آبائی وطن وادی کشمیر میں 28دن - قسط ۔3

اگلے روز راول پورہ سے نکلے،ایئر پورٹ روڈ پہ حیدر پورہ علاقہ سے گزرے جہاں سید علی شاہ گیلانی کا گھر اور دفتر ہے۔اسی سڑک پہ مختلف کمپنیوں کی گاڑیوں کے بڑے بڑے شو روم نظر آئے،ایک بخشی خاندان،دسرا انصاری خاندان اور تیسرا ایک اور سیاسی خاندان سے وابستہ بتایا گیا۔ایک پیٹرول پمپ پر نصب قیمتوں کے بورڈ پر پڑی،پیٹرول 74.33اور ڈیزل49.80درج تھا۔یعنی بھارت اور پاکستان کی کرنسی کا فرق بھی دیکھا جائے تو بھارت میں پیٹرول پاکستان سے بہت زیادہ مہنگا ہے۔ٹینگ پورہ برج ،بٹہ مالو برج سے ہوتے آلوچہ باغ،ٹینگ پورہ،پھر بمنہ چوک جہاں سے بائیں ہاتھ سڑک بڈگام،رائٹ سڑک ٹٹو گراﺅنڈ اور سیدھی بارہمولہ جاتی ہے۔پھرکرن نگر کا کمرشل ایریا،بال گارڈن روڈ پہ سرینگر میونسپل کارپوریشن ،اولڈ پولیس ہیڈ کواٹر،بائیں موڑ کاٹ کر فائر سروس،سیکرٹریٹ بلڈنگ،اسمبلی،ہائیکورٹ اور آگے مشہور جہانگیر ہوٹل ہے جس کی مناسبت سے اس چوک کانام بھی جہانگیر چوک رکھا گیا ہے۔اسی چوک سے ایک اوور ہیڈ برج بھی گزرتا ہے جس سے ہائیکورٹ،سیکرٹریٹ اور اسمبلی کی عمارات آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔جہانگیر ہوٹل میں کئی بھارتی پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے دفاتر بھی قائم ہیں۔جہانگیر ہوٹل کی عمارت کئی سال قبل شدید آتشزدگی سے تباہ ہو ئی تھی۔آگے دریائے جہلم پہ قائم مشہور بڈ شا کدل(پل) عبور کر کے لال چوک کا علاقہ آ جاتا ہے۔اس لال چوک کو کشمیر کی سیاسی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ابتداءکے تمام سیاسی جلسے یہاں ہی منعقد ہوتے تھے۔تمام سیاسی تحریکوں کو لال چوک کو مرکزی اہمیت حاصل رہی۔بعد ازاں وہاں کی حکومت نے لال چوک کے علاقے میں فٹ پاتھ کے طرز میں بیٹھنے کی جگہ بنا کر سیاسی اجتماعات کی جگہ ختم کر دی۔اسی چوک میں ہونے والے ایک جلسے میں شیخ عبداللہ نے رائے شماری کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ٹینڈل بسکو سکول،ریذیڈینسی روڈ،پرتاب پارک،پریس انکلیو۔پریس انکلیو میں کئی اخبارات کے دفاتر قائم ہیں اور یہ ایریا صحافتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔آگے ایک حریت رہنما کا شاپنگ پلازہ اور ہوٹل ہے،شاید ایس ایم مال کے نام سے۔پولو ویو مارکیٹ،پھر مولانا آزاد روڈ۔بائیں موڑ کاٹ کر سامنے دیکھو تو کوہ سلیمان پہ شنکراچاریہ،بائیں جانب پولو گراﺅنڈ،اب یہاں فٹ بال گراﺅنڈ بھی قائم ہے۔باغ پھر مسجد،رائٹ پہ نیڈوز کے نام سے شیخ عبداللہ کے سسرال کا ہوٹل۔بائیں طرف گالف گراﺅنڈ،جموں و کشمیر بنک،ریڈیو کشمیر اور دور درشن (انڈیا کا سرکاری ٹی وی)کی عمارات۔ڈل گیٹ،لیفٹ پہ چنار باغ،بلوارڈ روڈ۔سرینگر کی معروف عالم ڈل جھیل کے سامنے واقع زبر ون نامی پہاڑ پہ مغلوں کا تعمیر کردہ سات سٹیپ والا پری محل موجود ہے جہاں خوبصورت پارک قائم کئے گئے ہیں۔