جا کر غار کے اندر اوپر سے قطرہ قطرہ پانی گرنے سے وجود میں آنے والے برف کے بنے ”شیو لنگ“ کا نظارہ کرنے والے ہندو یاتریوں کی سہولت کے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سپیڈ بریکر لگائے گئے ہیں ۔پہلگام میں یاتریوں کی لئے تعمیر کردہ ہٹس اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ پہلگام کی روائیتی خوبصورتی اور ماحول اس سے شدید متاثر نظر آتا ہے۔ سیاحت کا موسم ختم ہونے کے باوجود کافی تعداد میں ہندوستانی سیاح پہلگام کے بازار میں نظر آئے،اکا دکا یورپی سیاح بھی نظر آئے۔کشمیر کے سیاحتی علاقوں میں ہندوستان کے شدید گرم علاقوں سے آنے والے سیاح اکثر شدید برفباری کے بھاری بھرکم لباس پہنے دیکھائی دیتے ہیں جس سے ماحول کا ایک نیا موضوع مل جاتا ہے۔ کچھ دیر پہلگام کے دلکش سیاحتی بازار میں رک کر ہم آگے بڑھ گئے۔ہماری منزل پانچ کلومیٹر فاصلے پہ موجود ”وادی بیتا ب “ تھی۔پہلگام بازار سے گزر کر ایک پل عبور کرنے کے بعد ہم چند دکانوں پر مشتمل بازار میں رک گئے،مقامی بچے اور بچیاں سکول جا رہے تھے یا آ رہے تھے،میں اس بارے میں اندازہ نہیں لگا سکا کیونکہ وادی کشمیر میں سکول کافی دیر سے شروع ہوتے ہیں۔چائے پینے کے بعد دوبارہ وادی بیتا ب کے سفر پر روانہ ہوگئے۔پہلگام وادی کو وادی لدر کہا جاتا ہے جہاں پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے نالے کو دریائے لدر کہا جاتا ہے۔پہلگام کے ارد گرد کئی دلفریب نظاروں والی چھوٹی چھوٹی وادیاں ہیں اور انہی میں سے ایک وادی بیتاب ہے ۔ایک انڈین فلم کی اس مقام پر شوٹنگ ہوئے تو اس چھوٹی سے وادی کو وادی بیتا ب کا نام دے دیا گیا اور حکومت نے اس مقام پر ایک خوبصورت پارک تعمیر کر دیا،یوں یہ مقام فیملی کے ساتھ آنے والے سیاحوں کے لئے پرکشش بن گیا۔پارک کے گیٹ سے ٹکٹ لیکر اندر داخل ہوئے تو کچھ فاصلے پر درختوں کا جھنڈ تھا،اسے عبور کیا تو دریائے لدر کے کنارے ایک چھوٹی سے وادی سامنے آگئی۔پارک کے اختتامی حصے سے نالہ لدر اپنی جلوہ افروزیوں کے ساتھ بل کھاتا بہتا جا رہا تھا۔موسم سرما کی آمد کی مناسبت سے اس میں پانی کم تھالیکن اس سے اس کی خوبصورتی،اس کی رنگینی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔میں اپنے ایک رشتہ دار خاندان کے ساتھ وہاں آیا تھا،انہوں نے چادر بچھا کر دوپہر کے کھانے کی تیاری شروع کی تومیں اس چھوٹی سی وادی کے آخری حصے کی جانب بڑہتا چلاگیا۔اس سے آگے پہاڑ اورجنگل شروع ہو جاتا ہے اور دوسری جانب نالہ لدر بہتا جا رہا ہے۔نالہ لدر کے عقب میں پہلے سنگلاخ اور اس کے پیچھے برف پوش پہاڑ ہیں۔سیاحوں کو جنگل میں جانے سے روکنے کے لئے جالی کی اونچی باڑ لگائی گئی تھی۔ باڑ کے حوالے سے میں نے کشمیر میں محسوس کیا کہ کشمیر کے اکثر سیاحتی مقامات پر بلا دریغ رکاوٹی باڑیں لگا کر قدرتی مناظر کو خراب کیا گیا ہے۔واپس آیا تو کھانا لگ چکا تھا،وادی پہلگام میںخوبصورت پہاڑوں کے درمیان،چھوٹی سے حسین وادی میں رنگین دریائے لدر کے کنارے کشمیری ڈشز پر مبنی یہ کھانا میری زندگی کا شاندار کھانا تھا۔گشتابے،رستے،ٹماٹر میں پکی پنیر، چند اور ڈشز،چاول اور اخروٹ و مولی کی چٹنی،پیٹ بھر گیا لیکن طبعیت سیر نہ ہوئی،دل کرتا تھا کہ یونہی اس جنت میں بیٹھا رہوں۔ہمارے اس طعام کے دوران ہی کئی کوے دریائے لدر کے کنارے لگی باڑ پہ آ کر بیٹھ گئے،ایک بوڑھا سا کتا بھی کچھ فاصلے پہ آ کر بیٹھ گیا۔جنت میں کئے گئے اس شاندار لنچ کے بعد ہڈیاں ،چاول وغیرہ ایک طرف ڈالے تو کوے اور وہ بوڑھا کتا اس طرف لپکے۔اتنے میں دیکھا کہ دو تین کتے بھاگتے ہوئے وہاں آ پہنچے،ان میں سے ایک کتا سب کا سردار تھاکیونکہ اس کے آتے ہی باقی کتے ایک طرف ہٹ گئے۔حکمران کتے نے آرام سے ہڈیوں وغیرہ کو کھایا اور تفخر سے ایک جانب چل پڑا۔اس کے بعد باقی کتوں نے اس جگہ کو سونگھا جہاں ہڈیاں وغیرہ پڑی ہوئی تھیں لیکن اس دوران بھی انہوں نے بوڑھے کتے کو قریب نہیں آنے دیا۔ہم سب نے یہ مناظر دیکھے۔ڈاکٹر شاہدٹاک اور میں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی طاقتور کی چلتی ہے،جو جوان کتا ساری خواراک کھا گیا وہ اس وادی بیتا ب کے کتوں کا سردار ہے،ہر طرف اسی کی حکمرانی ہے،یہ بوڑھا کتا بھی شاید کچھ عرصہ قبل یہاں کے کتوں کا سردار ہولیکن اب وہ قابل رحم حالت میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔جوان کتا اس وقت یہاں کے کتوں کا سردار ہے،لیکن ہمیشہ نہیں رہے گا ،تاہم اس وقت اسی کی وادی بیتاب کے کتوں پر حکمرانی قائم ہے۔ (باقی آئندہ قسط میں)
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614099 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More