آبائی وطن وادی کشمیر میں 28دن - قسط ۔2

سفر نامہ

کمان پل سے اوڑی سے آگے تک کا علاقہ آزاد کشمیر کی طرح ہی محسوس ہوتا ہے،یوں لگتا ہے کہ آپ گھڑی دوپٹہ،چکوٹھی روڈ پہ سفر کر رہے ہوں۔بارہمولہ کی حدود شروع ہوتے ہی علاقہ پہاڑوں کی قید سے آزاد ہو کر کھلنے لگتا ہے اور سفیدے کے بلند درخت دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اب مختلف منظر والا علاقہ شروع ہو رہا ہے۔بارہمولہ سے گزرتے ہوئے بائیں ہاتھ پہ دریائے جہلم کے پار اولڈ سٹی کو نہایت اشتیاق سے دیکھا کہ یہی میرے نانا،نانی کا شہر ہے،میری والدہ ،میرے ماموں کی جائے پیدائش ہے۔بارہمولہ سٹی سے آگے خوجہ باغ،دلنہ،سنگرامہ،ٹاپر،پلہالن،پٹن،سنگ پورہ اور میر گنڈ کے مقامات آتے ہیں۔سنگ پورہ بلکہ میر گنڈ تک کے علاقے بارہ مولہ میں ہی آتے ہیں۔ بارہمولہ سے نکلتے ہی میرے ذہن میں بارہمولہ سرینگر روڈ کا تصاویر میں کئی بار دیکھامنظر آگیا جہاں سڑک کے دونوں طرف سفیدے کے بلند قامت درخت تھے۔منظر تو اب بھی ویسا ہی لگا لیکن مقامی افراد سے معلوم ہوا کہ سڑک کے کناروں سے بڑی تعداد میں درخت کاٹ دیئے گئے ہیں۔سنگ پورہ کے قریب دریائے جہلم کے لئے ایک فلڈ چینل کا پل عبور کیا۔میر گنڈ کے مقام پر سڑک کے بائیں جانب شہتوت کے درخت تھے جہاں ریشم کے کیڑے پالے جاتے ہیں۔میر گنڈ کے آگے نار بل کا مقام ہے جہاں سے دائیں طرف سے ایک سڑک گلمرگ اور بیروہ بڈگام جاتی ہے۔ناربل سے گزرتے ہوئے جانباز صاحب(جن کا مقبرہ بارہمولہ میں ہے) کے بھائی کا مقبرہ دیکھا۔پھر لاوی پورہ اور پارم پورہ سے ہوتے ہوئے شالہ ٹینگ پہنچے۔شالہ ٹینگ سے ہی سرینگر کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔
 

image

ہمارے قافلے کی گاڑیوں کی منزل بمنہ میں قائم ٹرانسپورٹ کا بس سٹینڈ تھا۔اس کے بالمقابل سڑک کی دوسری جانب چند سال قبل تعمیر کردہ حج ہاﺅس ہے جہاں سے حجاج جمع ہو کر ایئر پورٹ روانہ ہوتے ہیں۔گاڑیاں اندر جا کر رک گئیں لیکن مسافروں کو اندر ہی رہنے کی ہدایت کی گئی۔ایک پولیس افسر ہاتھ میں لسٹ لئے مسافروں کے نام پکارتا رہا اور حاضری لگنے پر اس مسافر کو بس سے اترنے کی اجازت دی جاتی۔آخر میں بس میں مجھ سمیت تین مسافر باقی رہ گئے۔ایک مسافر اپنے پکارے جانے والے نام پر توجہ نہ دے سکا تو نام پکارنے والا پولیس افسر روائتی انداز میں زور سے چلایا جس پر متعلقہ مسافر ہی نہیں ہم سب بھی متوجہ ہوگئے۔بس سے باہر جھانک کر دیکھا تو میرے بڑے ماموں عبدالرشید شاہد اپنے بیٹے قیصر ،داماد داﺅد صاحب اور اہل خانہ کے ہمراہ میرے منتظر تھے۔بس سے اتر کر سب سے بغلگیر ہوا۔پھر ٹرک میں جا کر اپنا سامان اتروایا اور سب کے ہمراہ دس پندرہ منٹ کے بعد رشید ماموں کے گھر واقع بمنہ توحیدآباد کالونی پہنچا۔