آبائی وطن وادی کشمیر میں 28دن - (آخری قسط)

سفر نامہ: اطہر مسعود وانی

اگلی صبح صفاپور سے بارہمولہ کے لئے روانہ ہوا۔کشمیر کے معروف ادیب،شاعر،صحافی راجہ نذر بونیاری نے گزشتہ روز اطلاع دی تھی کہ بارہمولہ رائٹرز فورم اور بارہمولہ کلچرل سوسائٹی کی طرف سے میرے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔بارہمولہ گرلز ڈگری کالج کی سالانا تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔وہیں پرنسپل کے کمرے میں بارہمولہ کے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات ہوئی۔دوپہر کو میں ڈاکٹر ارشاد صاحب کے ساتھ ڈسٹرکٹ لائیبریری بارہمولہ پہنچا جہاں بارہمولہ رائٹرز فورم اور بارہمولہ کلچرل سوسائٹی کی طرف تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔بارہمولہ کے تجارتی علاقے میں واقع ایک بلڈنگ کے تیسرے فلور پہ ڈسٹرکٹ لائیبریری قائم ہے۔کانفرنس روم میں بارہمولہ کے قلم کار میرا انتظار کر رہے تھے،میں قدرے تاخیر سے تقریب میں پہنچا تھا۔راجہ نذر بونیاری نے ہار پہنا کر میرا خیر مقدم کیا۔راجہ نذر بونیاری نے بارہمولہ رائٹرز فورم اور بارہمولہ کی محبوب کلچرل سوسائٹی کا تعارف کرایا اور ادب سے متعلق کئی اہم امور بیان کئے۔راجہ نذر بونیاری ریاست کشمیر کے ایک معروف قلم کار ہیں اور اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایک ٹریفک حادثے میں ان کا ایک بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ٹوٹے بازو اور اس پرپلاسٹر چڑھنے کے باوجود راجہ نذر بونیاری نے اپنی ادبی سرگرمیاں موقوف نہیں کیں ۔یہ علالت خون جگر پر پلنے والی ان کی ادبی جدوجہد کو موقوف نہیں کر سکی۔راجہ نذر بونیاری کاا فسانہ ” دیواریں اور لکیریں“ایک اعلی ادبی شاہکار ہے۔ افسانے کے خیال و بیان کا انداز مصنف کی ذات کا تعارف بھی کر اتا ہے۔سب سے پہلے میرے بائیں ہاتھ پہ بیٹھے بزرگ حاجی فیروز دین بیگ نے اپنا تعارف پیش کیا،ان کا تعلق اوڑی سے ہے اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں،آزاد کشمیر کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔جعفر علی بارہمولہ رائٹرز فورم کے صدر ہیں۔دیگر ارکان میںپروفیسر نظام الدین شاہ،خالق پرویز،قاضی لطیف شاہین،میر مشتاق ساجد، سوشل ورکر مس شائشتہ،جی ایم ماہر،فیاض بخاری،انظر موجو،علم الدین بہار،اطہر بشیر،مشتاق کشمیری،حاجی عبدالماجد نجور،ہاشم،محمد امین بٹ اورعبدالحمید صوفی نے اپنا پنا تعارف اور اظہار خیال کیا۔میں نے تقریب کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنے اظہار خیال میں اس باوقار تقریب کے انعقاد پر بارہمولہ رائٹرز فورم، محبوب کلچرل سوسائٹی بارہمولہ اور راجہ نزر بونیاری کا تہہ دل سے شکریہ اد اکیا ۔قلم کار کے کردار اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بات ہوئی،وادی کشمیر کے دورے سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ اس کے بعدسوال و جواب ہوئے جس سے ہمیں ایک دوسرے کے خیالات ،اجحانات اور مشکلات سے آگاہی ہوئی۔