یو شٹ اپ

پاکستانیوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ انہوں نے آزادی کے جس مقصد کےلئے بے پناہ قربانیاں دیں وہ قربانیاں بھی انہیں آزادی کی حقیقی روح سے روشناس نہ کرا سکیں۔ وہ65سال گزرنے پر بھی ذہنی جسمانی اور فکری طورپرغلام ابن غلام ہیں۔ دستور زباں بندی کی ہر شق کا ان پر پورے طورسے اطلاق کیا جاتا ہے۔ خاندان غلاماں سے تعلق رکھنے ‘ انگریز کے تلوے چاٹنے اور فرنگی کے کتے نہلانے کے صلے کے طورپر جاگیر یں پانے والے قربانیاں دینے والوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ اپنے آقاﺅں کے در پر جبین نیاز جھکانے اور ان کے ہر حکم پر ہاتھ باندھ کر ”یس سر“ کہتے ہوئے کورنش بجا لانے والوں کو جب اپنی چالبازیوں ‘ فریب کاریوں اور دھوکہ دہی میں مہارت کے باعث اقتدار کے ایوانوں میں آنے کا موقع ملا تو انہوں نے عوام کی خدمت کرنے کے بجائے حاکم اور رعایا کے فرق کو بڑھاتے ہوئے انہیں اسی طرح اپنا غلام سمجھنا شروع کردیا جس طرح وہ انگریز کی غلامی اور کاسہ لیسی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنی قوم کے مفادات سے کھیلتے رہے ‘ عوام کی خدمت کے منصب پر جائز و ناجائز طریقے سے فائز ہونے والے خواہ اقتدار سے بے دخل ہی کیوں نہ کر دئیے جائیں ‘ ان کے غرور ‘ تکبر ‘ رعونت مےں کوئی کمی نہےں آتی اور گردن میں پھنسا ہوا سریا ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ وہ احتساب بیورو میں کرپشن کے الزامات و سکینڈلز کے باعث جوابدہی و تفتیش کے لئے ہی کیوں نہ پیش نہ ہوں۔ خود کو بد ستور حکمران اور جوابدہی سے مبرا سمجھتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اشرف قاضی جو سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں مگر آمر مطلق کی نوازشات کی بدولت وفاقی وزیر ریلوے اور وزیر تعلیم کے اہم مناصب پر فائز رہے ہیں۔ موصوف گزشتہ روز جب نیب کے سامنے ریلوے اراضی سکینڈل کے سلسلے میں حاضر ہوئے تو واپسی پر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ ” آپ پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اس پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟“ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال کا جواب دیا جاتا سابق جرنیل اور وزیر نے مذکورہ صحافی کو ” شٹ اپ“ کہتے ہوئے “ ایڈیٹ“ کے لقب سے بھی نواز دیا۔ ”باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا“ جو شخص عدالت کے باہر اپنی زبان کوبے لگام ہو نے سے نہیں روک سکتا وہ اپنے ماتحتوں سے کیا سلوک کرتا ہوگا؟ کیا متذکرہ سوال کے جواب میں زبان طعن دراز کرنے کی کوئی توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے؟ حیرت و المیہ یہ ہے کہ اپنے طرز عمل پہ معذرت کرنا تو درکنار نادم ہونا بھی ضروری خیال نہیں کیا گیا ‘ طبع کی نزاکت کا یہ عالم ہے کہ درست تناظر اور پیرائے میں کی جانے والی بات بھی گراں گزرتی ہے پھر آگ بگولہ ہو کر آپے سے باہر ہونے میں لحظہ بھر کی تاخیر نہیں کی جاتی‘ مزاج کے برعکس بات کرنے والے کو خونخوار نظروں سے گھورا جاتا ہے مگر لڑکھڑاتی و بل کھاتی گز گز بھر کی زبانوں ‘ بہکتے قدوم اور لغزشوں کی زنبیل کے بوجھ تلے دبے ان عناصر سے کوئی باز پرس کی جرات نہیں کرتا۔ عربی کا مقولہ ہے”زبان کا چمڑا چھوٹا لیکن اس کا جرم بڑا ہے“ لیکن ان زبانوں کے جرم کی گرفت صحافت ‘ سیاست اور عدالت کے بس میں ہی نہیں۔ یہ ہر بات پر ”توکیا ہے “کہنے کے باوجود تہذیب و شائستگی کے پروردہ تصور کیے جاتے ہیں۔ جنہیں شٹ اپ اور ایڈیٹ کہا جانا چاہیے وہ ایڈیٹ ‘ شٹ اپ کہنے لگے ہیں۔ گندے انڈے تو دکاندار بھی اپنی اپنی ٹوکری سے نکال باہر پھینکتا ہے۔ ہم کیوں ان سے اٹھنے والے تعفن کے باوجود انہیں باہر گلی میں پھینکنے پر آمادہ نہیں ۔ مجنوں ‘ دیوانے اور مجذوب کے خلاف قانون کا حرکت میں نہ آنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن بقائمی ہوش و حواس برسر عام تذلیل کرنے والوں کے خلاف قانون نے کیوں آنکھیں موندرکھی ہیں۔ ممکن ہے قانون اس حقیقت سے آشنا ہو کہ جو وزیر تعلیم ہونے کے باوجود ےہ کہتا رہا ہو کہ قرآن مجید کے40پارے ہیں اسے اس کی ناقص معلومات کی بدولت کچھ رعائت تو ملنی ہی چاہیے۔ شٹ اپ ‘ ایڈیٹ کے معنی و مفہوم سے ناآشنا اگر انگریزی جھاڑنے کے شوق میں یہ لفظ ادا کر بیٹھے ہیں تو انہیں قصوروار کس طرح گردانا جاسکتا ہے۔جرنیل موصوف نے اپنی طرف سے صحافی کے ساتھ خاصی رعایت برتی اور بات ادھوری چھوڑ دی ،ورنہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے ،شٹ اپ،ایڈیٹ،بلڈی سویلین۔
Qamar Ghaznavi
About the Author: Qamar Ghaznavi Read More Articles by Qamar Ghaznavi: 9 Articles with 5772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.