کمان پل سے سرینگر تک کا سفر تقریبا ڈھائی گھنٹے میںطے ہوا۔گھر پہنچتے رات ہو گئی۔ چائے پینے کے بعد اپنے علیل ماموں محمد حسین سے ملاقات کرنے زیڈی مسجد کے علاقے میں واقع ان کے گھرگیا۔رات کے کھانے اور طویل بات چیت کے بعد پہلی منزل پہ واقع اپنے سونے کے کمرے میں داخل ہو کر اس کا معائینہ کیا۔کمرے کے دوجانب کھڑکیاں تھیں۔ایک طرف مکانات تھے اور گھر کے عقب والی کھڑکیوں سے کھلی پانی والی زمین نظر آتی تھی جہاں سرکنڈے لگے ہوئے تھے۔اس پانی میں بطخوں اورسرکنڈوں میں کبوتروں کی بھرمار تھی۔یہیں کئی بار میں نے مرغابیوں کے علاوہ مختلف قسم کے پرندے بھی دیکھے۔اس کمرے سے ایسی انسیت ہوئی کہ اب رشتہ داروں،وادی کشمیر کی طرح وہ کمرہ بھی مجھے یاد آتا ہے۔اس کی کھڑکیوں سے آنے والی ہوا کمرے کو جنت کا ٹکڑا بنا دیتی تھی۔معطر ہوا میں سانس لیتے بہت اچھا لگتا،جسم میں نئی توانائیاں دوڑتی محسوس ہوتیں۔دل کرتا تھا کہ تمام سرگرمیاں موقوف کر کے اس کمرے میں جنت کی ہواﺅں کے مزے لیتا رہوں۔کشمیر کی ہوا سے متعلق ایک عزیز کا سنایا ایک واقعہ یاد آ گیا۔”ایک افغان گورنر نے ایک دن کشمیریوں کو اکٹھا کر کے ان سے کہا کہ تمھاری ہوا تو بہت اچھی ہے ،یہ لو آٹھ آنے اور اپنی یہ ہو امجھے دے دو۔لوگ اس پر ہنسے لگے کہ یہ کیسی بے وقوفی کی بات کر رہا ہے۔اگلے سال جب وہ افغان گورنر واپس کشمیر آیا تو اس نے لوگوں کو اکٹھا کر کے کہا کہ یہاں کی ہوا میری ہے جو میں نے تم سے خرید لی ہے، سب اپنی ناک بند کر لو،جسے یہ ہوا چاہئے وہ مجھے چار آنے ادا کرے“۔ہم نے کشمیر کی اس ہوا کے لئے کیا قیمت ادا کی ہے، اس کے لئے کئی مضامین درکار ہوں گے۔

اگلی صبح بیدار ہوا توطبیعت ناساز معلوم ہوئی،گزشتہ روز تمام دن بھوکا رہنے کی وجہ سے معدے میں تکلیف شروع ہو گئی تھی۔بیروہ بڈگام، بارہمولہ اورصفاپورسے کئی قریبی رشتہ دار ملنے کے لئے آئے۔دوپہر کے بعد پولیس رپورٹ کرنے کے لئے بٹہ مالو پولیس سٹیشن گیا جہاں ایس ایچ او نے گرمجوشی سے خیر مقدم کیا۔میں نے رشید شاہد صاحب سے اپنے والد کے گھر صفاپور جانے کی اجازت طلب کی۔انہوں نے میری حالت دیکھتے ہوئے کہا کہ ” رشتہ دار کہیں نہیں جا رہے،تمھاری طبعیت خراب ہے ایک دو روز آرام کر لو ،پھر چلے جانا“۔لیکن میرا جواب تھا کہ مجھے اپنے آبائی گھر صفاپورپہنچ کر ہی سکون ملے گا۔شام کے وقت میں اپنے تایا زاد بھائی علی محمد کے بیٹے ،اپنے بھتیجے راجو اور اس کے ماموں عبدالمجید بٹ کے ہمراہ صفاپور کے لئے روانہ ہوا۔صفا پور پہلے بارہمولہ اور گزشتہ کچھ عرصہ سے گاندربل ضلع میں شامل کیا گیا ہے۔یہاں استقبال کا ایک طریقہ مہمان پر ڈرائی فروٹ،ٹافیاں نچھاور کرنے کا رائج ہے۔ہماری آبائی جائے رہائش پہ میرے تایا زاد بھائیوں کے گھر بنے ہوئے ہیں اور گھروں کے تین طرف اخروٹ کے بلند قامت درختوں کے جھنڈ ہیں ۔