پری محل کا باغ ایک عمارت نما ہے جہاں داخلے کا ایک گیٹ ہے۔پری محل سے جھیل ڈل اور سرینگر شہر کا شاندارمنظر نظر آتا ہے۔پری محل سے رائل گولف کلب کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔پری محل میں فوج تعینات ہے ۔ پری محل کے نیچے گورنر ہاﺅس ہے،ساتھ ہی رائل پولو گراﺅنڈ،نہرو گیسٹ ہاﺅس اور چشمہ شاہی کا باغ موجود ہے۔مغلوں کے ہی تعمیر کردہ چشمہ شاہی پارک میں ایک قدیم چشمہ موجود ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جواہر لعل نہرو اسی چشمے کا پانی پیتا تھا اور اس کے لئے اس چشمے کا پانی انڈیا لیجایا جاتا تھا۔میں نے بھی اس چشمے کے کئی گھونٹ پی کر بدن کو سیراب کیا۔مغلوں کا تعمیر کردہ یہ باغ بہت بڑا تھا تاہم اب اس کے ایک ہی چھوٹے حصے کو باغ کی شکل میں قائم رکھا گیا ہے۔ یہاں بھی سیاحوں کی بھیڑ رہتی ہے۔جھیل ڈل کی متوازی روڈ سے زبر ون پہاڑ کی جانب مڑتے ہی بھارتی فورسز کے ایک ناکے پہ سخت چیکنگ کی جاتی ہے ۔آگے چل کر ٹیولپ گارڈن آتا ہے۔یہاں سے آگے کا تمام علاقہ ہائی سیکورٹی زون کہلاتا ہے۔زبر ون پہاڑ سے ڈل کے درمیان میں ایک خشک جگہ لگے چنار کے چار در ختوں کو دیکھا تو دو درخت سوکھے ہوئے نظر آئے۔جھیل کے ساتھ آگے نشاط باغ،فور شور روڈ اور نسیم باغ ہیں۔ڈل گیٹ سے حضرت بل تک جھیل ڈل دلفریب مناظر لئے ہوئے ہے۔ایک طرف لکڑی کے شاندار ہاﺅس بوٹس قطار میں کھڑی ہیں اور دوسری جانب چھوٹی کشتیاں(شکارے) جھیل کی سطح پہ کسی حسین دوشیزہ کی طرح خراماں خراماں چل رہی تھیں۔ایک منظر جھیل کا ہے،ایک منظر ہاﺅس بوٹس اور کشتیوں کا،ایک منظر ہے جھیل ڈل کے عقب میں زبر ون پہاڑ کا،ایک منظر ہے جھیل کے دوسری جانب شہر کا،ایک منظر ہے سیر گاہوں کاحضرت بل کا ،اور ایک منظر ہے ان سب مناظر پر جھکے رنگ برنگے آسمان کا ،اس آسمان کامنفرد رنگ اور اس پر تیرتے بادل ایک عجب ہی دنیا کے نظارے دکھاتے ہیں ۔یہ خوابناک مناظر انسان کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ڈل گیٹ سے شکارے پہ سوار ہو کر سامنے ہی موجود نہرو پارک میں جایا جا سکتا ہے جہاں ایک خوبصورت پارک کے علاوہ اچھا ریسٹورنٹ بھی قائم ہے۔جھیل ڈل کے ہی ایک مقام پہ کشتیوں پہ لدے سامان کی مارکیٹ ایک الگ ہی دنیا لئے ہوئے ہے۔
 

image

کشمیر یونیورسٹی جاتے ہوئے اچانک نظر ڈل جھیل کے ایک کنارے واقع شیخ عبداللہ کی قبر پر پڑی۔ساتھ موجود ایک ساتھی نے،جو ہر موقع پر کشمیر کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار شیخ عبداللہ اور اس کے خاندان پہ عائید کرتے تھے،نے کہا کہ آﺅ یہ جگہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔حالانکہ میرا وہاں جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔مقبرے کے گیٹ کے ساتھ فورسز کے چند اہلکار تعینات تھے۔