آبائی وطن وادی کشمیر میں 28دن - قسط ۔1

مہا جرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کا اپنے آبائی وطن جانا ایک سہانے خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔اپنے رشتہ داروں ،عزیز و اقارب ،اپنے آبائی علاقے سے دور رہناکیا معنی رکھتا ہے اورتمام عمر اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ،اس بات کی حقیقت عمر کے ڈھلوانی حصے میں آ کر ہی معلوم ہوتی ہے۔پاسپورٹ و ویزے پہ مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر و پاکستان آنے جانے کا عمل 1980ءکی دہائی سے شروع ہواتاہم یہ عمل مشکلات اور غیر یقینی صورتحال سے لبریز رہا۔2004ءمیں ہم نے ایک وفد تشکیل دیتے ہوئے بھارتی پارلیمنٹ کی رکن ،معروف سوشل ورکرآنجہانی نرملا دیش پانڈے کی میزبانی میں نئی دہلی ،جموں اور سرینگر کا دورہ کیا۔اس موقع پر ہمیں سرینگر میں فقط ڈھائی روز ہی رہنے کا موقع ملا اور اس دوران صرف پانچ چھ گھنٹے کے لئے ہی ہمیں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کا موقع دیا گیا۔2005ءمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان اایک معاہدے کے بعد سرینگر،مظفر آباد بس سروس شروع ہوئی تو پہلی بس میں سرینگر جانے والوں میں میرا نام بھی شامل تھا لیکن کسی وجہ سے میںیہ سفر اختیار نہ کر سکا۔2009ءمیں میں نے اپنے تایا خواجہ ثناءاللہ وانی کے ہمراہ مظفر آباد سے سرینگر جانے کے لئے اپنے فارم جمع کرائے۔ڈیڑھ سال انتظار کرنے کے بعد میرے ضعیف العمر تایا اپنے گھر والوں سے ملنے ،اپنے آبائی علاقے کو دیکھنے کی آرزو دل میں لئے دو سال قبل اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔اس کے بعد گزشتہ سال ایک دن معلوم کیا تو پتہ چلا کہ میرا فارم آ گیا ہے۔اسی وقت سے میں وادی کشمیر جانے کا پروگرام بناتا رہا لیکن یہاں کی مصروفیات آڑے آتی رہیں۔گزشتہ ماہ ستمبر میںسرینگر سے اطلاع ملی کہ میرے ایک ماموں کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور اس کے بعد وہ ”ڈائیللسز“ پہ چلے گئے ہیں۔یہ بری خبر ملی تو خیال آیا کہ زندگی کے کام تو ختم ہوتے نہیں انسان ختم ہو جاتا ہے،چناچہ طے کیا کہ جو بھی ہو میں اسی ماہ کشمیر ضرور جاﺅں گا۔اپنے کاموں کو دیکھتا تو کہیں بھی جانے کی گنجائش نہ ملتی،اسی صورتحال میں میں نے 24ستمبرکے لئے مظفر آباد سے سرینگر جانے کے لئے بس کاٹکٹ حاصل کر لیا۔ٹکٹ کیا ملا گویا مجھے اس سفر کا تصدیق نامہ مل گیا اور میں نے جانے کامکمل ارادہ کر لیا ۔
 

image

23ستمبر کو راولپنڈی سے مظفر آباد پہنچا۔”ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی“ سے رابطے پر صبح سات بجے ادارہ کے دفتر واقع اپر چھتر پہنچنے کی ہدایت ملی۔اگلی صبح اپر چھتر پہنچا تو ”ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی“ کے دفتر کی رہنمائی کا کوئی بورڈ نہ ہونے کی وجہ سے دفتر تلاش کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا۔اتھارٹی کی پیلے رنگ کی خصوصی بس کے ذریعے تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعدچکوٹھی میں واقع ٹرمنل پہنچے۔ ٹرمنل میں سہولیات مناسب تھیں اور کنیٹین میں چائے وغیرہ کاانتظام بھی تھا۔کاغذات کی کاروائی اور سامان کی چیکنگ میں تقریبا تین گھنٹے لگ گئے۔