اپنے تایا زاد بھائی علی محمد کے گھر پہنچا تو صفا پور کے تمام رشتہ دار وہیں اکھٹے تھے۔سب سے ملنے کے بعد میری طبیعت پھر خراب ہونے لگی۔میں اجازت لے کر پہلی منزل کے ایک کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔لوگ مجھ سے ملنے آتے رہے لیکن میںدوائی کھا کے سویا رہا۔رات تقریبا ساڑھے بارہ بجے کے بعد طبعیت ذرا سنبھلی تواٹھ کو اپنے تایا زاد بھائیوں علی محمد وانی اور بشیر احمد وانی کے بیٹوں راجو اور شارق سے بات چیت شروع کر دی۔رات کے تین بجے چائے کی طلب محسوس ہوئی۔میں نے راجو اور شارق سے پوچھا کہ انہیں چائے بنانا آتی ہے تو دونوں نے انکار میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ گھر والوں کو اٹھا کر چائے بنا لیتے ہیں لیکن میں نے منع کر دیا۔اپنے ان دونوں بھیتیجوں کو لیکر میں کچن پہنچا تو معلوم ہو ا کہ یہ دونوں کچن کے تجربے میں صفر ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ چائے کی پتی وغیرہ کہاں ہے۔ان دونوں کو چائے بنانا سکھاتے ہوئے چائے بھی بن گئی اور یوں رات کے سوا تین بجے ہم چائے سے لطف اندوز ہوئے۔راجو کے متعلق میری والدہ نے ایک واقعہ سنایا تھا،والدہ بتاتی تھیں کہ 1980یا1983ءمیں ان کے کشمیر کے دورہ کے وقت راجو چار پانچ سال کا تھا،وہ بات بات پہ گھر والوں کو بلیک میل کرتے ہوئے پہلی منزل کی کھڑکی سے کود جانے کی دھمکی دیتا،جس پر سب بوکھلا جاتے،خصوصا راجو کی دادی نہایت پریشان ہو جاتیں اور راجو کی بات فورا تسلیم کر لی جاتی۔ایک دن راجو نے میری والدہ کی موجودگی میں یہ طریقہ اختیار کیا تو میری والدہ نے اسے بازو سے پکڑ کر کھڑکی کے سامنے کھڑا کر دیا اور کہا ”بیٹے تم روز روز کھڑکی سے کود جانے کی دھمکی دیتے ہو ،آج واقعی ہمیں کود کر دکھاﺅ“ ۔معاملہ بگڑتا دیکھ کر راجو نے توبہ کر لی اور پھر کبھی گھر والوں کو کھڑکی سے کود جانے کی دھمکی نہیں دی۔

ُاگلی صبح صفاپور دیکھنے کا ارادہ کیا اور اپنے کزن بشیر احمد وانی کے چھوٹے بیٹے فہیم کے ساتھ اس کے موٹر سائیکل پر صفا پور سے واقفیت کے سفر پر نکل پڑا۔سب سے پہلے صفاپور سے ملحق مشہور عالم مانس بل جھیل کے ساتھ قائم جھروک بل باغ کا رخ کیا۔اس مقام پہ مغل بادشاہ کی تعمیر کردہ بارہ دری اور دوسری تعمیرات موجودہیں جس کے ارد گرد ایک خوبصورت باغ قائم ہے۔جھیل کے کنارے ایک کشتی بان (ہانجی )اور تین چار کشتیاں موجود تھیں۔دو خواتین جھیل کنارے کپڑے دھو رہی تھیں۔یہاں سے مانس بل جھیل کا منظر نہایت پر سکون اور جادوئی خوبصورتی لئے ہوئے ہے۔ جھروک بل باغ میں ہی فضا میں چھوٹے طیارے کی اڑان کی آواز سنائی دی،پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ بغیر پائلٹ اڑنے والا جاسوس طیارہ ہے ۔