بسنت محض موسمی تہوار نہیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مذہب اور ثقافت ایک دوسرے پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے اثر پذیر بھی۔ ہمارے ہاں عام طور پر مذہب اور ثقافت کو دو الگ الگ تہذیبی دائروں کے طور پر زیربحث لایا جاتا ہے، یہ زاویہٴ نگاہ قطعاً درست نہیں۔ سیکولر طبقہ اپنے مذہب بیزار رویے کی وجہ سے ثقافتی اُمور میں مذہب کے کردار کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، لہٰذا جہاں کہیں مذہب اور ثقافت کے درمیان رشتوں کی بات ہوتی ہے، وہ ہمیشہ مذہب کی تخویف اور ثقافت کی تعریف و توصیف کا اُسلوب اختیار کرلیتا ہے۔ یہ طبقہ تنافض فکر میں مبتلا ہے۔اسے مذہب سے والہانہ وابستگی تو سخت ناگوار گذرتی ہے، مگر ثقافت سے جنون کی حد تک لگاؤ پر کسی قسم کا عقلی اعتراض نہیں ہوتا۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ سیکولر طبقہ نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ثقافت کو ہی ’مذہب‘ کا درجہ دے دیا ہے۔ ہمارے ہاں مغرب زدہ روشن خیالوں کا ایک گروہ ثقافت کو تو قدیم اور پائیدار سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ایک قوم پر ثقافت کے اثرات اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ مذہب انہیں جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، مگر ایسا محض وہی لوگ سوچتے ہیں جو انسانی تاریخ کے ارتقا کو سطحی انداز سے لیتے ہیں۔ اگر وہ تہذیب و تمدن کے آغاز و ارتقا پر غور فرمائیں تو انہیں اپنی اس سطحی سوچ پر شاید ندامت کا احساس ہو کیونکہ جن اَقدار اور سرگرمیوں کو آج وہ خالصتاً ثقافتی اور تہذیبی اَقدار سمجھتے ہیں، ان کا حقیقی پس منظر مذہبی ہی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ کے دورِ اوّل میں مذہب کا انسانی معاشرے پر بہت گہرا اثر رہا ہے۔ اس دور میں مذہبی اور الہامی تعلیمات کے خلاف عقلی بغاوت کا تصور تک نہیں تھا، اس لئے قدیم انسانی معاشرے میں کسی ایسے تہوار یا ثقافتی سرگرمی کا رواج پانا ممکن نہیں تھا جس کی تائید مذہبی تعلیمات سے نہ ہوتی تھی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کرہٴ ارض پر قدم رکھنے والا پہلا انسان خدا تعالیٰ کا فرستادہ پیغمبر تھا یعنی حضرت آدم علیہ السلام۔ اس کے بعد انبیاء کرام کا ایک طویل سلسلہ ہے جو وقتا ً فوقتا ً مبعوث ہوتے رہے۔ انبیاءِ کرام کے زیر اثر جو تہذیب و تمدن فروغ پایا، اس کی اساس یقینا مذہبی ہی تھی۔ اگرچہ بعد میں مذہب سے جزوی روگردانی کی صورتیں بھی نمودار ہوئیں لیکن مذہب کی اساسی تعلیمات کا اثر کبھی بھی کلیة ً ختم نہیں ہوا۔ کسی ثقافتی سرگرمی کے صحیح یا غلط، جائز یا ناجائز قرار دینے میں ہمیشہ مذہب کو معیار اور میزان تسلیم کیا گیا۔ایسی ثقافتی سرگرمیاں جومذہب کے اَساسی تصورات سے متصادم نہیں تھیں، انہیں بالعموم جائز قرار دیا گیا، اس کے برعکس مذہبی روح سے ٹکرانے والی اَقدار اور سرگرمیوں کو ناپسندیدہ قرار دے کر لہو و لعب گردانا گیا۔ ثقافت اور مذہب کے باہمی رشتوں کی موزونیت کا تعین کرنے کے لئے آج بھی قابل اعتماد معیار وہی ہے، اس معیار اور میزان کو قائم رکھنے سے ہی معاشرے کا توازن قائم رکھا جاسکتا ہے!!

اقوامِ عالم کے معروف ترین تہواروں کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک مخصوص پس منظر رکھتے ہیں۔ یہودیوں کا سب سے بڑا تہوار’ھنوکا‘ ایک مذہبی تہوار ہے۔ اَعدادوشمار کے اعتبار سے عیسائیت کو دنیا کا سب سے بڑا مذہب سمجھا جاتا ہے، عیسائی معاشرے میں کرسمس اور ایسٹر بے حد جوش وخروش سے منائے جاتے ہیں۔ ہندومت کا شمار قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے۔ ہندو معاشرے میں مختلف تہوار منائے جاتے ہیں۔ مثلاً دیوالی، دسہرا، ہولی، بیساکھی، بسنت وغیرہ۔ ان تمام تہواروں میں اد ا کی جانے والی رسومات کو ہندومت میں ’مذہبی عبادات‘ کا درجہ حاصل ہے۔ دیوالی، دسہرا اور ہولی کے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ یہ ہندوؤں کے مذہبی تہوار ہیں، مگر بیساکھی اور بسنت وغیرہ کے متعلق یہ غلط فہمی عام پائی جاتی ہے کہ یہ موسمی اور ثقافتی تہوار ہیں۔ ایسا صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں جو ان تہواروں میں حصہ تو لیتے ہیں، البتہ ان کا پس منظر جاننے کی زحمت انہوں نے کبھی گوارا نہیں کی۔