پولیس اور دیگر متعلقہ اہلکاروں نے ایک ایک بیگ کو کھول کر چیک کیاتاہم کسی شے کے بارے میں اعتراض نہیں کیا۔اتھارٹی کے افسر اور اہلکاران نے کاغذات کے تبادلے کی کمان پل میٹنگ کے بعد مسافروں کو تھوڑی ہی دیر میں اجازت نامے کے فارم دے دیئے۔اس کے بعد سامان ایک ٹرک میں لاد کر کمان پل کے پار روانہ کیا گیا۔لائین آف کنٹرول کے پار جانے والے منقسم کشمیری خاندانوں کے افرادکو بس میں بٹھا کر کمان پل کی جانب روانہ کیا گیا ۔پل سے چند قدم پہلے ہی بس رک گئی۔آزاد کشمیر سے پار جانے والے مسافروں کی کل تعداد17تھی۔بس سے اتر کر کمان پل کی جانب قدم بڑہائے تو دیکھا کہ اس پار سے آنے والے مسافر کمان پل عبور کر کے آزاد کشمیر داخل ہو رہے تھے۔اتنے میں دیکھا کہ گلگت ڈگری کالج کے سابق پرنسپل خالد کشمیری (مرحوم) کی دختر اپنے شوہر غلام نبی اور بیٹے کے ہمراہ اپنے آبائی علاقے بانڈی پور کا دورہ کر کے واپس آ رہے تھے۔ان سے سلام دعا اور چند ہی جملوں کے تبادلے کے بعد ان کے اورمیرے قدم بے اختیار انداز میں آگے بڑھ گئے،ان کو وادی کشمیر سے واپس آنے کی جلدی تھی اور مجھے اپنے خوابوں کی سرزمین،اپنے آبائی وطن میں داخل ہونا تھا،فاصلہ چند ہی قدموں کا تھااسلئے بے تابی بے اختیار انداز میں تھی۔کمان پل کے درمیان دونوں طرف کے سول اور فوجی افسران و اہلکار خاموشی سے کھڑے تھے۔پل عبور کرتے ہی گورکھا رجمنٹ کے بھارتی فوج کے سپاہیوں نے تمام 17مسافروں کو رک جانے کی ہدایت کی۔ ۔جدید کیمرے سے لیس ایک نوجوان گورکھافوجی نے ماہرانہ انداز میں سب کی الگ الگ تصاویر لیں۔تصویر بندی کے عمل کے بعد سب کو چند قدم دور واقع ایک ہال نما کمرے میں بٹھایا گیا۔کمرے کے دونوں طرف بلند شیشے لگے ہوئے تھے جن سے باہر کا منظر بخوبی نظر آتا تھا ۔آزاد کشمیر کی جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ ہی درختوں ،پودوں کی دیوار نے منظر کو چھپا رکھا تھا جبکہ دوسری جانب ایک سڑک تھی جوکمان پل سے سیدھی کئی فوجی رکاوٹیں عبور کرتی اوڑی،بارہمولہ اور سرینگر جاتی ہے۔اس کمرے کے داخلی دروازے کے متوازی دوسرے دروازے سے باہر جند فٹ کھلی جگہ کے بعد پہلی کمرے کی مانند دوسرا کمرہ تھا۔دونوں کمروں میں مسافر بیٹھے ہوئے تھے ،وادی کشمیر سے آزاد کشمیر جانے والے اور آزاد کشمیر سے پار جانے والے۔دونوں کمروں میں فرق دوسرے کمرے میںمیز کرسی کے دوا طراف بیٹھے دو گورکھا فوجی تھے۔آزاد کشمیر سے آنے والے تمام افراد کو ایک ایک فارم تھما دیا گیا جس میں مطلوبہ معلومات درج کر کے واپس جمع کرانا تھا۔اس فارم میں اپنا نام،فارم نمبرکے علاوہ انڈین،پاکستانی کرنسی،امریکن ڈالروغیرہ کی مالیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی تمام مسافروں سے ان کے آزاد کشمیر سے جاری اجازت نامے کے فارم لے لئے گئے۔ایک گورکھا فوجی افسر تمام کاروائی کی گھوم پھر کر باریک بینی سے نگرانی کر رہا تھا۔کمرے میں موجود دونوں گورکھا فوجی ایک بڑے رجسٹر میں آنے والے افراد کا اندراج کر رہے تھے۔ان گورکھا فوجیوں کی زبان کچھ سمجھ نہ آئی تاہم ایک دوسرے کو ” بویا“ کہہ کر پکارتے تھے اور ضرورت کے مطابق اردو بول لیتے ہیں۔پہلے تو میں دونوں کمروں میں چہل قدمی کرتا رہالیکن جب صاف دکھائی دینے لگا کہ بات آدھ پونے گھنٹے کی نہیں کئی گھنٹوں کی ہے تو میں ایک کرسی پہ بیٹھ گیا۔