صفاپور میں مانس بل جھیل کے جھروک بل پارک کے قریب ہی محکمہ فشریز کا کافی رقبے پہ پھیلا علاقہ ہے جس کے گرد چار دیواری قائم ہے۔یہاں مچھلیوں کی افزائش اورتحقیق کے کام کے علاوہ ساڑھے بارہ کروڑ روپے کی لاگت سے مچھلیوں کی خوراک تیار کرنے والاایشیا کا سب سے بڑا پلانٹ حال میں ہی قائم کیا گیا ہے ۔صفاپور میں مشہور سینک سکول کے طرف جانے والی سڑک،کوہستان کالونی کے علاقے کے ساتھ سے مانس بل جھیل کے کنارے کنارے تقریبا دو کلومیٹر طویل خوبصورت پارک قائم ہے۔پارک کے شروع میںایک خوبصورت اوپن ایئر تھیٹر قائم ہے۔اس وقت پارک میں پلوامہ کے علاقے سے کشمیری فنکاروں کا ایک گروپ آیا ہوا تھا اور ان کا پروگرام شروع ہونے والا تھا۔اس پارک میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جھیل کے اندر کر کے لکڑی کے چبوترے نصب کئے گئے ہیں جہاں بیٹھ کر جھیل اور ارد گرد کے خوبصورت ماحول سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔مانس بل جھیل کے کناروں پہ کنول کے پھولوں کے پودے ہیں ،جن کی جڑ کو ”ندرو “ کہا جاتا ہے جو مچھلی کے ساتھ یا خالی سبزی کے طور پر پکایا جاتا ہے اور یہ کشمیریوںکی مقبول ڈش ہے۔ مانس بل جھیل کو کنول کے پھولوں کی وجہ سے بھی امتیاز حاصل ہے۔مانس بل کی مچھلی اور ندرو کشمیریوں میں مرغوب ہیں۔پارک کے ساتھ جھیل میں پتلی اور لمبی رنگ برنگی چھت اور بغیر چھت والی کشتیاں سیاحوں کو جھیل کی سیر کرانے کے لئے موجود رہتی ہیں جنہیں مقامی طور پر ”شکارہ“ کہا جاتا ہے۔ جھروک بل پارک کی طرح اس پارک میں میں بھی داخلے کے لئے ٹکٹ مخصوص ہے۔ غیر کشمیری سیاحوں کے علاوہ کشمیری بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ایک کشمیری خاندان پکنک منانے آیا ہوا تھا،سب گھاس پہ چادر بچھا کرکھانا کھا رہے تھے،ساتھ ہی گیس سلنڈر کے چولہے پہ نمکین سبزچائے پک رہی تھی۔پارک کے داخلی راستے میں کھوکھا نما عارضی دکانیں ہیں جہاں کھانے پینے اور خواتین و بچوں کی دلچسپی کی مختلف اشیاءموجود تھیں۔پارک کے اندر ہی واٹر سپورٹس کاسرکاری ادارہ بھی کام کر رہا ہے۔اسی پارک میں پانی کا تالاب مانس بل جھیل کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔پارک کے مختلف حصوں میںکئی قدرتی چشمے بھی موجود ہیں جن کے گرد چار دیواری قائم کر کے انہیں محفوظ بنایا گیا ہے۔مانس بل جھیل کے پانی کا ماخذ جھیل کی تہہ میں موجود ان گنت چشمے ہیںجن سے پھوٹتا پانی ایک خوبصورت و دلفریب جھیل کی تشکیل کرتا ہے۔ جھیل میں کنگ فشر اور آسٹریلین برڈ بھی کافی تعداد میں نظرآئے اور ان کا مچھلیاں پکڑنے کا فن دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
 

image