اسلامی تاریخ کے قابل فخر محقق اور سائنسدان علامہ ابوریحان البیرونی تقریباً ایک ہزار سال قبل ہندوستان تشریف لائے تھے۔ انہوں نے کلرکہار (ضلع چکوال) کے نزدیک ہندوؤں کی معروف یونیورسٹی میں عرصہٴ دراز تک قیام کیا، وہیں انہوں نے اپنی شہرئہ آفاق تصنیف ’کتاب الہند‘ تحریر کی۔ یہ کتاب آج بھی ہندوستان کی تاریخ کے ضمن میں ایک مستند حوالہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب کے باب ۷۶ میں انہوں نے ”عیدین اور خوشی کے دن“ کے عنوان کے تحت ہندوستان میں منائے جانے والے مختلف مذہبی تہواروں کا ذکر کیا ہے۔ اس باب میں عید ’بسنت‘ کا ذکر کرتے ہوئے علامہ البیرونی لکھتے ہیں :

” اسی مہینہ میں استوائے ربیعی ہوتا ہے، جس کا نام بسنت ہے، اس کے حساب سے اس وقت کا پتہ لگا کر اس دن عید کرتے ہیں اور برہمنوں کو کھلاتے ہیں، دیوتاؤں کی نذر چڑھاتے ہیں“۔

بسنت کو آج کل ”پالا اُڑنت“ کا نام دے کر موسمی تہوار بتایا جاتا ہے مگر اس کا ذکر البیرونی کے بیان میں نہیں ملتا۔ دوسرے یہ کہ البیرونی کے بیان کے مطابق ہندو جوتشی ہر سال استوائے ربیعی کا تعین کرکے ’یومِ بسنت‘ کا اعلان کرتے ہیں، یہی تصور آج تک چلا آرہا ہے۔ بیساکھی کا تہوار بیساکھ کے مہینے میں گندم کی کاشت کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بھی ایک ثقافتی تہوار ہے مگر اس موقع پر ہندو کاشتکار برہمنوں کو گندم کے نذرانے دیتے ہیں اور دیوتاؤں سے گندم کی فصل کے زیادہ ہونے کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ چونکہ ہندومت کے بارے میں عام لوگوں کو بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں، اسی لئے ہندوؤں کے تہواروں کے مذہبی پس منظر کا انہیں علم نہیں ہے۔ یہ بھی جہالت ِجدیدہ کی ایک صورت ہے کہ کسی چیز کے بارے میں علم نہ ہونے کے باوجود اس کے متعلق قطعی رائے کا اظہار کردیا جاتا ہے۔ جو لوگ بسنت کو محض موسمی اور ثقافتی تہوار کہنے پراِصرار کرتے ہیں، وہ بھی اسی لاعلمی کا شکار ہیں۔ وہ جان بوجھ کر اس ’لاعلمی‘ کا شکار رہنا چاہتے ہیں، تو یہ ان کا اپنا انتخاب ہے، مگر انہیں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے!!

آج کل بسنت اور پتنگ بازی کو لازم و ملزوم تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ قدیم تاریخ میں بسنت کے تہوار کے ساتھ پتنگ بازی کا ذکر نہیں ملتا۔ آج جس انداز میں بسنت منانے کا مطلب ہی پتنگ بازی لیا جاتا ہے، یہ تصور بہت زیادہ پرانا نہیں ہے۔ مزید برآں بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کا شغل بھی لاہور اور اس کے گردونواح میں برپا کیا جاتا ہے، اس کا اہتمام ہندوستان یا پنجاب کے دیگر علاقوں میں اس انداز سے نہیں کیا جاتا۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے پنجاب کے قدیم ترین شہر ملتان میں بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کا تصور تک نہیں تھا۔ یہی صورت بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، راولپنڈی اور سرگودھا جیسے بڑے شہروں کی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر لاہور میں بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کا شغل اس قدر جوش و خروش سے کیوں برپا کیا جاتا ہے؟ تاریخ اور مذہب کے آئینے میں جھانک کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔

اگر بسنت محض موسمی تہوار ہوتا تو یہ صرف لاہور ہی نہیں، پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی اتنا ہی مقبول ہوتا۔ اندرونِ سندھ میں جہاں اب بھی ہندوؤں کی کثیر تعداد رہائش پذیر ہے، وہاں پتنگ بازی یا بسنت کی وہ ہنگامہ آرائی نظر نہیں آتی جس کا مظاہرہ لاہور یا اس کے گردونواح میں کیا جاتاہے۔ایسی صورتحال بلاوجہ نہیں ہے۔ اس کا ایک مخصوص تاریخی پس منظر ہے۔ روزنامہ نوائے وقت میں بسنت کے بارے میں تجزیاتی رپورٹ شائع ہوئی، اس کے متعلقہ حصے ملاحظہ فرمائیے:

”بسنت خالص ہندو تہوار ہے اور اس کا موسم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں بسنت کی کہانی ہر سکول میں پڑھائی جاتی ہے لیکن لاعلمی یا بھارتی لابی کی کوششوں سے بسنت کو اب پاکستان میں مسلمانوں نے موسمی تہوار بنا لیا ہے۔ بسنت کی حقیقت کیا ہے اور اس کا آغاز کیسے ہوا، اس بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قریباً دو سو برس قبل لاہور کے ایک ہندو طالب علم حقیقت رائے نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف دشنام طرازی کی۔ مغل دور تھا اورقاضی نے ہندو طالب علم کو سزائے موت سنا دی۔ اس ہندو طالب علم کو کہا گیا کہ وہ اسلام قبول کرلے تو اسے آزاد کردیا جائے گا مگر اس نے اپنا دھرم چھوڑنے سے انکار کردیا۔ چونکہ اس نے اقرارِ جرم کر لیا تھا، لہٰذا اسے پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی لاہور میں علاقہ گھوڑے شاہ میں سکھ نیشنل کالج کی گراؤنڈ میں دی گئی۔ قیام پاکستان سے پہلے ہندوؤں نے اس جگہ یادگار کے طور پر ایک مندر بھی تعمیر کیا لیکن یہ مندر آباد نہ ہوسکا اور قیامِ پاکستان کے چند برس بعد سکھ نیشنل کالج کے آثار بھی مٹ گئے۔ اب یہ جگہ انجینئرنگ یونیورسٹی کا حصہ بن چکی ہے۔ ہندوؤں نے اس واقعہ کو تاریخ بنانے کے لئے، اپنے اس ہندو طالب علم کی ’قربانی‘کو بسنت کا نام دیا اور جشن کے طور پر پتنگ اُڑانے شروع کردیئے۔ آہستہ آہستہ یہ پتنگ بازی لاہور کے علاوہ انڈیا کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی۔ اب ہندو تو اس بسنت کی بنیاد کو بھی بھول چکے مگر پاکستان میں مسلمان بسنت منا کر اِسلام کی رسوائی کا اہتمام کرتے رہتے ہیں“ (روزنامہ نوائے وقت،۴ فروری ۱۹۹۴ء)