راجہ نذر بونیاری نے تقریب میں ایک اہم تجویز دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کشمیر کے منقسم خاندانوں کو آنے جانے کی راہ میں حائل بے جا رکاوٹیں،تاخیر کی صورتحال ختم کی جائے،کشمیریوں کو خوشی غمی کے موقع پر ہنگامی طور پر ایل او سی سے آنے جانے کی سہولت فراہم کی جائے اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان اہل قلم،پروفیسرز،ڈاکٹرز،وکلاءوغیرہ کے وفود کو آنے جانے کی سہولت دی جائے۔بارہمولہ رائٹرز فورم اور محبوب کلچرل سوسائٹی بارہمولہ کے اس اجلاس میں متفقہ طور ان تجاویز کی متفقہ طور پر منظوری دیتے ہوئے بھارت اور پاکستان کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیریوں کے شہری حقوق کا احترام کرتے ہوئے کشمیریوں کی منقسم ریاست میں آزادانہ آمد و رفت کے حق کو یقینی بنائے ۔ یقینا یہ مطالبہ تمام کشمیریوں کی آواز ہے ،قلم کار،لوگوں کی جزبات کے بہترین ترجمان ہوتے ہیں۔مشہور آب بیتی ” جلا وطن “ کے مصنف خالق پریز نے پرانے واقعات یاد دلائے۔آخر میں،میںنے کہا کہ مجھے اس تقریب میں آ کر ایسا ہی محسوس ہوا ہے کہ جیسے میں اپنے کسی رشتہ دار سے ملاقات کر رہا ہوں اور اگر یہ تقریب منعقد نہ ہوتی تو میں اپنے ایک اہم رشتہ دار سے ملنے سے محروم رہ جاتا۔لگاوٹ کا ایسا احسا س ہوا کہ میں شرکاءکی باتیں سنتے ہوئے اپنے آنسوﺅں پر قابو نہ رکھ سکا۔تقریب کے بعد بھی گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔اس طویل نشست کے بعد ڈسٹرکٹ لائیبریری بارہمولہ کے مختلف حصے دیکھے۔تقریب کے بعد دوبارہ ملنے کی امید میںگرمجوشی سے ملتے ہوئے رخصت ہوئے۔بارہمولہ کی ان دونوں تنظیموں نے مشکل صوتحال کے باوجود ضلع بھر میں جس طرح ادبی و علمی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں ،اس کے لئے اس کے تمام ارکان مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اگلی صبح بارہمولہ سے بیروہ جانے کے لئے ناربل کے لئے روانہ ہوا۔ناربل سٹاپ پہ دس پندرہ منٹ گزر گئے لیکن میرے بھتیجے ارشد وانی کا کوئی پتہ نہ تھا جو مجھے لینے آ رہا تھا۔کچھ دیر بعد وہ پیدل آتا ہوا نظر آیا۔معلوم ہوا کہ تقریبا ایک سو گز کے ساصلے پر پل کے ساتھ مقامی لوگ گھریلو گیس میں رعائیتی نرخ ختم کرنے پر سڑک بلاک کر کے احتجاج کر رہے تھے۔گاڑیوں کی کمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔کئی گاڑیاں ان سیاحوں کی تھیں جو گلمرگ جا رہے تھے۔ارشد نے اپنی گاڑی پل سے پہلے ہی روک دی تھی۔سامان اٹھائے گاڑی تک پہنچے اور بیروہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ماگام سے ہوتے بارہ بجے دن بیروہ پہنچے۔ اپنے تایا زاد بھائی کے گھر بیٹھا ہوا تھا کہ ہلکی بارش شروع ہو گئی۔شام کو سب سے رخصت لیکر سرینگر روانہ ہو گیا۔رات کو کھانے پر والد مرحوم کے نہایت عزیز دوست ،معروف صحافی یوسف جمیل کے گھرمدعو تھا۔ الہی باغ ،بس پورہ میں واقع ان کے گھر تاخیر سے پہنچا۔پر لطف کشمیری ڈشز پر مبنی کھانے کے بعد رات دیر تک گفتگو چلتی رہی۔اگلے دو دن بازار سے خریداری اور عزیز و اقارب سے ملاقاتوں میں گزرے۔وادی کشمیر سے واپسی سے ایک دن پہلے لال چوک کے علاقے میں گیا اور چند گھنٹے وہاں گزرے۔اتوار کے دن سرینگر کی مارکیٹیں بند ہوتی ہیں جبکہ فٹ پاتھ پر سامان لگانے والے نت نئی ورائٹی کے ساتھ دکانیں سجا لیتے ہیں۔عید سے پہلے کے آخری چھٹی والے د ن کی وجہ سے چالیس فیصد دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔چندہی دن پہلے میں لال چوک علاقے کی مارکیٹوں میں کشمیری کپڑوں کی خریداری کر رہا تھا کہ اچانک دھیمے انداز میں بارش شروع ہوگئی تھی،سرینگر کی اس بارش کا لطف اب بھی مجھے محسوس ہوتا ہے۔ میرے کشمیر آنے کے ایک ہی ہفتے کے بعد میرے ایک عزیز خواجہ شعیب محی الدین (فرزند خواجہ غلام محی الدین مرحوم) جو راولپنڈی میں میرے ہمسایہ بھی ہیں،اپنی اہلیہ کے ہمراہ کشمیر پہنچے۔فون پر بات ہوتی رہی،ہم دونوںملنے اور ساتھ بازارگھومنے کے پروگرام بناتے رہے لیکن ملاقات کی بھی نوبت نہ آسکی۔ایک دن انہیں فون کیا تو وہ کہنے لگے ’ ’ کیا بات ہے ہماری ملاقات کیوں نہیں ہو رہی؟کہیں یہ پانی کا اثر تو نہیں ہے؟“۔
 

image

بازار سے واپس آنے کے بعد رات دیر تک رشتہ دار ،عزیز واقارب ملاقات کے لئے آتے رہے۔رات کھانے کے بعد سامان کی پیکنگ کا مشکل مرحلہ درپیش تھا۔رشید ماموں کے چھوٹے فرزند قیصر نے میرا یہ مسئلہ حل کر دیا۔جس سامان کے میں سات آٹھ نگ بناتا ،وہ سامان قیصر نے کمال مہارت سے چار حصوں میں محدود کر دیا،جس میں سیب کے دس دس کلو والے تین ڈبے بھی شامل تھے۔کشمیر کلچرل اکیڈمی سے ملنے والا قرآن پاک کا پہاڑی زبان میں ترجمے کا نسخہ میں نے اکیڈمی کے ہینڈ بیگ میں ڈال کر ہاتھ میں اٹھانے کے لئے رکھ دیا۔رات کو کمرے میں تنہا ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کمرے کے ساتھ بھی میری یہ آ خری رات ہے۔سردی بڑھ چکی تھی لیکن میں نے کمرے کے دونوں طرف کی کھڑکیاں کھول کر پردے ایک طرف سمیٹ دیئے۔مجھے ہمیشہ سے ہی بہت سردی محسوس ہوتی ہے،لیکن نہ معلوم کیوں کشمیر میں مجھے سردی محسوس نہیں ہوئی،سب کہتے تھے کہ سردی ہو گئی ہے ،اور میں خود بھی رات کو بستر میں پانی کی گرم بوتل رکھ کر سونے میں راحت محسوس کرتا تھا،اس کے باوجود مجھے سردی نہیں لگی۔کھڑکیا ں کھلتے ہی کمرے میںٹھنڈی ہوا کا بہاﺅ شروع ہو گیا،شاید کمرہ ٹھنڈا بھی ہو گیا لیکن مجھے سردی محسوس نہ ہوئی،سوچا کہ نامعلوم کب دوبارہ ان ہواﺅں سے لطف اندوز ہونا نصیب ہو،جنت کی ان ہواﺅں کا مزہ لیتے لیتے گھڑی پہ نظر پڑی تو رات کے تین بج چکے تھے،صبح پونے سات بجے گھر سے بس سٹینڈ کے لئے روانہ ہونا تھا ۔بادل نا خواستہ کھڑکیاں بند کیں اور سونے کے لئے بستر پر لیٹ گیا،سوچ یہی تھی کہ اگر عید نہ آتی تو پندرہ دن مزید کشمیر میں رک جاتا،لیکن ٹکڑوں میں تقسیم افراد کب کسی ایک جگہ بھرپور وفا کر سکتے ہیں۔یہ سوچ بھی حاوی تھی کہ اگر کشمیر پر بیرونی جبر و ستم کا اقتدار و اختیار نہ ہو تو میں ایک دن کے تاخیر کے بغیر اپنے ان لوگوں کے ساتھ جا کر بس جاﺅںجو میرے رشتہ دار ہیں،جو میرا آبائی وطن ہے،جو میرا خواب ہے،جو میرا اصل ہے۔