شام کو اپنے ایک عزیز سے ملنے اس کے گاﺅں اشم(خواجہ محمد امین مختار مرحوم کا آبائی علاقہ) کے لئے موٹر سائیکل پر ہی روانہ ہوا۔میرا بھتیجا فہیم موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ارد گرد کے علاقے کے بارے میں بھی بتاتا جا رہا تھا۔ایک چھوٹی سڑک صفاپور سے مکانات اور کھیتوں کے درمیان سے چلی جا رہی تھی۔اسی پر ایک مقام کے متعلق پتہ چلا کہ یہ اخوانیوں کا علاقہ تھا اور اس کے نزدیک ہی راشٹریہ رائفلز کا ایک کیمپ بھی تھا جو اب ختم ہو چکا ہے،تاہم اب بھی اس خالی عمارت کو فوج کے زیر استعمال رہنے والی جگہ کے طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔اشم اپنے عزیز کے گھر پہنچا،چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر میرے اس عزیز نے اپنا سیبوں کا باغ دکھانے کی پیشکش کی۔ان کے گھر سے نکل کر ایک گلی سے نکلتے ہوئے ایک گھر کے ساتھ زمین پہ نصب لکڑی کا چھوٹا گیٹ کھول کر آگے بڑھے،ایسا ہی ایک اور گیٹ بھی عبور کیا اور ہم سیب کے باغ میں پہنچ گئے۔آزاد کشمیر ،مری اور سوات میں سیبوں کے کئی باغ دیکھے تھے لیکن وادی کشمیر میں سیب کے کسی باغ میں داخل ہونے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ستمبر اکتوبر کا مہینہ وادی کشمیر میں پھلوں اور چاول کے تیار ہو جانے کا وقت ہوتا ہے۔باغ میں درخت پلے ہوئے تیار سیبوں سے لدے ہوئے تھے۔جتنے سیب درختوں پہ موجود تھے اتنے ہی زمین پر پڑے ہوئے نظر آئے۔باغ میں ایک مقام پر ایک چھوٹا سا کمرہ تعمیر تھا جس کے ساتھ ایک عارضی جھونپڑی میں سیب جمع کئے جا رہے تھے اور اسی جگہ انہیں گتے اور لکڑی کی دس کلو اور بیس کلو کی پیٹیوں میں بھرا جا رہا تھا۔چند کشمیری جوان سیبوں کے اس کام میں مشغول تھے۔کچھ دیر یہاں گزارنے کے بعد وپس صفا پور روانہ ہو گیا۔میرے وادی کشمیر جاتے ہی وہاں دو یا تین سرپنجوں کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔اس پر ہر علاقے کے سرپنجوں نے اپنے عہدوں سے استعفے دینا شروع کر دیئے۔مسلسل کئی دن روزنامہ اخبارات کے ایک دو صفحات سرپنجوں کے مستعفی ہونے کے دو کالمی اشتہارات سے بھرے ہوتے تھے۔اس معاملے سے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور کانگریس کے درمیان کھینچاتانی کا ایک نیا موضوع شروع ہوا اور اس پر بیان بازی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

صفا پور میں پانی کا ایک نہایت قدیم چشمہ بھی دیکھا جو اب بھی رواں دواں ہے اور مقامی آبادی اس کا پانی استعمال کرتی ہے۔قدیم وقت سے قائم یہ چشمہ ایک غار سے نکلتا ہے اور اس کے باہر دو چھوٹے تالاب بنے ہوئے ہیں۔اس چشمے سے واٹر سپلائی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔اب یہ تاریخی چشمہ رہائشی عمارات اور سکول کی عمارت کے درمیان گھرا ہوا ہے۔