ہندو نوجوان حقیقت رائے دھرمی کو توہین رسالت کے جرم میں سن ۱۸۰۳ء بکرمی بمطابق ۱۷۴۷ عیسوی میں موت کی سزا دی گئی۔ اس وقت پنجاب کا گورنر زکریا خان تھا۔ زکریا خان ایک صحیح العقیدہ غیور مسلمان تھا۔ وہ جدید دور کے مسلمان حکمرانوں کی طرح بے حمیت نہیں تھا، اس نے توہین رسالت کے مجرم ہندو نوجوان کی موت کی سزا معاف کرنے سے قطعاً انکار کردیا۔ ہندوؤں نے حقیقت رائے دھرمی کو ’ہیرو‘ کا درجہ دے دیا اور ا س کی یاد میں ’بسنت میلہ‘ منانا شروع کردیا۔ چونکہ حقیقت رائے کی شادی ایک سکھ لڑکی سے ہوئی تھی اس لئے سکھ برادری بھی ہندوؤں کے اس ’غم‘ میں برابر کی شریک تھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو ستان میں ’بسنت‘ منانے کا تصور زمانہ قدیم سے تھا مگر پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص اس تہوار کو عوامی پذیرائی اس میلے کی وجہ سے حاصل ہوئی جس کا آغاز ہندوؤں نے حقیقت رائے دھرمی کی یاد میں کیا۔ اس بات کا اعتراف متعصّب ہندو و سکھ موٴرخین بھی کرتے ہیں۔ ایک ہندو موٴرخ ڈاکٹر بی ایس نجار (Dr. B.S. Nijjar) نے اپنی کتاب "Punjab under the later Mughals" میں حقیقت رائے کو دی جانے والی سزا کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

”حقیقت رائے باگھ مل پوری، سیالکوٹ کے کھتری کا پندرہ سالہ لڑکا تھا جس کی شادی بٹالہ کے کشن سنگھ بھٹہ نامی سکھ کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی۔ حقیقت رائے کو مسلمانوں کے سکول میں داخل کیا گیا تھا جہاں ایک مسلمان ٹیچر نے ہندو دیوتاؤں کے بارے میں کچھ توہین آمیز باتیں کیں۔ حقیت رائے نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اس نے بھی انتقاماً پیغمبر اسلام ا اور سیدہ فاطمة الزہرا کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کر کے عدالتی کارروائی کے لئے لاہور بھیجا گیا۔ اس واقعہ سے پنجاب کی ساری غیر مسلم آبادی کو شدید دھچکا لگا۔ کچھ ہندو افسر زکریا خان جو اس وقت گورنر لاہور تھا، کے پاس پہنچے تاکہ حقیقت رائے کو معاف کردیا جائے لیکن زکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پر نظرثانی سے انکار کردیا جس کے اجرا میں پہلے مجرم کو ایک ستون سے باندھ کر اسے کوڑوں کی سزا دی گئی۔ اس کے بعد اس کی گردن اُڑا دی گئی۔ یہ سال ۱۷۳۴ء کا واقعہ ہے جس پر پنجاب کی تمام غیر مسلم آبادی نوحہ کناں رہی۔ لیکن خالصہ کمیونٹی نے آخر کار اس کا انتقام مسلمانوں سے لیا اور سکھوں نے ان تمام لوگوں کو جو اس واقعہ سے متعلق تھے، انتہائی بے دردی سے قتل کردیا“ اسی کتاب کے صفحہ ۲۷۹ پرڈاکٹر ایس بی نجار نے تحریر کیا ہے کہ ”پنجاب میں بسنت کامیلہ اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے“!