صبح قدرے تاخیر سے بیدار ہوا،جلدی سے تیار اور ناشتے سے فارغ ہو کر دو گاڑیوں میںدس منٹ کی ڈرائیو پہ واقع بس سٹینڈ پہنچے جہاں سے میں نے واپس مظفر آباد روانہ ہونا تھا۔وہاں واپس جانے والے مسافروں اور انہیں الوداع کرنے والے رشتہ داروں کا رش تھا،عید کی وجہ سے پار سے آئے اکثر افراد واپس جا رہے تھے۔پولیس کے متعلقہ شخص کے پاس اپنے نام کا اندراج کرانے کے بعدبس کا انتظار کرنے لگے کیونکہ موجود دو بسیں مسافروں سے پر ہو چکی تھیں۔تھوڑی ہی دیر بعد تیسری بس بھی آ گئی۔میرے حصے میں بس کی فرنٹ سیٹ آئی۔میرے رشتہ دار بس کے باہر کھڑکی کے ساتھ کھڑے بات چیت کررہے تھے ۔بس نے آہستہ سے رینگنا شروع کیا تو میں نے سب سے ہاتھ ملانا شروع کر دیا،میں تو اچھے موڈ میں تھا ،نہ جانے کب اور کیوں مجھے اپنی آنکھوں سے آنسو بہتے محسوس ہوئے،میں اپنے رشتہ داروں کو دیکھ کر مسکرایا لیکن میری آنکھوں میں بہتے پانی نے منظر کو دھندلا کر دیا۔

تین بسیں منقسم کشمیری خاندانوں کے افراد کو واپس مظفر آباد بھیجنے کے لئے آگے پیچھے بس سٹینڈ سے نکلیں،پولیس اور سی آر پی کی گاڑیاں بسوں کے آگے اور پیچھے تھیں۔ہماری بس میں بھی پولیس اور سی آر پی کے دو اہلکار موجود تھے۔اب تو وادی کشمیر کے راستوں کی پہچان ہونے لگی تھی،جگہوں کے نام یاد اشت میں پختہ ہو رہے تھے اور ابھی کوچ کا نقارہ بج گیا۔مظفر آباد سے سرینگر آتے ہوئے کی فلم ریورس ہونے لگی۔مقامات الٹے چلنے لگے،پہلے آنا تھا اب جانا ہے،پہلے ملن تھا اب جدائی ہے ۔شالہ ٹینگ،پارم پورہ،لاوہ پورہ،ناربل،جہاں سے راستہ ٹنگمرگ،گلمرگ،بیروہ، دودھ پتھری ،بڈگام جاتا ہے،جس سٹاپ پہ میں کئی بار اترا،آج وہ ناربل تیزی سے گزر گیا۔اسی دوران ہمارا قافلہ دو بار پولیس کی پائلٹ جیپ خراب ہونے کی وجہ سے تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے رکا۔چلتے چلتے اچانک فوج کی ایک جیپ ہمارے قافلے کو پائلٹ کرنے لگی۔میر گنڈ،سنگ پورہ،پٹن ،پلہالن،ٹاپر ،سنگرامہ،دلنہ، خوجہ باغ،بارہمولہ۔یہ فوجی جیپ بارہمولہ کے قریب تک ہمارے ساتھ رہی اور بھر اچانک غائب ہو گئی۔اس فوجی جیپ کے پائلٹ کرنے کی وجہ سے ہماری بسوں کو فوجی قافلوں کی گاڑیوں سے راستہ لیکر آگے نکلنے کا موقع ملا۔بارہمولہ سے آگے فوج کی ایک بکتر بند نما اونچے ٹائروں والی گاڑی نے ہمارے قافلے کو پائلٹ کرنا شروع کر دیا۔ہماری بس کا ڈرائیور بارہمولہ کا رہنے والاایک سکھ تھا۔شیری کے بعد گٹ مولا،ژہل،بونیار،رام پور اورموہرہ۔اوڑی قصبے میںداخل ہونے والے تھے کہ سڑک پہ ٹریفک بلاک نظر آئی،کسی نے کہا ہڑتال ہے۔