ہم تین افراد اندر بڑھے تو وہ چونک گئے کیونکہ انہوں نے شاید کسی کو اس مقبرے پر آتے جاتے نہیں دیکھا ہو گا۔انہیں بتایا گیا کہ ہم قبر دیکھنا چاہتے ہیں،وہ خاموش رہے۔اندر جا کر دیکھا ،قیمتی سنگ مر مر کے بھر پور استعمال کے باوجود اس جگہ ویرانی چھلکتی ہے ،حالانکہ عقب میں جھیل ڈل کا خوبصورت منظر موجود ہے لیکن اس کے باوجود یہ کوئی ایسا خوش کن گوشہ نہیں ہے جہاں کوئی کشمیری آنا اور بیٹھنا پسند کرے۔سامنے ہی شیخ عبداللہ کی چھت والی قبر تھی جو چاروں طرف سے کھلی ہوئی ہے۔قبر کے ساتھ جھیل کی جانب ایک بڑے بورڈ پر شیخ عبداللہ کی دیو قامت تصویر کے ساتھ شعر درج ہے کہ
کسی کے آگے نہ خم ہو سکی میری گردن
کسی جگہ میری آواز آج تک نہ دبی

یہ شعر دیکھ کر میرے ساتھی نے کہا ” شیخ عبداللہ کہاں کھڑا رہا،وہ تو ہندوستان کے سامنے زمین پر لیٹ گیا۔“قبر کے سرہانے کی جانب دس پندرہ فٹ دور لوہے کے ایک بلند ڈنڈے پہ نیشنل کانفرنس کا سرخ جھنڈا جس پر ہل کا نشان بنا ہوا ہے۔قبر اور جگہ کو دیکھنے کے بعد بغیر فاتحہ پڑھے ہم باہر کی جانب بڑہے۔ہمارے ساتھی نے باہر نکلتے ہوئے گیٹ پہ متعین اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے شیخ عبداللہ کو موجودہ تمام خراب صورتحال کا ذمہ دار ٹہرایا اور دریافت کیا کہ شیخ عبداللہ کی قبر کے ساتھ خالی جگہ کس کی قبر کے لئے رکھی گئی ہے؟اس پر ایک غیر کشمیری اہلکار نے کہا وہ تو اپنی قبر میں پہنچ گیا ہے آپ اپنی قبرکی فکر کریں۔

ڈل جھیل کے کنارے واقع شاندار کشمیر یونیورسٹی نسیم باغ کیمپس اور حضرت بل کیمپس پر مشتمل ہے۔میں نے یونیورسٹی کے ”ایجوکیشن ملٹی میڈیا ریسرچ سنٹر (EMMRC)اور”میڈیا ایجوکیشن ریسرچ سینٹر(MERC)شعبے کا دورہ کیا۔شعبے کے ہیڈ ڈاکٹر شاہد رسول نے ہماری آمد کی اطلاع ملتے ہی ہمیں اپنے آفس بلا لیا۔ڈاکٹر شاہد رسول نے شعبے کے بارے میںہمیں تفصیلی طور پر آگاہ کیا ۔انہوں نے ہمیں شعبے کے مختلف حصے بھی دکھائے،جن میں جدید سہولیات سے آراستہ سٹوڈیو اور جدید کمپیوٹر لیب بھی شامل ہیں۔انہوں نے یونیورسٹی کا تمام بھارتی یونیورسٹیوں سے موثر انٹر نیٹ لنک کے بارے میں بھی بتایا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سارک ایجوکیشن ایکسچینج پروگرام کے تحت کشمیر یونیورسٹی سرینگر کے شعبہ کشمیر سٹیڈیز میں آزاد کشمیر کے چار ،پانچ طالب بھی شامل ہیں۔اس بھاری بھرکم شعبے کا بجلی کا اطمینان بخش ”بیک اپ سسٹم“ موجود ہے۔شعبے کا ایک بڑا اور کشمیری لکڑی کے آرٹ سے مزیں آڈیٹوریم بھی موجود ہے۔ میں نے ڈاکٹر شاہد رسول سے درخواست کی کہ اس آڈیٹوریم کا نام کشمیر کے ہی کسی حوالے پہ رکھا جائے۔میں نے محسوس کیا کہ ”ایجوکیشن ملٹی میڈیا ریسرچ سنٹر (EMMRC)اور”میڈیا ایجوکیشن ریسرچ سینٹر(MERC) کے سربراہ ڈاکٹر شاہد رسول اپنے شعبے میںمعیاری علمیت کے حوالے سے اہم اور قابل قدر کردار اد ا کر رہے ہیں۔یونیورسٹی کے دیگر چند شعبے دیکھنے کا بھی اشتیاق تھا لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے اس دورے میں ایسا نہ کر سکااور اس بات کا مجھے افسوس ہے۔