ہندو موٴرخ ڈاکٹرنجار کی یہ بات تو محل نظر ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ سے ”پنجاب کی ساری غیر مسلم آبادی کو شدید دھچکا لگا“ کیونکہ آج سے دو سوسال قبل ذرائع اِبلاغ اس قدر تیز نہیں تھے کہ ایسے واقعہ کی اطلاع صدر مقام سے دور کے علاقوں تک بھی پہنچ سکے، البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ لاہور کے ہندوؤں کے ایک گروہ نے اس واقعہ کے خلاف شدید جذباتی ردّعمل کا اظہار کیا۔ کیونکہ اس وقت پنجاب میں مسلمانوں کی حکومت تھی، طبعاً بزدل مزاج ہندوؤں کے لئے یہ توممکن نہ تھا کہ وہ بھرپور تحریک چلاتے، البتہ انہوں نے حقیقت رائے کی یاد میں میلہ منانا شروع کردیا جو احتجاج کی ایک نرم مگر مؤثر صورت تھی۔ اس واقعہ کے تقریباً پچاس سال بعد پنجاب میں سکھوں نے مسلمانوں کو شکست دے کر تخت لاہور پر قبضہ کرلیا۔ سکھ تو پہلے ہی بہت جذباتی ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعہ کے ’ذمہ دار‘ مسلمانوں کو قتل کرچکے تھے۔ جب وہ پنجاب میں برسراقتدار آئے تو انہوں نے اس واقعہ کے حوالے سے بسنت کا تہوار جوش و خروش سے منانا شروع کردیا۔ ایک انگریز موٴرخ الیگزینڈر بریز جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں لاہور آئے تھے، انہوں نے یہاں بسنت منانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ”بسنت کا تہوار جو بہار کا تہوار تھا، ۶ فروری کو بڑی شان و شوکت سے منایا گیا۔ رنجیت سنگھ نے ہمیں اس تقریب میں مدعو کیا اور ہم اس کے ہمراہ ہاتھیوں پرسوار ہوکر اس میلہ کی بہار دیکھنے چلے جو بہار کا خیر مقدم کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ لاہور سے میلہ تک مہاراجہ کی فوج دو رویہ کھڑی ہوتی ہے۔ مہاراجہ گذرتے وقت اپنی فوج کی سلامی لیتا ہے۔ میلہ میں مہاراجہ کا شاہی خیمہ نصب تھا جس پر زرد رنگ کی ریشمی دھاریاں تھیں۔ خیمہ کے درمیان میں ایک شامیانہ تھا جس کی مالیت ایک لاکھ روپے تھی اور اس پر موتیوں اور جواہرات کی لڑیاں آویزاں تھیں۔ اس شامیانہ سے شاندار چیز کوئی نہیں ہوسکتی۔ مہاراجہ نے بیٹھ کر پہلے گرنتھ صاحب کا پاٹھ سنا، پھر گرنتھی کو تحائف دیئے اور مقدس کتاب کو دس جزدانوں میں بندکردیا۔ سب سے اوپر والا جزدان بسنتی مخمل کا تھا۔ اس کے بعد مہاراجہ کی خدمت میں پھل اور پھول پیش کئے گئے جن کا رنگ زرد تھا۔ بعد ازیں اُمراء، وزراء افسران آئے جنہوں نے زرد لباس پہن رکھے تھے، انہوں نے نذریں پیش کیں۔ اس کے بعد طوائفوں کے مجرے ہوئے، مہاراجہ نے دل کھول کر اِنعامات دیئے“ (نقوش، لاہور نمبر ص ۷۶۳)

انگریز موٴرخ الیگزینڈر کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بسنت بظاہر بہار کا خیر مقدم کرنے کے لئے منائی جاتی تھی مگر اس کی تقریبات پر مذہبی رنگ غالب تھا۔ مہاراجہ کا میلے میں باقاعدہ گرنتھ صاحب سننا اور گرنتھی کو تحائف دینا مذہبی رسومات کے زمرے میں آتا ہے۔ ہندو برہمنوں کو نذرانے دیتے ہیں تو سکھ گرنتھیوں کو تحائف دیتے ہیں۔ سکھ مذہب میں بسنتی یا زرد رنگ کو بھی ایک خاص تقدس کا مرتبہ حاصل ہے۔ اب بھی سکھ مذہبی راہنما زرد پگڑیاں پہنے نظر آتے ہیں۔

الیگزینڈر نے راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں جس بسنت میلہ میں شرکت کی، وہ ۶ فروری کو منعقد کیا گیا۔ ہندو موٴرخین نے حقیقت رائے دھرمی کی سزائے موت پر عملدرآمد کی تاریخ بسنت پنچمی بتائی ہے۔ عین ممکن ہے اس سال بسنت پنچمی اور ۶ فروری کی تاریخیں ایک ہی دن میں واقع ہوئی ہوں۔ لاہور میں ماضی قریب میں بسنت ۶ یا ۷ فروری کو منایا جاتا رہا ہے۔ ان تاریخوں کی مشابہت بھی حقیقت رائے کے میلہ کی بسنت میلے سے نسبت کوظاہر کرتی ہے۔

الیگزینڈر نے راجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے ۶ فروری کومنائے جانے والے میلے کو ’بہار کا خیر مقدم‘ کہا ہے، جو عقلی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ فروری کے پہلے ہفتہ میں اب بھی اچھی خاصی سردی پڑتی ہے، ماضی میں تو موسم کی شدت اور زیادہ تھی۔ موسم بہار کا آغاز فروری کے آخری ہفتے یا مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہوتا ہے۔ اگر یہ میلہ بہار کے استقبال میں منعقد کیا جاتا تو اسے سردیوں یا خزاں کے عین درمیان ہر گز منعقد نہ کیا جاتا۔ معلوم ہوتا ہے انگریز موٴرخ جو بسنت میلہ کے حقیقی پس منظر سے واقف نہیں تھا، کو غلط فہمی لاحق ہوئی ہے۔ سکھ دورِ حکومت میں ۶ فروری کو بسنت میلہ منانا ظاہرکرتا ہے کہ یہ سرکاری سطح پر حقیقت رائے کے میلے کا اِنعقاد ہی تھا۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چنددیگر ہندو وسکھ مصنّفین کی آراء بھی درج کردی جائیں جن کے خیال میں لاہور میں بسنت میلہ حقیقت رائے دھرمی کی یا دمیں منایا جاتا ہے۔ اورنٹیل کالج، لاہور کے سابق لیکچرر گیانی خزان سنگھ نے ”تاریخ گوردوارہ ،شہید گنج“ میں اس واقعہ کا ذکر بے حد جذباتی انداز میں یوں کیا ہے :
”تواریخ کے محقق اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بھائی حقیقت سنگھ جنہیں عام لوگ حقیقت رائے دھرمی کے نام سے یاد کرتے ہیں، امرت دھاری اور تیار برتیار سنگھ تھے۔ آپ کے ننھیال والے سکھ تھے اور موضع سوہدرہ، ضلع گوجرانوالہ میں رہتے تھے۔ آپ کے ماموں بھائی اَرجن سنگھ تیار برتیار سنگھ تھے جو کہ آ پ کے ساتھ ہی نخاس چوک میں شہید کردیئے گئے تھے۔ آپ کے سسرال بھائی کنشن سنگھ وڈالے والہ کے گھر تھے۔ لاہور میں اس جگہ (شہید گنج) پرآپ کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ ان کے بوڑھے پتا، ضعیف والدہ اور جوان بیوی کی آہیں اور فریادیں، پتھروں کو بھی موم کردینے والی چیخیں اورمنتیں بھی اس وقت کے حکام کے دل میں رحم اور ترس کے جذبات پیدا نہ کرسکیں اور آپ نہایت سکون کے ساتھ سن ۱۸۰۳ء بکرمی میں پنچمی کے دن دھرم کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ گئے۔ بسنت پنچمی کے روز آپ کی سمادھ پر بڑا بھاری میلہ لگتا ہے“

