اولیاء کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں

حضرت علی ہجویری رحمتہ الله نے ایک شادی کی آپ کا شجرہ نسب حضرت علی سے جا ملتا ہے اور آپ حسنی سید ہیں- آپ کے بیٹے کی قبر آپ کے مزار کے احاطے میں مجود ہے- جہاں تک یہ کہنا کہ اپنوں کی قبروں پر جانا چاہیے تو میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اولیاء کوئی غیر تو نہیں- ہمارے بزرگان دین ہیں- جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دیں- جہاں تک یہ کہنا کہ الله اور رسول الله صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کی جائے تو ہم اولیاء کی بات کرتے ہیں- تو یہاں پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ اولیاء کی تعلیمات شریعت کے مطابق ہے اولیاء نے اپنی زندگیاں قرآن و حدیث کے مطابق گزاریں- تو یہ سوال بلکہ پیدا ہی نہیں ہوتا اگر کسی دینی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اولیاء کا حوالہ دینا جائز ہے ان ہستیوں کو دین پر مکمل دسترس حاصل ہے ہم دنیا کے مختلف دانشوروں سکالرز سائنس دانوں کا حوالہ ان سے متعلقہ شبعوں کو سمجھنے کے لیے دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تاہم اگر کوئی دینی مسئلے کو سمجھنے کے لیے الله کے بزیرگیدں بندوں کا حوالہ دے تو یہ کہہ دیا جاتا کہ الله اور رسول الله صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان اولیاء کو نہ لاؤ- حالانکہ کوئی ایمان والا الله اور رسول الله صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان کسی کو لانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا

ایک حدیث قدسی میں ارشاد ہے- جس نے میرے ولی کو ایذا دی اس سے میرا لڑنا حلال ہو گیا

یقناً قرآن و حدیث میں بار بار لوگوں کو اس بات سے آگاہی دی گئی ہے کہ تم سے پہلے لوگ قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے اور آنے والوں کو ایسی غیر شرعی حرکتوں کے کرنے سے منع کیا گیا ہے تو اولیاء کرام کی قبور کو نعوذبالله سجدہ دینے کی کوئی روایت نہیں ملتی اور اگر کوئی ایسا کرے تو وہ شریعت سے باہر ہے- جہاں تک یہ کہنا کہ اولیاء کے عرسوں کے مواقع پر رقص و ڈھول جیسی توہمات شامل ہوچکی ہیں- یہ اولیاء کی تعلیمات کے منافی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اولیاء کی تعلیمات کو عوام تک پہنچایا جائے تاکہ لوگ حق راہ پر چلیں- یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اولیاء کون ہیں اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے

الله تعالیٰ فرماتا ہے- خبردار الله کے اولیاء وہ ہیں جن پر نہ خوف ہوتا ہےاور نہ حزن و ملال
ایک اور جگہ ارشاد ہے- ہم تمہاری دنیوی اور آخروی زندگی میں مدد گار ہیں
ایک اور جگہ ارشاد ہے- ایمان داروں کا مددگار الله ہی ہے

حضوراکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے- بلاشبہ بندگان خدا میں سے کچھ بندے ایسے ہیں جن پر انبیاء و شہداء غبطہ (رشک) کرتے ہیں- صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ان کی پہچان بتائیں تاکہ ہم ان سے محبت قائم رکھیں- حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآئہ وسلم نے فرمایا- یہ وہ لوگ ہیں جو مال و محنت کے بغیر صرف ذات الہی سے محبت رکھتے ہیں-ان کے چہرے نور کے مناروں پر روشن و تاباں ہیں- لوگوں کے خوف کے وقت یہ بے خوف اور ان کے غموں کے وقت یہ غم ہیں- پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تلاوت فرمائی کہ بیشک الله کے اولیاء وہ ہیں جن پر نہ خوف ہے اور نہ حزن وملال

اب جہاں تک یہ سوال کہ حضرت سیدنا عبدالله قادر جیلانی الله رحمہ کے اولیاء کرام کے سردار ہونے اور انکار کی صورت میں خارج از دین ہونے کا سوال ہے تواس حقیت کو ماننا ضروری ہے کہ اولیاء کرام گزرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے- جیسا کہ میں نے قرآن و حدیث کی روشنی واضح کر دیا ہے جن سے ثابت ہے کہ برگزیدہ بندے جن کو ہم اولیاء کہتے ہیں موجود تھے ہیں اور تا قیامت رہے گے- اب جو قرآن اور حدیث ہی سے انکار کردے وہ شریعت سے خارج ہے

حضرت سیدنا عبدالله قادر جیلانی الله رحمتہ کے اولیاء کرام کے سردار ہونے اور انکار کی صورت میں دین خارج ہونے کی دلیل بہت سیدھی ہے- وہ ایسے کہ الله نے انبیاء کرام پیدا کیے ان سردار ہمارے پیارے آقا حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں- فرشتوں پر بھی ایک سردار مقرر ہیں-اسی طرح آج تک بے شمار اولیاء آئے ہیں اور ان پر غوث اعظم کو فضیلت حاصل ہے اور وہ سردار واولیاء ہیں- اور جو اولیاء پر اعتقاد رکھتا ہے وہ آُپ سے انکار نہیں کرتا- اور جو انکار کرے وہ دین سے خارج ہے

حدیث سے واضح ہے کہ جس نے میرے ولی کو ایذادی اس میرالڑنا حلال ہوگیا

اللہ ہم کو اولیاء کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے- آمین
 

Waqas
About the Author: Waqas Read More Articles by Waqas: 11 Articles with 17157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.