میرے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کے بزرگ بیٹھے تھے جن کی بینائی بھی بہت کمزور تھی،عینک لگانے کے باوجود وہ بہت کم دیکھ پاتے۔میرے علاوہ ہر مسافر کے ساتھ کوئی نہ کوئی تھا،کسی کے بیوی بچے ساتھ تھے،کوئی اپنی والدہ کے ساتھ تھا اور ایک نوجون اپنی بہن کے ساتھ اپنے رشتہ داروں سے ملنے جا رہا تھا۔ہر کوئی سامان کی معقول تعداد لئے ہوئے تھا لیکن میرے ساتھ بیٹھے بزرگ بھی اکیلے تھے اور ان کے ہاتھ میں صرف ایک پلاسٹک کا شاپنگ بیگ تھا جس میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو کپڑے ہوں گے۔ان بزرگ کا فارم میں نے بھر کر دیا۔اس کے علاوہ مجھے چار پانچ دوسرے افراد کے فارم بھی بھرنے پڑے۔کم نظر والے بزرگ سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ وہ آزاد کشمیر کے ایک قریبی علاقے سے اپنے رشتہ داروںسے ملنے اوڑی جا رہے تھے۔وہ بزرگ مجھے کچھ بجھے بجھے سے نظر آئے۔میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار کو اپنے آنے کی اطلاع کی ہے؟کیا انہیں کوئی لینے آئے گا؟اس بزرگ نے بے چارگی کے عالم میں دھیرے سے کہا کہ اطلاع تو فون پر دے دی تھی،اب پتہ نہیں کہ کوئی آتا ہے یا نہیں۔میں نے کمرے کے اگلے دروازے سے باہر نکل کر دیکھا تو آگے کمروں کی سیدھ میں ہی دوباتھ روم بنے تھے،اس سے آگے تلاشی کا کمرہ،پھر سامان کی سکیننگ کی مشین ،پھر اسی کمرے میں ہی امیگریشن اور کسٹم کا کمرہ۔میں واش روم سے ہو کر واپس آیا تو انہی بزرگ نے بھی واش روم جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ان کا ہاتھ پکڑے یہ سعادت حاصل کی۔اس سے یہ فائدہ ہوا کہ دوبارہ سگریٹ پینے کا موقع مل گیا۔بزرگ باہر نکلے تو میرا سگریٹ بھی خاتمے کو تھا۔ان کا ہاتھ تھامے ویٹنگ روم کی جانب جا رہا تھا کہ دیکھا میرے ساتھ آنے والے دو مسافر ویٹنگ روم کے خارجی دروازے کے باہر کھڑے سگریٹ پی رہے تھے،اتنے میں سڑک پر کھڑے اوڑی پولیس سٹیشن کے افسر نے بلند آواز میں سگریٹ نوشی نہ کرنے کا ”کاشن“ دیا۔دونوں مسافروں نے ناگواری کے انداز میں اپنے سگریٹ بجھا دیئے۔کمان پل سے لے کر یہاں تک ہمیں جس طرح فوج کی سخت پابندی میں لایا گیا اور ابسوں میں بیٹھنے تک جس طرح پابند رکھا گیا اس سے میرے ذہن میں فورا یہ خیال آیا کہ ہمیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ہم ایک کھلی جیل میں داخل ہو رہے ہیں۔

فارموں کے صبر آزما مرحلے کے بعد تمام مسافر ویٹنگ روم سے نکل کر سڑک پر پہنچ گئے،ایک گیٹ کے سامنے سڑک پر ہمارا سامان پڑا ہوا تھا۔ہر مسافر نے اپنا سامان شناخت و تلاش کر کے گیٹ سے اندر کی راہ کی ۔اپنا سامان گیٹ کے آگے رکھنا ہوتا تھا آگے عملے کا قلی سامان خود اندر لے جاتا۔سامان اندر جانے پر اشارہ ملتے ہی ایک ایک شخص ”واک تھرو گیٹ“ سے گزرتا،وہیں روک کر ایک شخص اپنے ہاتھوں سے پورے جسم کی تلاشی لیتا،جیب میں موجود اشیاءکو ٹٹول ٹٹول کر اور ضرورت پڑنے پر وہ شے باہر نکال کر دیکھی جاتی ،تاہم پیسوں والی جیب کی طرف انہوں نے ہاتھ نہیں بڑہایا۔ساتھ ہی بائیں ہاتھ ایک کمرے میں داخل ہر کر اپنے فارم ان کے حوالے کئے،سامان کو ”سکیننگ“مشین پر رکھا،مشین کے اگلے حصے جا کر اپنا سامان اٹھایا ۔