گیانی خزان سنگھ کی ’تحقیق‘ کے مطابق حقیقت رائے ہندو نہیں بلکہ ’سکھ‘ تھا۔ مندرجہ بالا سطور میں جن بے پایاں عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے، اس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ ہندو اور سکھ، مسلمانوں کے پیغمبر کے گستاخ حقیقت رائے کو وہی درجہ دیتے ہیں، جومسلمان غازی علم الدین شہید کو دیتے ہیں۔ سکھوں کی طرف سے ’بسنت میلہ‘ میں جوش و خروش کے اِظہار کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت رائے کو سکھ سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر سرگوکل چندنارنگ تقسیم ہند سے قبل حکومت ِپنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے وزیرتھے۔ وہ اپنی انگریزی تصنیف ”ٹرانسفرمیشن آف سکھ ازم“ میں بسنت میلے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”… فیصلہ سنا دیا گیا اور فوراً ہی لاہور کے عین مرکز میں تمام ہندو آبادی کی آہوں اور بددعاؤں میں شریف لڑکے کا سرقلم کردیا گیا۔ اس کی کریاکرم میں سب امیر وغریب شامل ہوئے اور اس کی راکھ لاہور کے مشرق میں چار میل دور دَبا دی گئی، جہاں اس کی یادگار ابھی تک قائم ہے جس پر ہر سال بسنت پنچمی کے روز جو اس کی شہادت کا دن ہے، میلہ لگتا ہے۔“

حقیقت رائے کی یادگار اس وقت کوٹ خواجہ سعید لاہورمیں ہے۔ عام طور پر لوگ اس جگہ کو ’باوے دی مڑھی‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہندی زبان میں ’مڑھی‘ قبرستان کو کہا جاتا ہے، گویا یہ ”بابے کا قبرستان“ ہے۔ حقیقت رائے کو ہندوؤں نے ’بابے‘ کا مرتبہ بھی دے رکھا ہے۔ ایک گستاخِ رسول ان کے نزدیک مقدس ’بابا‘ ہے۔ موٴرخین کے مطابق حقیقت رائے کی یادگار پر سب سے پہلے جس ہندو رئیس نے میلے کا آغاز کیا تھا، اس کا نام کالو رام ہے۔ یہ یادگار قبرستان کے ساتھ اب بھی موجود ہے! سیکولر لادین اور مغرب زدہ طبقہ تو ایک طرف رہا، بظاہر مذہب سے لگاؤ رکھنے والے اَفراد کو بھی بسنت منانے سے روکا جاتاہے تو وہ اسے محض ’ملا کا وعظ‘کہتے ہوئے مسترد کردیتے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان میں مذہبی پارساؤں کا ایک عوام دشمن گروہ ہے جو لوگوں کو سچی، حقیقی اور بے ضرر تفریح کے مواقع سے بھی محروم کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس بات کو ذہنی طور پر تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ بسنت ہندوؤں کا ایک مذہبی تہوار بھی ہے جو اسے خاص موسم میں مناتے ہیں۔ حقیقت رائے کی یاد میں منائے جانے والے ’بسنت میلہ‘ کے پس منظر سے تو شاید ہی کوئی واقف ہو۔ ہندو اور سکھ موٴرخین برملا اعتراف کرتے ہیں کہ لاہور میں بسنت پنچمی کے روز منایا جانے والا میلہ حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ مگر ہمارے بعض مسلمان بضد ہیں کہ یہ صرف موسمی تہوار ہے۔

بعض افراد یوں استدلال کرتے ہیں کہ بسنت ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہوگا مگر ہم تو اسے محض موسمی اور ثقافتی تہوار سمجھ کر مناتے ہیں۔ یہ تو ان کا محض تجاہل عارفانہ ہے۔ ایک شخص دعوت ناؤ نوش میں شریک ہوتا ہے، وہاں حلال اور حرام مشروبات کثیر تعداد میں موجود ہیں، اس نے شراب کو آ ج تک دیکھا ہے، نہ چکھا ہے۔ وہ شراب کی بوتل کھول کر کچھ نوشِ جاں کرلیتا ہے۔ اتنے میں مجلس میں موجود اسے ایک شخص بتاتا ہے کہ قبلہ آپ شراب سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؟ اس اطلاع کے بعد بھی اگر وہ یہ عذر پیش کریں کہ میں تو اس کو محض ایک شربت سمجھ کر پی رہا ہوں توکیا اس کا یہ عذر معقول سمجھا جائے گا؟ مزید برآں بسنت کے تاریخی پس منظر سے لاعلمی کا اظہار بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ ایک جاہل آدمی تو شاید معذور ہو مگر وہ لوگ جو یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں اور غرورِ علم میں مبتلا ہیں وہ لاعلمی کا عذر پیش کرکے اس ذمہ داری سے پہلو کیسے بچا سکتے ہیں؟ قانون سے لاعلمی کو سزا سے بریت کا جواز تسلیم نہیں کیا جاتا تو ان عالم فاضل اَفراد کی طرف سے بسنت کے بارے میں اس تجاہل عارفانہ کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔

لاہور شروع سے بسنت کا مرکز رہا ہے، مگر چند برسوں سے جس رنگ میں یہاں بسنت منایا جاتا رہا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ محمد حنیف قریشی صاحب اپنے مضمون میں ”بسنت کا تہوار، تاریخ و مذہب کے آئینہ میں“ لاہور میں بسنت کے تہوار کے بارے میں موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ بسنت ایک موسمی اور ثقافتی تہوار ہے، جس کا مذہب اور قوم سے کوئی تعلق نہیں تاہم ابھی ایسے بزرگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں گے جو اس امر کی شہادت دیں گے کہ آزادی سے قبل بسنت کو عام طور پر ہندوؤں کا تہوار ہی سمجھا جاتا تھا اور لاہور میں ہی جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ جہاں دو تین جگہ بسنت میلہ منعقد ہوتا تھا، ہندو مرد اور عورتیں باغبانپورہ لاہور کے قریب حقیقت رائے کی سمادھ پر حاضری دیتے اور وہیں میلہ لگاتے۔ مرد زرد رنگ کی پگڑیاں باندھے ہوتے اور عورتیں اسی رنگ کا لباس ساڑھی وغیرہ پہنتیں۔ سکھ مرد اور عورتیں اس کے علاوہ گوردوارہ اور گورومانگٹ پہ بھی میلہ لگاتے۔ ہر جگہ خوب پتنگ بازی ہوتی۔ اندرون شہر بھی پتنگیں اُڑائی جاتیں اور لاکھوں روپیہ اس تفریح پر خرچ کیا جاتا۔ مسلمان بھی اس میں حصہ لیتے مگر زرد کپڑوں وغیرہ کے استعمال سے گریز کرتے۔ یہ سارا کھیل دن کو ہوتا، رات کو روشنیاں لگانے اور لاؤڈ سپیکر، آتش بازی یا اسلحہ کے استعمال کا رواج نہ تھا“ ( نقوش، لاہور نمبر)

مذہبی لحاظ سے تو بسنت منانا قابل اعتراض ہے ہی، خالصتاً موسمی اور ثقافتی تہوار کی حیثیت سے بھی اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ گذشتہ چند برسوں سے لاہور کے نودولیتوں، اَوباشوں، سمگلروں اور عیاشوں نے بسنت کے تہوار کو اپنی اباحیت ِمطلقہ کے اِظہار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ایک بظاہرسماجی تہوار میں جس طرح سماجی اَخلاقیات کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں، وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ شاید ہی کوئی دوسرا ثقافتی تہوار ہو جس میں اس قدر وسیع پیمانے پر شراب وکباب اور شباب کا استعمال کیا جاتاہے۔ اخبارات میں فائیو سٹار ہوٹلوں، حویلیوں اور بعض کو ٹھیوں میں بسنت منانے والے خواتین و حضرات کی تصاویر عام شائع ہوتی ہیں، مگر ان مواقع پر رقص و سرود، شراب نوشی اور طوائف بازی کی بے باکانہ گناہ آلود مجالس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ تویہ ہوتی ہے کہ ایسی مجالس میں منتخب افراد کو مدعو کیا جاتا ہے، دوسری یہ کہ ان مجالس کے شرکا اس کی تفصیلات ہر صحافی کو کم ہی بتاتے ہیں۔ حتیٰ کہ صحانی حضرات کو بھی ان مجالس میں اس شرط پر شریک کیا جاتاہے کہ وہ راز داری قائم رکھیں گے۔ ان مجالس میں ثقافت کے نام پر جو جو جنسی ذلالتیں او رہوسناکیاں برپا کی جاتی ہیں، انہیں منظر عام پر اگر لایاجاسکے تو قوم کو معلوم ہوگا کہ ایک اسلامی ریاست میں فحاشی کی کون کون صورتیں طبقہ اُمرا میں مروّج ہیں۔

راقم الحروف کے ایک جاننے والے صاحب ہیں جنہیں ایسی مجالس میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے۔ ان کی روایت کے مطابق بسنت کے موقع پر لاہور شہر کی معروف طوائفو ں اور اداکاراؤں کی بولیاں لگتی ہیں۔ ان کے بقول گذشتہ سال (۲۰۰۰ء) بسنت کے موقع پر ایک نوخیز فلمی اداکارہ کو گلبرگ کے ایک رئیس صنعت کار نے بسنت رات کے لئے پانچ لاکھ دے کر ’بک‘کیا۔ اس اداکارہ نے تمام رات فطری لباس میں یعنی عریاں ہو کر رقص پیش کیا۔ فسق و فجور کی اس مجلس میں لاہور کے منتخب اَشراف شریک تھے، انہوں نے جس والہانہ انداز میں ویلیں نچھاور کیں، ا س کا اندازہ خود راوی کو بھی نہیں ہے۔ جنسی باؤ لے پن او رحیوانیت کے جو مظاہرے کئے گئے، ان کا الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہی صاحب نے شاہ جمال کی ایک کوٹھی میں بسنت کے اِنتظامات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کوٹھی کے ایک حصے میں شراب کا کاؤنٹر سجایا گیا تھا جہاں نہایت قیمتی شراب، انواع قسم وافر مقدار میں موجود تھی۔ ہر طالب حسب ِخواہش شراب نوشی کرسکتا تھا۔ کوٹھی کے لان میں باربی کیو کا اہتما م تھا جہاں لذتِ کام و دہن کے لئے ہر نعمت موجود تھی۔ ایک وسیع ہال میں رقص و سرود کی محفل جمع تھی۔ مکان کی چھت پر ڈھول تماشے، طوائفیں اور کرائے کی عورتیں موجود تھیں جو ہر ’بوکاٹا‘ پر نعرے لگاتی تھیں۔ رات کے آخری حصے میں طوائفیں بدستور رقص پیش کر رہی تھیں، البتہ شرکا کی اکثریت شراب کے نشے میں مدہوش تھی… دوچار کوٹھیوں کی بات نہیں ہے، بسنت کے موقع پر لاہور شہر میں سینکڑوں ایسے محلات ہیں جہاں اباحیت ِمطلقہ اور جنسی ہوسناکیوں کے یہ مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان مجالس میں محض امرا ہی نہیں، وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جن کا بنیادی فریضہ امن عامہ کا قیام اور جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری ہے۔
رنجیت سنگھ کے زمانے میں طوائفیں بسنت میلے میں شریک ہوتی تھیں اور بسنتی لباس پہنتی تھیں، آج بھی ’گناہ کے بازار‘ میں بسنت کا تہوار بے حد جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں اُمراء کی بیگمات زرد لباس نہیں پہنتی تھیں مگر آج امیر گھرانوں کی بیگمات طوائفوں کے اتباع میں نہ صرف زرد لباس پہنتی ہیں بلکہ پتنگ بازی میں جوش و خروش سے حصہ لیتی ہیں۔ نوجوان لڑکیاں بوکاٹا کے نعرے لگاتی اور کلاشنکوف سے فائرنگ کرتی ہیں۔ اندرونِ شہر مکانوں کی چھتیں سرسوں کے کھیت جیسا منظر پیش کرتی ہیں۔