واپسی پہ سنگر مال کے نام سے قائم سرکاری شاپنگ پلازہ دیکھا جو کنٹریکٹ پہ چلایا جا رہا ہے۔مولانا آزاد روڈ پہ ہی ہولی فیملی چرچ،تاریخی ایس پی کالج۔سرینگر میں ریڈیو ٹیکسی سروس بھی قائم ہے جس کا کرایہ 25روپے فی کلو میٹر ہے۔سرینگر کا اقبال پارک جموں و کشمیر بنک نے تعمیر کیا ہے،اس کے ساتھ ہی بخشی سٹیڈیم،شیر گڑھی تھانہ،رام باغ اور پل کے ساتھ واحد ویمن پولیس سٹیشن،برزلہ،پھر سنت نگر علاقہ،سنت نگر میں ہی انڈسٹریل سٹیٹ بھی ہے۔سنت نگر میں ہی عبدالغنی لون( مرحوم) کا گھر اور پلازہ ہے،ساتھ ہی ایک موڑ پہ سیف الدین سوز کی اہلیہ کا سکول ہے۔
 

image

شام کوبڈ گام کے علاقہ سدی پورہ بیروہ کے لئے روانہ ہوا ۔قمر واری،ایچ ایم ٹی کراسنگ سے نار بل پہنچے جہاں سے سڑک سیدھی بارہمولہ جاتی ہے۔ناربل سے بائیں مڑ نے والی سڑک ماگام جاتی ہے جہاں سے ایک راستہ سیدھا ٹنگمرگ اور گلمرگ جاتا ہے جبکہ ماگام سے بائیں طرف کا راستہ بیروہ اور بڈ گام کو جاتا ہے۔میرے تایا زاد بھائی عبدالقیوم وانی نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ فریضہ حج ادا کرنے روانہ ہونا تھا۔رات کے وقت ان کے گھر سدی پورہ بیروہ پہنچا،وہاں کافی تعداد میں عزیز و اقارب جمع تھے۔صبح ساڑھے چار بجے عبدالقیوم وانی اپنی اہلیہ کے ہمراہ سرینگر کےلئے روانہ ہوئے۔روانگی کے وقت عبدالقیوم وانی کا پانچ سالہ نواسہ بلند آواز میں رونے لگا،پوچھنے پر جواب دیا کہ وہ چلے گئے اب میں کس کے ساتھ کھیلوں گا،اس پر اسے کہا گیا کہ لطیف انکل(عبدالقیوم وانی کے چھوٹے بھائی) کے ساتھ کھیلنا،تو وہ اور بھی زور زور سے رونے لگا،پوچھا کہ اب کیا ہوا تو اس نے جواب دیا کہ میں کب لطیف انکل جتنا بڑا ہوں گا کہ ان کے ساتھ کھیل سکوں؟کئی گاڑیوں میں سواررشتہ دار انہیں حج ہاﺅس سرینگر تک چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ گئے۔اگلی صبح اپنے دو رشتہ داروں کے ہمراہ بیروہ بازار کا چکر لگایا،ایک سڑک سامنے نظر آنے والے پہاڑ پر چڑہتی ہے۔اس پہاڑ سے بلاسٹنگ کے ذریعے پتھر نکالے جاتے ہیں۔اس پہاڑ سے بیروہ اور دوسرے علاقوں کا خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔اس پہاڑ کے مختلف حصوں میں سیبوں کے باغات بھی ہیں۔اسی پہاڑی کے اوپر ہی گورنمنٹ ڈگری کالج بیروہ کی نئی تعمیر کردہ عمارت ہے۔اسی روڈ پہ ’پی ڈبلیو ڈی‘ کا ایک بورڈ نصب نظر آیا جس پر انگریزی میں تحریر ہے
" Construction of Neeru Kangripora Road via Goripora Gohlar & Takibal under Nabard RIDF 13,lenth of Road 9 kms ,project cost:334.95 lacs, Agency:PWD(R&B)Division Budgam"