کسٹم کی ایک خاتون روبرو تھیں۔انہوں نے سامان کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتایا کہ بیگ میں صرف اپنے استعمال کے کپڑے ہیں۔انہوں نے فارم میں ظاہر کی گئی موجود بھارتی کرنسی کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں اوپن مارکیٹ سے غیر ملکی کرنسی مل جاتی ہے۔اس کمرے سے باہر نکلے تو دو قلیوں نے ہمارا سامان بیس قدم دور کھڑے ایک ٹرک میں لادنا شروع کر دیا۔آخر میں ایک اور ویٹنگ روم بنا ہوا تھا جس کے سامنے سڑک کے ساتھ ایک چھوٹا سا پارک بنا ہوا تھا۔پارک میں بھارتی فوج کی انجینئررجمنٹ کا پتھر نصب تھا جس پر انگریزی میں رجمنٹ کا نام اور اردو میں ” آر کرے گا پار“ تحریر ہے۔ سامنے سڑک کی دوسری جانب چند سیڑھیاں اور وہاں کسی کی قبر پربھارتی فوج کا تعمیر کردہ مزار کاچھوٹا سا کمرہ،ساتھ ہی پہاڑ کے اوپر جانے کا راستہ،جہاں گیٹ پہ گورکھا فوجی پہرہ دے رہے تھے۔تمام کاروائیوں مکمل کرانے کے بعد بس میں بیٹھ بھی گئے لیکن بسوں کے چلنے کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔بھوک سے برا حال ہو گیا،چکوٹھی ٹرمنل میں تین گھنٹے کا وقت چار پانچ بار چائے پی کر گزارا لیکن یہاں ایک کھوکھا نما کینٹین تھی جسے دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ اس کے پاس چائے تو کیا پانی بھی مل سکے گا۔وہاںبغیر وردی کے ایک نوجوان گورکھا فوجی ڈیوٹی دے رہا تھا۔ اس مقام پر کہیں پینے کو پانی بھی میسر نہیں ہے۔مظفر آباد کے ایک صاحب اپنے تجربے کی بنیاد پر پراٹھے ،روسٹ مرغ ساتھ لائے تھے اور اپنی فیملی کے ساتھ بس میں طعام سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ بھوک کے اس عالم میں یہ احساس بھی ہوا کہ یہاں کا انتظام بھارت کے ہاتھ میں ہے کشمیریوں کے ہاتھ میں نہیں،اپنے گھر آنے والے کو بھوکا رکھنا کشمیریوں کی مہمان نوازی کی روایات کے خلاف ہے۔
 

image

ویٹننگ روم میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے کہ کمرے میں چند باوردی فوجی اور سول کپڑوں میں ملبوس چند دوسرے افراد بھی ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ان سے بات چیت ہوئی تو ان میں سے ایک نے کہا کہ شیو سینا قسم کے لوگوں کو بھارت میں کوئی پسند نہیں کرتا،مذہب کی بات کرنے والے کو بھارت میں پاگل کہاجاتا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اتنے اختلافات نہیں ہیں جتنی دشمنی یورپی ممالک کے درمیان تھی،پہلی عالمی جنگ میں کروڑوں افراد ہلاک ہوئے،دوسری جنگ میں پانچ چھ کروڑ افراد مارے گئے،یورپ تباہ ہو کر ملبے کا ڈھیر بن گیا،تب انہیں احساس ہوا کہ یہ ” اپروچ“ درست نہیں ہے،آج اس کے نتیجے میں یورپ دنیا کا خوشحال ترین خطہ ہے اور کسی بھی یورپی ملک کا شہری بغیر کسی رکاوٹ کے پورے یورپ میں اپنے ملک کی طرح جا سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں جنوبی ایشیا میںانسانوں کو جانوروں کی طرح خار دار تاروں،رکاوٹوں کی باڑوں میں جانوروں کی طرح قید رکھا گیا ہے۔