بسنت ایک ایسا تہوار ہے جس میں امیر، متوسط اور غریب گھرانے اپنی اپنی مالی اِستعداد کے مطابق حصہ لیتے ہیں۔ فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی بسنت کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پتنگ بازی جہاں ایک بہت بڑا شغل سمجھا جاتا ہے، وہاں پتنگ سازی لاہور میں اچھی خاصی صنعت کا روپ دھار چکی ہے، ایک فضول شوق کی تکمیل میں قوم کا کروڑوں روپے کا سرمایہ برباد کردیاجاتا ہے۔ وہ لوگ جومالی پریشانیوں سے دوچار ہیں اور زندگی کی گاڑی مشکل سے چلا رہے ہیں، وہ بھی چاہے قرض کیوں نہ لینا پڑے، بسنت ضرور مناتے ہیں۔ ایک جنون ہے جو اہل لاہور پر طاری ہوجاتا ہے یا کردیا جاتا ہے، دو چار روپے کی پتنگ لوٹنے کے لئے لڑکے بالے ہاتھوں میں ڈھانگے لئے سڑکوں پر دیوانہ وار پھرتے ہیں، انہیں تیز رفتار ٹریفک کا احساس ہوتا ہے، نہ انہیں مکانات کی چھتوں سے گرنے کا احتمال روکتا ہے۔ کٹی ہوئی پتنگ دیکھتے ہی ان پر دیوانگی اور پاگل پن طاری ہوجاتا ہے۔ گذشتہ سال ہمارے مکان کے بالکل سامنے ایک درخت پر اَٹکی ہوئی پتنگ کو اُتارتے ہوئے ایک دس سالہ بچہ شاخ ٹوٹنے کی وجہ سے زمین پر گرپڑا۔ ابھی چند روز پہلے ایک معاصر روزنامے میں ایک بچے کی تصویر شائع ہوئی جس کے دونوں بازو گذشتہ سال بسنت کے موقع پر کاٹنے پڑے۔ تیز دھار ڈور کی وجہ سے کئی مرتبہ راہ گیروں کی گردنیں کٹ جاتی ہیں۔مکانوں سے گر کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد خاصی تشویش ناک ہے۔

آج کل بسنت کا تہوار محض پتنگ بازی تک محدود نہیں رہا، اس میں آتشیں خودکار اسلحہ سے فائرنگ کا خطرناک رُجحان بھی فروغ پاچکا ہے۔ بسنت کی رات پورا شہر کان پھاڑنے والی فائرنگ کی زد میں رہتا ہے۔ کوئی اگر مریض ہے اور شور سے پریشان ہوتا ہے، تو جانے اپنی بلا سے ، بسنت بازوں کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی دشمن ملک نے لاہور پر چڑھائی کردی ہے، ایک دھماکوں کا سلسلہ ہے جو طلوعِ سحر تک جاری رہتا ہے۔ فائرنگ کے ساتھ ڈیک لگا کر اونچی آواز میں موسیقی کے نام پر طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے۔ پتنگ کٹنے یا کاٹنے پر لڑکیاں لڑکے مل کر مجنونانہ اُچھل کود کرتے ہیں۔ چھتوں پر دندناتے ہیں اوربے تحاشا ہڑبونگ مچاتے ہیں۔ اگر کوئی ناسازیٴ طبع کی بنا پر نیچے کمروں میں سویا ہوا ہے، اسے پہنچنے والی ذہنی اذیت کا احساس تک نہیں کیا جاتا۔

لاہور زندہ دلوں کا شہر سمجھا جاتا رہا ہے مگر یہاں کی زندہ دلی اب ہلڑ بازی کا رنگ اختیار کرچکی ہے کسی ثقافتی تہوار میں جس شائستگی اور سماجی نفاست کی توقع کی جاتی ہے، بسنت کے موقع پر اس کے بالکل برعکس مظاہرہ کیا جاتاہے۔ لاہور میں شادی بیاہ کے موقع پر تو کھانوں پر ابھی تک پابندی ہے، مگر بسنت کے موقع پر جس اِسراف کے ساتھ گھر گھر کھانوں اور دعوتوں کا اہتمام کیا جاتاہے، ا س کی طرف ابھی تک توجہ نہیں کی گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس طرح کی دعوتوں میں مجموعی طور پر کروڑوں روپے اُڑا دیئے جاتے ہیں۔

