تمباکو اور اصغر خان کیس

بادشاہ ناصر الدین نے ایرانی تخت کو 1848میں سنبھالا اور وہ مکمل طور پر ایک عیاش، ظالم اور جابر حکمران سمجھا جاتا تھا‘ اس کی سب سے بڑی خامی عالمی طاقتوں جن میں برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہیں کے مفادات کی خاطر ایرانی قوم کے مفادات کو قربان کرنا تھا‘اس نے ان ممالک کی سرمایہ دار کمپنیوں کو ان کی مرضی کی شرائط پر ایران میں سرمایہ داری کی اجازت دے دی اور یہ سلسلہ انقلابِ ایران تک جاری رہا‘ 1890میں اس نے ایک انگریز، میجر جی ایف ٹالبوٹ (G.F.Talbot) کو ایران میں تمباکو کی کاشت اور خرید و فروخت کی اجازت دیتے ہوئے پچاس سال کامعاہدہ کر لیا‘جس کے عوض کمپنی ہر سال شاہ کو پندرہ ہزار پاونڈ ادا کرنے کی پابند تھی‘ ان دنوں میں ایرانی تمباکو کی مانگ نہ صرف ایران بلکہ ایران سے باہر بھی بہت زیادہ تھی‘ اس معائدے سے نہ صرف ایران کے مقامی تاجروں اور کاشت کاروں کا استحصال ہوا بلکہ ایران کی اقتصادیات میں انگریزوں کا اثرورسوخ مذید بڑھ گیا‘اس معاہدے کا طے پانا تھا کہ عوام کا غم و غصہ بڑھنے لگا‘ ایرانی مجتہد مرزا حسن شیرازی نے اس صورتحال کو دیکھ کر فتوی جاری کرتے ہوئے تمباکو کی کاشت ،اسکی خرید و فروخت اور حقہ پیناسب حرام قرار دے دیا‘ اس فتوے کے بعد ایرانی عوام شاہ کے خلاف اور مجتہدین کے ساتھ یکجا ہو گئی‘ملک میں مظاہرے پھوٹ پڑے‘ لوگوں نے حقہ پینا ترک کر دیا‘ جن کسانوں نے تمباکو کاشت کیا ہواتھا انہوں نے اپنی تیار فصل اکھاڑ پھینکی ‘ یہاں تک کہ اگلے روز جب ناصر الدین شاہ نے اپنے لئے حقہ طلب کیا تو شاہی ملازموں نے حقہ پیش کرنے سے انکار کر دیا‘شاہی خاندان کی خواتین تک نے حقے کا استعمال ترک کر دیا اور یوں جو فتوی مجتہدین نے دیا تھا ایرانی عوام کے احتجاج نے شاہ کو اس پر عمل کرنے پر مجبور کر دیا۔

نوے سالہ اصغر خان نے سولہ جون انیس سو چھیانوے کو سپریم کورٹ میں ایک کیس دائر کیا تھا‘انہوں نے سولہ سالوں میں سپریم کورٹ کے ججز سمیت متعدد شخصیات کو درجنوں خطوط لکھے تا کہ اس کیس کو اوپن کیا جائے‘ اصغر خان صاحب نے دو ہزار سات میں افتخار چوہدری صاحب کو بھی خط میں التجا کی تھی کہ میری عمر چھیاسی سال ہو گئی ہے اور میری دیرینہ خواہش ہے کہ اس کیس کا فیصلہ میری زندگی میں ہی سنایا جائے‘ بالآخر اب اس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے سنا دیا ہے‘ جس کے مطابق سابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو آلودہ کرنے کا ذمہ دار ٹھراتے ہوئے وفاقی حکومت کو ان سمیت تمام ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے‘ سپریم کورٹ کا اصغر خان کیس پر آنے والافیصلہ ہماری پینسٹھ سالہ عدالتی تاریخ کے چند تاریخی فیصلوں میں سے ایک ہے۔