اس پر بس کے سکھ ڈرائیور نے کہا کہ اوڑی میں کبھی کوئی ہڑتال نہیں ہوتی،سارے کشمیر میں ہڑتال ہوتی ہے لیکن اوڑی میں کوئی ہڑتال نہیں کی جاتی۔ اتنے میں ہم اس مقام کے قریب پہنچ گئے جہاں مقامی لوگوں نے سڑک پر لوہے کے دو بڑے کھمبے ڈال کر راستہ بند کر رکھا تھا۔ایک مسافر نے باہر کھڑے ایک نوجوان لڑکے سے پوچھا کہ یہ ہڑتال کیوں ہے،اس نے جواب دیا کہ یہاں بجلی نہ ہونے پر ہڑتال کی جارہی ہے۔تھوڑی ہی دیر میں ہمارے قافلے میں شامل چند فوجی آگے بڑہے اور انہوں نے باری باری دونوں کھمبے اٹھا کر ایک طرف کر کے راستہ کھول دیا۔سلام آباد پہنچے تو وہاں بھی کافی تعداد میں واپس جانے والے مسافر موجود تھے اور ان سے کہیں زیادہ انہیں رخصت کرنے والوں کی تعداد تھی۔میرے عزیز خواجہ شعیب کو سلام آباد سے ہی بس پہ سوار ہونا تھا۔چند منٹ کی تلاش کے بعد وہ اپنا سامان ایک بس کی چھت پہ لوڈ کراتے ہوئے مل گئے۔میں نے انہیں اپنی بس میں ہی ایڈ جسٹ کر لیا۔بسوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث سلام آباد سے سوار ہونے والوں کے لئے چند سومو گاڑیاں حاصل کی گئیں۔سلام آباد میں موجود ایک عزیز مجھے قریبی عمارت کے ایک کمرے میں لے گیا ،وہاں اس نے کباب ،ڈبل روٹی،بسکٹ اور چائے کا بندوبست کر رکھا تھا۔مجھے بھوک نہیں تھی لیکن کمان پل کے دونوں طرف کے گھنٹوں طویل چیکنگ کے طریقہ کار کے سابق تجربے کے پیش نظر میں نے کچھ نہ کچھ کھا لینے کو مناسب خیال کیا۔چائے کی دو پیالیاں پینے کے بعد میں نے اپنے عزیز کا شکریہ اد ا کیا اور رخصت لیکر بس میں سوار ہو گیا۔تھوڑی دیر بعد ہم اڈوسہ گاﺅں سے ہوتے ہوئے کمان پل کے علاقے میں داخل ہو گئے۔کمان پوسٹ کے گیٹ بند تھے اور کافی دیر بعد گیٹ کھول کر گاڑیوں کو اندر آنے کی اجازت دی گئی۔80کے قریب مسافر واپس جا رہے تھے جبکہ10 مسافر وادی کشمیر سے آزاد کشمیر جا رہے تھے۔دوبارہ سب مسافروں سے پہلے فل اپ کرائے گئے فارم دوباہ فل اپ کرائے گئے،اجازت نامے کے فارم لئے گئے اور اس میں کافی وقت لگ گیا۔میں ویٹنگ روم کے باہر کھڑا تھا کہ میں نے سفید داڑھی والے ایک شخص کو قریب کھڑے دیکھا،جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا،میں نے بھی اسے مسکرا کر دیکھا اور اس کا مزید جائزہ لیا۔ مجھے وہ اپنی عمر سے چند ہی سال بڑا لگا،سفید شلوار قمیض کے اوپراس نے کوٹ پہن رکھا تھا،اس کی پر اعتماد بامعنی مسکراہٹ دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا،اس کا چہرہ کچھ شناسا سا لگا،میں نے کہا جناب آپ مجھے جانتے ہیں، تو اس شخص نے مزید مسکراتے ہوئے کہا آپ نے آتے ہوئے میرا فارم بھرا تھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے باتھ روم لے گئے تھے۔میں فورا پہچان گیا،یہ حضرت وہی کم نظر والے بزرگ تھے جو مجھے آتے ہوئے اسی جگہ ملے تھے۔