بسنت کے موقع پر کس قدر جوش و خروش اور جنون خیزی کا مظاہرہ کیوں کیاجاتا ہے؟ اس کی ذمہ داری کسی ایک طبقہ پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ حکومت، ذرائع اَبلاغ، پریس، سیکولر طبقہ، والدین، اساتذہ ، سماجی راہنما، طبقہ علما سب نے اس معاملے میں کوتاہی کا ارتکاب کیاہے۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم نے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور راہنمائی کے فرائض کو اَحسن طریقے سے نبھانے میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ماضی قریب میں پتنگ بازی کو آبرو مندانہ شغل یا تفریح نہیں سمجھا جاتا تھا۔ صدر ضیاء الحق مرحوم کے دور تک ہر سال بسنت کے موقع پر حکومت پنجاب کی طرف سے تمام اِداروں کے سربراہوں کو ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ اپنے دفتر کے افسروں کو پتنگ بازی یا ہلڑ بازی میں شریک ہونے سے منع کریں۔ پتنگ بازی کو سرکاری قواعد میں وقار سے گری ہوئی تفریح سمجھا جاتا تھا۔ سن ۲۰۰۰ء میں پہلی مرتبہ لاہور میں بسنت کا تہوار سرکاری سرپرستی میں منایا گیا، پتنگ بازی کے باقاعدہ مقابلے کرائے گئے اور جیتنے والوں کو انعام واِکرام سے نوازا گیا۔ لاہور کارپوریشن اور ہارٹی کلچرل اتھارٹی نے مال روڈ اور دیگر اہم شاہراہوں پر پتنگ نما کتبے آویزاں کئے جو کئی ماہ تک یونہی لگے رہے۔ حکومت ناجائز اسلحہ کی پکڑ دھکڑ کے بارہا اعلانات کرتی رہتی ہے، مگر بسنت کے موقع پر بے تحاشا فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ دھات کی ڈوروں کے استعمال کی وجہ سے واپڈا کا بجلی سپلائی کرنے کا نظام شدید متاثر ہوتا ہے، مگر اس جرم کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کی جاتی۔ واپڈا کی اپیلیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں،اسے ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

بسنت جیسے تہوار کے متعلق جنون خیزی پیدا کرنے میں سب سے زیادہ کردار ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے ایک مخصوص طبقہ نے ادا کیا ہے جوتہذیب و ثقافت کے نام پر اس ملک میں بیہودگی او ر اِباحیت کو رواج دینا چاہتا ہے۔ بسنت کے موقع پر ٹیلی ویژن پر ’پتنگ باز سجنا‘ جیسے واہیات گانوں کوبار بار پیش کیا جاتا ہے، ا خبارات میں خصوصی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں جس میں بازاری عورتوں کو بسنتی لباس میں دکھایا جاتا ہے۔ اَخباری رپورٹوں میں بار بار بسنت کے اِنتظامات کا تذکرہ کیا جاتاہے اور اِعلانات شائع کئے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں مقامات پر بسنت انتہائی جوش و خروش سے منایا جائے گا۔ یہ ساری سرگرمیاں نوجوانوں میں بسنت کے متعلق آتش شوق کو بھڑکا دیتی ہیں۔

سکولوں میں اساتذہ بچوں میں بسنت کے متعلق صحیح شعور پیدا کرنے کی بجائے اُلٹا انہیں ان تقریبات میں والہانہ طور پر شریک ہونے کے لئے اکساتے ہیں۔ کلاس میں پوچھا جاتا ہے کہ ”بچو! اس سال بسنت منانے کے لئے آپ نے کیا کیا انتظام کیا ہے؟“ اساتذہ کی اپنی معلومات بھی بے حد ناقص ہیں، وہ اسے محض موسمی تہوار ہی سمجھتے ہیں۔ انگلش میڈیم سکولوں میں بے حد اہتمام سے بسنت منایا جاتاہے۔ طلباء و طالبات مل کر گڈیاں اور گڈے اُڑاتے ہیں۔ ایسی مخلوط مجالس جنسی ہیجان خیزی اور آوارگی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ کارپوریشن اور حکومت کی زیرنگرانی چلنے والے سکولوں میں بھی بقدرِ استعداد اس غیر اسلامی تہوار کا جشن برپا کیا جاتاہے۔

ایک اسلامی مزاج رکھنے والی خاتون، جس کے بچے ڈویژنل پبلک سکول میں پڑھتے ہیں، نے بتایا کہ سکول کے پرنسپل نے سخت ہدایات جاری کی ہیں کہ بسنت کے موقع پر ہر طالب علم کم از کم ایک ’گڈی‘ کا بندوبست ضرور کر کے آئے اور ہر طالبہ کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایک ڈور خرید کر لائے۔ نہایت تاسف کا مقام ہے کہ ہمارے سکول جہاں توقع کی جاتی ہے کہ طلباء میں اسلامی شعائر سے محبت کو پروان چڑھائیں گے، وہاں ہندوؤں کے تہوار منانے کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ کیامسلمانوں کے اپنے تہوار منانے کے لئے بھی سکولوں میں اس قدر تہذیبی جوش و خروش کامظاہرہ کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب والدین کو بخوبی ہے۔اس بارے میں والدین کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جب بچے والدین کا جوش و خروش دیکھتے ہیں تو اس کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں۔ بعض افراد کو دیکھا گیا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ مل کر پتنگ لوٹنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ کہیں ہم شعوری یا غیر شعوری طو رپر ایک گستاخِ رسول کی یاد میں منعقد کئے جانے والے بسنت میلہ میں شریک ہو کر توہین رسالت کا ارتکاب تو نہیں کررہے؟ کیا ہم ہندوؤں کے مذہبی تہوار کو منا کر دوسری قوموں سے مشابہت کے گناہ کا اِرتکاب تو نہیں کررہے؟ کیا ہمارا بسنت منانے کا طور طریقہ لہو و لعب کی تعریف میں شامل تو نہیں ہے؟ اہل اقتدار کو بھی ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ بسنت جیسے تہواروں کی سرپرستی کرکے کہیں مسلمانوں کے اصل تہواروں کے متعلق عام لوگوں میں عدمِ دلچسپی کے جذبات کو تو پروان نہیں چڑھا رہے؟ بسنت کے نام پر رقص و سرور، ہلڑ بازی، ہاؤ ہو،شورشرابہ، چیخم دھاڑ، فائرنگ، وغیرہ مہذب قوموں کا شعار نہیں ہے۔ ہمیں رسالت مآب کا یہ فرمان بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا:
” تمام قوموں کی عیدیں ہیں ، ہماری عیدیں عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں“
اسی طرح نبی کریم انے فرمایا:
جو کسی قوم سے مشابہت کرے گا وہ انہی میں اٹھایا جائے گا“ (ابوداود) (محمد عطاء اللہ صدیقی
 
Muhammad Shakir
About the Author: Muhammad Shakir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.