پاکستان کے ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کے والد ہاشم خان بیروہ میں ہی رہتے تھے۔ہاشم خان ڈوگرہ فوج میں تھے۔1947ءسے چند سال قبل ڈوگرہ حکومت نے انہیں بیروہ کے علاقے سے بیدخل کر کے جنگل کے علاقے ہاکھل آری زال منتقل کیا ۔ہاشم خان کا خاندان 1947ءمیں ہجرت کر کے پاکستان چلا گیا۔ہاکھل آری زال میں ان کی سینکڑوں کنال زمین اور بڑے بڑے مکانات حکومت نے اپنے قبضے میں لے لئے۔سدی پورہ بیروہ کی ایک کہانی اور بھی ہے،یہ کہانی ہے تین دوستوں کی جن کی محبت انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔میرا ایک تایا زاد بھائی محمد امین بچپن میں پولیو کے مرض کی وجہ سے معذور ہو گیا،بچپن سے ہی وہ گھر کے قریب اپنی ایک دکان چلاتا ہے،اس کے بچپن کے ہی دو دوست اسے روزانہ اپنے کندھوں پہ سوار کر کے گھر سے دکان لاتے ہیں اور شام کو اسےی طرح سے گھر چھوڑ کر آتے ہیں ۔سدی پورہ کے سبھی افراد امین سے محبت کرتے ہیں اور شاید اسی کا اثر میں نے سدی پورہ بیروہ میں محسوس کیا۔

دوپہر کے کھانے کے بعد میرے رشتہ داروں نے گلمرگ جانے کا پروگرام بنایا۔چند دن قبل ہی کسی نے بیروہ سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ” دودھ پتھری“ کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں جا کر واپس آنے کو دل نہیں کرتا۔چناچہ میں نے گلمرگ کے بجائے دودھ پتھری جانے کا انتخاب کیا۔دوپہر کے کھانے کے بعد دو کاروں اور ایک سومو جیپ میں سوار ہو کر ہم دودھ پتھری کے لئے روانہ ہوئے۔سڑک ہلکی چڑہائی کے ساتھ غیر محسوس انداز میں بلند ہوتے ہوئے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے اوپر جا رہی تھی۔راستے میں میرا ایک نوجوان رشتہ دار کار سے اتر کر قریبی مکئی کے کھیت میں داخل ہو گیا۔واپس آیا تو چھلیوں کا ڈھیر اس کے ہاتھوں میں تھا۔میں نے اس سے کہا کہ کسی کے کھیت میں کیوں داخل ہوئے،اس پر وہ مسکرا کر بولا یہ کھیت میرے اپنے ہیں۔اس نے مزید بتایا کہ گزشتہ سال اسی کھیت میں ریچھ دیکھا گیا تھا۔سڑک پر آگے بڑہتے ہوئے دونوں طرف مکانات اور کھیت تھے،مزید آگے جا کر آبادی ختم ہو گئی اور چھوٹے پہاڑی سلسلے شروع ہوتے گئے۔ایک موڑ سے دیکھا تو سامنے ایک بڑے پہاڑ کے دامن میں دودھ پتھری کا وسیع میدان نظر آیا۔دودھ پتھری کے شروع میں بائیں ہاتھ پہ بکر والوں کے چند کوٹھے نظر آئے۔دودھ پتھری سیاحت کے حوالے سے ایک نئی دریافت ہے۔محکمہ ٹورازم نے اس سیاحتی مقام پرمختلف نوعیت کے کئی ہٹس تعمیر کئے ہیں۔مجھے ٹورازم کے تعمیر کردہ یہ ہٹس فطرت کی اس خوبصورتی پہ بد صورتی کے دھبے محسوس ہوئے۔اگر جدید اشکال کے ان ہٹس کی جگہ بکر والوں کے لکڑی اور مٹی کے بنے کوٹھوں کی طرز پہ سیاحوں کے لئے رہائشیں تعمیر کی جاتیں ،ان کے اندر چاہے جدید انداز اپنا لیا جاتا تو دودھ پتھری کی فطری خوبصورتی کو مکمل طور پر بچایا جا سکتا تھا۔دودھ پتھری کے شروع سے درمیانی علاقہ تک ایسے رہائشی ہٹ قائم ہیں ۔