کہاں وہ بوڑھا ،ضعیف باباجسے صاف نظر بھی نہ آتا تھا اور وہ ٹٹول ٹٹول کر چلتا تھا اور ہاتھ میں فقط ایک شلوار قمیض سے بھرا ایک شاپر،کہاں پراعتماد مسکرہٹیں بکھیرتا یہ جوان جو مجھ سے کچھ ہی سال بڑاہے،نظر اس کی بالکل ٹھیک کا م کر رہی ہے،نئی اوردرست نمبر کی خوبصورت عینک نے اسے چمکدار آنکھیں دے دی تھیں،ساتھ میں سامان بھی ہے،یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟جو کم نظر والا بوڑھا جومجھے آتے ہوئے ملا تھا، وہ آزاد کشمیر میں اپنے رشتہ داروں سے دور مہاجرت کے دکھ سہتے سہتے نڈھال ہو جانے والا شخص تھا، اوراب جو شخص ملا ہے وہ اپنے رشتہ داروں کی محبت کا اعتماد رکھنے والا شخص ہے،وہ، ایک مجبور و عاجز شخص تھا،یہ ،ایک پر اعتماد اور پرعزم جوان ہے،واہ ری محبت،تیرے بھی کیا کیا رنگ ہیں۔اب کیا کروں آنکھوں میں پانی آ ہی جاتا ہے لیکن دل و دماغ سمجھ نہیں پاتے کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں یا غم کے۔
 

image

سامان کی سکیننگ اور چیکنگ کے بعد عملے نے فارم میں درج انڈین کرنسی کے بارے میں کہا کہ اگلے کمرے میں انڈین سٹیٹ بنک کے عملے سے انڈین کرنسی پاکستانی کرنسی میں تبدیل کر کے اس کی رسید دکھاﺅ۔اس ہدایت پر عمل کرنا ہی تھا۔اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ میں تو انڈین کرنسی پاکستان سے اوپن مارکیٹ سے خرید کر لایا تھا،پھر مجھے واپسی پہ انڈین کرنسی واپس کرنے کا پابند کیوں کیا گیا؟سامان ٹرک پر چڑہانے کے بعد خدا خدا کر کے کمان پل کی جانب روانہ ہونے سے پہلے ایک بار ]پھرایک نوجوان گورکھا فوجی نے ہماری تصاویر اتاریں۔پل عبور کر کے آزاد کشمیر میں داخل ہوکر بس میں سوار ہوئے تو اجازت نامے کے فارم جمع کرکے بس ٹرمنل کی جانب روانہ ہوئی۔خیال تھا کہ مسافروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے کاغذی کاروائی اور سامان کی چیکنگ میں بہت وقت لگ جائے گا لیکن ” ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی“ کے افسر و اہلکاران کے خصوصی انتظامات کی وجہ سے مسافر بہت جلد فارغ ہو گئے۔یوں میرا اپنے ّبائی وطن وادی کشمیر کا میری زندگی کا ناقابل فراموش 28روزہ دورہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ایک دن جانے میں اور ایک دن آنے میں جبکہ باقی 26دن اپنی اس خوابوں کی جنت میں گزرے، جسے ایک بار دیکھا ہے اور دوبارہ دیکھنے کی تمنا ہے۔مجھے جتنا شوق اپنے آبائی وطن کشمیر جانے کا تھا ،اب اس سے زیادہ شوق دوبارہ وہاں جانے کا ہے،اپنے بچوں کو وہاں لے کر جانے کا خیال ہے تاکہ وہ بھی اپنے اصل کو دیکھ سکیں ،اپنے رشتہ داروں کی محبت کی طاقت حاصل کر سکیں۔میں28دن اپنے آبائی وطن کشمیر میں رہا ،ہر شے کو غور سے دیکھتا رہا لیکن میں نے کسی سیاحتی مقام ،کسی بازار کسی سڑک کے کنارے ،کہیں بھی کسی کو قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا۔کشمیر سے واپس آ گیا ہوں لیکن میرا ذہن ابھی بھی کشمیر میں ہی ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613860 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More