آخر آزاد کشمیر سے آنے والے 17کشمیری دو کوسٹر نما بسوں میں سوار ہوئے،گورکھا فوجیوں نے بس میں سوار پار سے آئے افراد کی بار بار گنتی کی۔دونوں بسوں میں سی آر پی ایف کے مسلح اہلکار بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ہمارے قافلے میںہمارا سامان لئے ٹرک،دو بسیں،سامنے پولیس کی جیپ اور فوج کی ایک گاڑی شامل تھی۔بھارتی فوج کی کمان پوسٹ کا گیٹ کھلا اور ہماری گاڑیوں کا قافلہ سرینگر کی جانب روانہ ہوا۔چند فرلانگ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک فوجی چیک پوسٹ پر گاڑیوں کو روکا گیا اور مسافروں کی ایک بار پھر گنتی کی گئی۔کمان پوسٹ سے روانہ ہونے کے بعد چند کلومیٹر کے اندر چار بار چیک پوسٹوں پر گاڑیاں روک کر مسافروں کی گنتی کر کے بھارتی فوجیوں نے اپنی کاپیوں پر تحریر کیا۔بھارتی فوج کی بھاری تعداد میں موجودگی کا احساس کمان پل عبور کرتے ہی ہو جاتا ہے۔ میں ارد گرد کے علاقے کو محویت سے دیکھ رہا تھا۔کمان پوسٹ کے علاقے سے نکل کر پہلی دکان بائیں ہاتھ پہ نظر آئی جس پر بشیر عباسی جنرل سٹور لکھا ہوا تھا۔’ایل او سی‘ عبور کر کے پہلا گاﺅں اڈوسہ آتا ہے۔لال پل عبور کرنے کے بعد سلام آباد کا قصبہ آتا ہے جہاں مسافر اتر سکتے ہیں۔یہاں ہماری گاڑیوں کا قافلہ پندرہ بیس منٹ رکا رہا۔کم نظر والے بزرگ نے یہیں اترنا تھا،میں نے بس سے باہر نظر ڈالی تو دیکھا وہ بزرگ پچیس تیس افراد میں گھرے کھڑے تھے،جو تین چار سومو گاڑیوں میں انہیں لینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔اس بزرگ کے چہرے کی خوشی اوراطمینان سے مجھے بھی تسلی ہوئی۔اتنے میں ایک مسافر نے اپنے بچے کے لئے کیلے خریدنے کے لئے بس سے اترنا چاہا تو اسے روک دیا گیا۔بس میں سوار ایک ’سی آر پی ‘کے اہلکار کو کیلے لینے بھیجا گیا۔سی آر پی ایف کا ایک مسلح اہلکار میرے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔سانولے رنگ کے اس اہلکار نے اپنا تعلق دہلی سے بتایا اور کہا کہ اس کی دو نو عمر بیٹیاں ہیں۔تھوڑی دیر کے بعد اوڑی کا قصبہ آیا۔اس کے بعد مہرہ،رام پور،بونیار،ژہل،گٹ مولہ،شیری اور پھر بارہمولہ۔تمام راستے میں منتظر رہا کہ کب فوجی تنصیبات ختم ہوں گی لیکن فوجی عمارات کا سلسلہ مسلسل بارہمولہ تک جاری رہا،سڑک کے دونوں جانب بارہمولہ تک یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہاں فقط فوج ہی بستی ہے۔اوڑی میں ساڑھے چار سو ،ساڑھے چار سو میگا واٹ کے دو راجیکٹ ہیں ،جس کے سیکنڈ فیز پہ کام جاری ہے۔مہرہ میں لوئر جہلم پر بیس میگاواٹ کے ایک اور پراجیکٹ پر کام جاری ہے۔اوڑی کے پاور سٹیشن 1بونیار کے مقام پر دریائے جہلم کا پانی ایک پہاڑی سرنگ(ٹنل) میں داخل ہوتا ہے اور اوڑی کے قریب بانڈی کے مقام پر جہلم کا پانی واپس اصل راستے پہ واپس آ جاتا ہے۔سلام آباد میں سیکنڈ فیز کا کام جاری ہے۔یہاں سے دریا کو ایک ٹنل میںڈال کر اس کا پانی لال پل کے قریب اڈوسہ کے مقام پر دریا میں ڈالا جائے گا۔سرینگر،مظفر آباد بس سروس شروع ہونے سے پہلے کسی کو بھی لال پل سے آگے جانے کی اجازت نہ تھی۔خصوصی شناختی کارڈ رکھنے والی مقامی آبادی کو بھی گھنٹوں روک کر پوچھ گچھ کی جاتی تھی۔بانڈی پورہ سے آگے کشن گنگا(نیلم) دریا پہ بھی ایسا ہی منصوبہ جاری ہے جس کے فیز ون پہ کام جاری ہے۔

باقی آئندہ قسط میں
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613871 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More