دودھ پتھری کے پہاڑی میدان کے آخرتک سڑک کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری تھا۔آخر میں جہاں راستہ ختم ہو جاتا ہے وہاں دو نالوں کا پانی بہتا ہے۔برف کے اس شفاف پانی کو دیکھ کر اسے پینے کو دل کیا،پی کر دیکھا تو پانی بہت مزیدار اور فرحت بخش لگا۔نالے کے ساتھ سے ہی جنگل کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔واپس دودھ پتھری کے میدان میں آئے اور وہاں آگ پربھنے ہوئے مکئی کے دانوں سے لطف اندوز ہوئے۔اتنے میں ایک بکر وال پنے پست قامت گھوڑے کے ساتھ وہاں آن پہنچا۔بعد میں معلوم ہوا کہ بلندی کے مقامات پر موجود گھوڑے پست قامت ہوتے ہیں۔سب نے گھوڑے پہ سواری کی تو میں بھی گھڑسواری سے لطف اندوز ہوا۔واقعی دودھ پتھری ایسا مقام ہے کہ جہاں سے واپس جانے کو دل نہیں کرتا۔اس وسیع میدان کے مختلف حصوں میں رک کر وہاں کے منظر فطرت سے لطف اندوز ہوتا رہا۔اس وسیع میدان کے درمیانی علاقے میں بھی لکڑی اور مٹی کے بنے بکر والوں کے چند کوٹھے تھے۔ان کی تعمیر میں پورے پورے درخت استعمال کئے گئے تھے۔سامنے نظر آنے والے ایک کوٹھے کے برامندے میں پانچ چھ مٹکے پڑے ہوئے تھے جنہیں خوراک رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔نظروں کو سیراب کر دینے والے اس میدان میں کئی جگہ بھیڑیں اور چند گائیں چر رہی تھیں۔میدان کے عقب میں گھنا جنگل اور پست قامت پہاڑخوبصورت خوابوں کی طرح کے مناظر پیش کر تے ہیں۔ایسے پہاڑی میدانوں میں عمومی طور پہ پانی نہیں پایا جاتا لیکن دودھ پتھری کی وسیع میدانی جنت میں برف کا شفاف پانی بھی پایا جاتا ہے اور یہ بات اس مقام کو انفرادی حیثیت دیتی ہے۔شام کے سائے بڑہنے لگے تو دودھ پتھری میں سردی محسوس ہونے لگی۔دودھ پتھری کے ابتدائی حصے میں بنے ایک عارضی ہوٹل میں جائے پینے رک گئے۔ہلکی بارش کی وجہ سے ہم ہوٹل کے اندر بیٹھ گئے۔ہوٹل کا ملک اور کک ایک نوجون کشمیری تھا،اس نے میری ہدایت کے مطابق چائے تیار کی۔ایسی خوبصورت جنت اور ہلکی پھوار والے موسم میں ایسی مزیدار چائے پیتے ہوئے لطف دوبالا ہو گیا۔چائے کے ساتھ چھوٹے چھوٹے لواسے(نان) تھے جس پر مکھن لگایا گیاتھا۔میری چائے ختم ہو گئی لیکن تسکین نہ ہوئی،ہوٹل والے نے دوبارہ چائے بنائی لیکن اس کا لطف پہلی چائے جیسا نہ تھا۔چائے پی کر گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو رم جھم ہلکے انداز میں جاری تھی،شام کے سائے گہرے ہونے لگے۔ڈوبتی روشنی میں دودھ پتھری کی اس جنت کا منظر ہی الگ تھا۔دل تو چاہتا تھا کہ اپنے رشتہ داروں سے جانے کو کہوں اور خود یہیں بکر والوں کے ساتھ بسیرا کر لوں،لیکن ہماری خواہشوں پہ خود ہمارا ہی اختیار کہاں۔ (باقی آئندہ قسط میں)
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614082 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More