مفلوج لوگوں کے لیے روبوٹِک بازو

امریکہ میں دو مفلوج مریضوں کے لیے، ایک روبوٹِک بازو کا کامیاب تجربہ ہوا ہے۔ اِس بازو کو حرکت دینے کے لیے مریضوں نے محض سوچ کر ہی کام لیا۔ امریکہ کی ایک مفلوج مریضہ نے، پندرہ سال بعد، بغیر کسی انسانی مدد کے ازخود کافی پی۔

یہ اُس وقت ممکن ہوا جب اٹھاون سالہ خاتون مریض نے کافی پینے کے بارے میں سوچا، اُس کے دماغ میں نصب کیے گئے سینسر نے، روبوٹِک بازو کو ایسا کرنے کا حکم دیا کیونکہ مریض کی گردن سے نیچے پورا جسم کئی سالوں سے مفلوج تھا۔
 

image


روبوٹِک بازو نے کافی کا فلاسک مریض کے ہونٹوں تک پہنچایا۔ پھر مریض نے آنکھوں سے اشارے اور ذہن میں سوچ کر روبوٹِک بازو کو پین تھمایا اور لکھا کہ ’مجھے یقین نہیں آیا جب میں نے اتنے سالوں بعد خود کافی پی۔‘

خاتون نے لکھا کہ’مجھ پر شادی مرگ کی سی کیفیت تھی۔ مجھے امید اور خود مختاری کا عظیم احساس ہوا۔‘

ربوٹِک بازو اور سینسر کی یہ کامیاب تکنیک امریکی ریاست میسی چیوسٹ کے ماہرین نے ایجاد کی ہے۔

ماہرین کی ٹیم میں شامل براؤن یونیورسٹی کے ماہرِ امراض دماغ ڈاکٹر جان ڈاناہو کا کہنا تھا ’یہ حقیقتاً ایک پُرمسّرت لمحہ تھا، سچی خوشی کا۔ میرا خیال ہے کہ یہ دماغ اور کمپیوٹر کے باہمی تعلق کے میدان میں ایک اہم کامیابی ہے۔ اس کی وجہ سے ہم نے کسی کو وہ سب کرنے میں مدد دی جو وہ کئی برسوں سے کرنا چاہ رہے تھے۔ ‘
 

image


امکان ہے کہ اِس کے ذریعے اُن مریضوں کو مدد ملے گی جن کا پورا جسم تو مفلوج ہو جاتا ہے لیکن اُن کا دماغ کام کرتا رہتا ہے۔

اس تکنیک میں ربوٹک بازو کو حرکت دینے کا خیال دماغ کے ایک خاص حصے میں نیورانز کو متحرک کرتا ہے جس کے باعث پیدا ہونے والی برقی حرکتیں ایک تار کے ذریعے کمپیوٹر میں بھیجی جاتی ہیں، جہاں سے اس حکمیہ پیغام کو ترجمہ کر کے بازو کو حرکت دی جاتی ہے۔

دو ہزار چھ میں شائع ہونے والے نیچر کے رسالے میں تحقیقاتی ٹیم نے بتایا تھا کہ ایسے ہی ایک اعصابی کنٹرول کے نظام کے تحت مفلوج لوگوں کمپیوٹر کے کرسر کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔


courtesy for source BBC URDU
YOU MAY ALSO LIKE:

(Unintelligible) at the beginning of the program about Cathy Hutchinson having not being able to drink anything without the help of caregivers for 15 years. She was paralyzed from the neck down. But she's very famous, very famous this week, because thanks to new technology described in the journal Nature, she took a very famous sip of coffee this week. You probably saw it on television or the Internet.