گوگل کے سرچ نتائج انسانی سوچ کے مطابق

گوگل کمپنی نے اپنے سرچ انجن سے سوالات کے فوری اور زیادہ مؤثر جوابات دینے کے لیے ایک اور نئی کوشش کی ہے۔

’نالج گراف‘ نامی اس نئے فنکشن کے ذریعے گوگل کی کوشش ہے کہ اس کے سرچ انجن سے ملنے والے نتائج انسانوں کی بات چیت سے قریب تر ہو جائیں گے۔

یہ فنکشن پہلے صرف امریکہ میں صارفین کے لیے متعارف کیا جائے گا اور پھر دنیا بھر میں مہیا ہوگا۔
 

image


یہ اقدام حریف سرچ انجن بِنگ کی جانب سے ملتی جلتی کاوش کی جانے کے بعد کیا گیا ہے۔

مائیکروسافٹ کمپنی کے سرچ انجن بِنگ نے گزشتہ ہفتے ’سنیپ شاٹ‘ نامی فنکشن اپنے صارفین کے لیے شروع کیا تھا جو کہ عام لنکس سے ہٹ کر مزید مواد فراہم کرتا ہے۔

گوگل کے انجنیئرنگ کے سینیئر نائب صدر امت سینگال کا کہنا تھا اب تک سرچ انجن صرف الفاظ کے ملنے سے نتائج پیش کرتے تھے مگر اب وہ ان کے مطلب کا بھی خیال کریں گے۔

امت سینگال نے مثال دی کہ الفاظ تاج محل سے مختلف لوگوں کی مختلف مراد ہو سکتی ہے۔

ان الفاظ سے آپ کا مطلب دنیا کا ایک خوبصورت مقبرہ، ایک گریمی ایوارڈ یافتہ موسیقار، اٹلانٹک سٹی میں موجود کیسینو بلکہ یہاں تک کہ آپ کا قریبی بھارتی کھانوں والا ریسٹورنٹ میں سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
 

image


گوگل کا کہنا ہے کہ نالج گراف ساڑے تین ارب مختلف خصوصیات کو مدِ نظر رکھ کر نتائج مرتب کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اب وہ ان مختلف معنوں کو علیحدہ علیحدہ پیش کر سکے گا۔

معروف شخصیات کے بارے میں سوالات آتے ہی گوگل ان کے بارے میں چند چیدہ چیدہ تفصیلات دکھانے لگے گا۔

امت سینگال کا کہنا تھا کہ یہاں سے اگلا قدم ہوگا کہ سرچ انجن زیادہ پیچیدہ سوالات کے جواب دے سکے جیسے کے ’افریقہ کی دس گہری ترین جھیلیں کونسی ہیں؟‘ ایسے سوالات میں سرچ انجن کو مختلف ذرائع سے معلومات لے کر اسے مختلف بنیادوں پر مرتب کرنا ہوگا۔

اس طرز کی سرچ صلاحیت اس وقت صرف ’ولفریم ایلفا‘ نامی ویب سائٹ میں ہے جو کہ تصدیق شدہ ذرائع کی معلومات کو جمع کر کے اعداد و شمار دکھاتی ہے۔

کمپنیوں کی بہت عرصے سے یہی کوشش رہی ہے کہ ان کے سرچ انجن انسانی انداز میں کیے گئے سوالات کا قدرتی انداز میں جواب دے سکیں۔


courtesy for source BBC URDU
YOU MAY ALSO LIKE:

Google has revamped its search engine in an attempt to offer instant answers to search questions. A new function, the Knowledge Graph, will make the site's algorithms act "more human", the site said in a blog post. The feature will at first be available to US-based users, but will be rolled out globally in due course.