فیصلہ تو آ گیا لیکن یہ ثابت ہونا ابھی باقی ہے کہ کون کس کے ہاتھ کی چھڑی اور کس کے جیب کی گھڑی رہا ہے‘ پیپلز پارٹی اس سارے معاملے میں خود کو متاثرہ فریق کہتی ہے‘ جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں پیسے نہ لینے کا بیان حلفی جمع کروا دیا‘ ایم کیو ایم کی قیادت ملک سے باہر ہے ‘ اس وقت کے وزیر اعلی سندھ جام صادق علی، غلام مصطفی جتوئی، محمد خان جونیجو، یوسف ہارون اور سردار فاروق لغاری سمیت بہت سی دیگر شخصیات اب حیات نہیں ہیں‘ لہذااب گیند مسلم لیگ ن کے کورٹ میں ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی جے آئی کے سربراہ نواز شریف صاحب نہیں بلکہ غلام مصطفی جتوئی تھے‘ لیکن فائدہ اٹھانے والوں میں سے مسلم لیگ ن کی موجودہ قیادت سمیت ماضی میں ان سے وابستہ بہت سی شخصیات کے نام شامل ہیں۔آئی جے آئی فنڈ کیلئے مختص چودہ کروڑ میں سے دس لاکھ لینے کا اعتراف بیگم عابدہ حسین نے کر لیا ہے، آ ٹھ کروڑ آئی ایس آئی کے خفیہ فنڈ میں واپس جمع کروا دیئے گئے لہذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی پانچ کروڑ نوے لاکھ کی رقم کس کی جیب میں گئی ‘ اسد درانی، جنرل اسلم بیگ اور سابق سربراہ ایم آئی حامد سعید نے رقوم بانٹنے کا اعتراف عدالت میں کر لیا تو پھر اب حکومت کو تحقیق و تفتیش کی ذمہ داری پوری کرنے میں کیا رکاوٹ پیش آ رہی ہے؟۔عمران خان صاحب نے بھی لقمہ دے دیا کہ ہمیں ایجنسیوں کی پیداوار کہنے والے عدالتی فیصلے کے بعد خود ایجنسیوں کی پیداوارثابت ہو رہے ہیں۔

جو لوگ عدالتی فیصلوں کو تاریخ ساز کہتے ہیں مجھے ان سے معمولی سا اختلاف ہے کیونکہ عدالتی فیصلے صرف تاریخ سازی کا راستہ دکھاتے ہیں مگر تاریخ لکھی ان فیصلوں پر عمل سے جاتی ہے‘ کمال عدالتوں کے دبنگ فیصلوں میں نہیں ہوتا بلکہ کمال ان فیصلوں پر من و عن عمل کرنے میں ہوتا ہے‘ اگر حکومت اور انتظامیہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میںکوتاہی یا تاخیر کریںتو ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پر امن احتجاج کے ذریعے عدالتوں کے فیصلوں پرعمل کروائیں ‘ اگر حکومت پھر بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو عوام کو چاہیے کہ ا نتخابات کے ذریعے حکومت کا کڑا احتساب کریں اور تمام سیاسی جماعتوں کو سخت پیغام دیں کہ آپ نے ملک دو لخت کردیا مگرہم برداشت کر گئے‘ آپ نے ملکی سیاست کو پراگندہ اور آلودہ کر دیا مگر ہم برداشت کرتے رہے‘ آپ نے کرپشن، لوٹ مار، بد دیانتی اور قانون کی پائمالی کے اندوہناک واقعات رقم کئے مگر ہم دیکھتے رہے‘ آپ جھونپڑیوں سے نکلے اور محلات تک پہنچ گئے مگر عوام کو محلات سے جھونپڑیوں میں پہنچا دیا ہم نے نظر انداز کر دیا‘ آپ نے فوجی ڈکٹیٹرز کو خوش آمدید کہا اور ملک آپ کے ذاتی مفادات کی تجربہ گاہ بنا رہا مگر ہم خاموش رہے‘ سینتالیس سے آج تک تین نسلیں روشن مستقبل کی امید لئے دنیا سے چلی گئیں لیکن ووٹ ہم نے آپ کو ہی دیئے‘ ہم نے آپ کو ایک بار نہیں بار بار منتخب کیا لیکن اب کی بار ایسا نہیں ہو گا‘ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن اپنی عدالتوں کی تذلیل نہیں ‘ اگر کسی نے بھی اس فیصلے کی عملداری میں رکاوٹ یا بد نیتی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو جیسے ناصرالدین شاہ کے حرم سمیت ایک عام ایرانی تک سب اپنے مجتہد کے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے تو ہم بھی اپنی عدالتوں کے فیصلوں کے ساتھ ہوں گے‘ ہم ایرانیوں کے تمباکو کی طرح سب کچھ اکھاڑ دیں گے‘ ہم اپنی عدالتوں کے لئے کسی بھی شاہ اور شاہ پرست سے ٹکرا جائیں گے‘ کیونکہ ہم عوام ہیں اور عدالتیں ہمارے ماتھے کا جھومر!
Ameer Abbas
About the Author: Ameer Abbas Read More Articles by Ameer Abbas: 18 Articles with 16307 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.