صفاپور میں میرے آبائی گھر کے عقب میں بھی نئی قائم تعمیر کردہ عید گاہ کے ساتھ ایک چشمہ موجود ہے۔ صفا پور کی مرکزی جامع مسجد میرے گھر کے عقب میں قائم ہے۔اس مسجد کے بیرونی احاطے میںبھی ایک قدرتی چشمہ موجود ہے جسے ایک تالاب کی شکل دی گئی ہے۔اس تالاب سے باہر نکلنے والے پانی کو وضو کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔2004ءکے دورہ کے موقع پر مجھے چند گھنٹے کے کے لئے صفاپور آنے کا موقع ملا تھا۔اس وقت صفاپور بازار کی سڑک تقریبا کچی تھی اور وہاں مٹی اڑتی تھی،بازار میں فقط چند ہی دکانیں کھلی نظر آتی تھیں۔لیکن اب2012ءمیں صورتحال بدلی ہوئی محسوس ہوئی،ہر طرف پکی سڑکوں کا جال،دکانوںکا وسیع سلسلہ۔دو دنوں میں میں نے صفاپور کا تقریبا تمام علاقہ چھان مارا۔کئی رشتہ داروں کے گھر گیا،والد گرامی کے کئی دوستوں سے ملاقات کا موقع ملا۔27 ستمبر کی شام کو میں اپنے چند رشتہ داروں کی ہمراہ سرینگر کے لئے روانہ ہوا۔پہلے سنبل کے قصبے میں اپنے ایک عزیز غلام رسول صاحب کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی۔رات کو رشید ماموں کے گھر توحید کالونی بمنہ پہنچ گیا۔

اگلے روزبمنہ کی توحید کالونی میں قائم مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی۔دوپہر کو ایک شادی میں جانے کا موقع ملا۔کسی کشمیری شادی میں شرکت کایہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا۔سرینگر کے حوول کے علاقے میںہونے والی اس شادی میں چند افراد سے بھی ملاقات ہو گئی ۔کانگریس کے ایک سینئر لیڈر غلام نبی مونگا کے علاوہ حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کے ایک قریبی ساتھی سے بھی ملاقات ہوئی جو پاجامہ اور کرتا پہنے لکھنﺅ کا انداز لئے ہوئے تھے۔یہیں آنجہانی نرملا دیش پانڈے کی تنظیم کے ایک سینئر عہدیدار سے بھی ملاقات ہوئی اور اس سے پرانے رابطے بحال ہو گئے۔انہوں نے دہلی اور جموں میں موجود ”پاکستان انڈیا پیپلز فورم “ کے دو اہم افراد سے میری ٹیلی فون پر بات بھی کروائی جن سے میں 4 200 ءکے دورے کے موقع پر مل چکا تھا۔کھانے کی پہلی شفٹ تقریبا تین بجے شروع ہوئی اور شام تک کھانے کے راﺅنڈ چلتے رہے۔کشمیر کی شادیوں میں وازوان(کشمیری کھانوں) کا سلسلہ کئی کئی دن جاری رہتا ہے۔گھر کے وسیع لان میں کشمیری کڑھائی والے مخصوص انداز کے ٹینٹ میں بیٹھ کر ہم نے شادی کا وازوان تناول کیا۔شادی سے واپسی پر محمد حسین وانی کی عیادت کے لئے ان کے گھر گئے۔رات کو اپنے ایک عزیز داﺅد صاحب کے گھر راول پورہ میں کھانے کی دعوت تھی۔رات کو ان کے گھر ہی قیام کیا۔ )باقی آئندہ قسط میں)
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614098 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More