کرکٹ کے لیے ایک خواب

وطن عزیز میں اس وقت ہر شعبہ میں سفارش اور رشوت کا بازار گرم ہے جس کے باعث ہر شعبہ زوال کا شکار ہے۔اور اس زوال سے ہمارا کھیل کا شعبہ بھی محفوظ نہیں، ہاکی ہو یا اسکواش، کرکٹ ہو فٹبال یا باکسنگ الغرض ہر کھیل میں سفارشی کھلاڑیوں اور ناہل ذمہ داران نے ہمارے کھیل کے شعبہ کو بالکل ہی بیکار کردیا ہے، کل تک یہ صورتحال تھی کہ ہم کرکٹ، ہاکی، اسکواش، سنوکر، میں عالمی چیمپئن تھے، اور باکسنگ میں بھی ہمارے کھلاڑیوں نے نام کمایا۔ مگر اب صورتحال اس کے بر عکس ہے۔ ہم اسوقت یہاں صرف کرکٹ کی بات کریں گے

گزشتہ ہفتے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں بینک الفلاح کپ کے فائنل میں سری لنکن ٹیم نے پاکستانی ٹیم کو آؤٹ کرتے ہوئے بائیس اوورز میں پچھتر رنز پر آل آؤٹ کردیا اور یہ اتنی بدترین اور تیز شکست تھی کہ وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی جو کہ مہمان خصوصی تھے وہ ایک بال کا میچ بھی نہ دیکھ سکے۔اور اس نے پاکستان کرکٹ کے کھلاڑیوں اور ذمہ داران کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا اور لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر یہ لاکھوں روپے کمانے والے یہ کھلاڑی اور آفیشلز آخر کیا کرتے رہتے ہیں اور ان کا کیا فائدہ ہے۔

یہ شکست ایک بد ترین شکست ہے اور اس سے اچھا تو ہمارے یہاں گلی محلے کے لڑکے کرکٹ کھیل لیتے ہیں۔اور اس شکست کا اصل سبب دراصل یہ ہے کہ زیادہ تر کرکٹرز سفارش پر آتے ہیں اور کسی بھی ادارے میں جو نااہل فرد سفارش پر آتا ہے تو اس کو اس بات کا ڈر خوف نہیں ہوتا کہ اس کی خراب کارکردگی کی وجہ سے اسکے خلاف کوئی کاروائی کی جائے گی۔ کرکٹ کے کھیل میں دولت بے انتہا ہے اور کھلاڑیوں کو یہ پتا ہوتا ہے کہ اس گیم میں دولت تو ہے لیکن شہرت بونس میں ملتی ہے،اس لیے کرکٹ میں آنے کے لیے ہر کھلاڑی کوشش کرتا ہے اور ہوتا یہ ہے کہ نااہل فرد سفارش کے بل پر آگے آجاتا ہے جبکہ باصلاحیت اور اہل کھاڑی صرف سفارش نہ ہونے کی بناء پر ٹیم میں شامل نہیں ہو پاتا ہے۔اور دراصل یہی وجہ ہمارے کرکٹ کے زوال کی ہے

غور کیا جائے تو ایک بات نظر آتی ہے کہ عظیم سری لنکن کھلاڑی سنتھ جے سوریا بیس سال سے زائد عرصے کرکٹ کھلنے کے باوجود آج بھی بھرپور فارم میں ہیں جبکہ ہمارے بیس اکیس سالہ نوجوان کھلاڑی اس فرد کی فٹنس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں اور یہی بات ثابت کرتی ہے کہ ٹیم میں کھلاڑی منتخب کرتے وقت ٹیلنٹ کو نہیں بلکہ سفارش کو اہمیت دی جاتی ہے۔اور یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بورڈ کے ارکان پیلرز پاور کو اہمیت دیتے ہیں۔ آخر کیوں شیعب اختر اور آصف جیسے کھلاڑیوں کو آج تک اتنی اہمیت دی جارہی ہے وہ کھلاڑی کہ جن کے نزدیک ملک و قوم کی عزت و وقار سے زیادہ اپنی عیاشیاں عزیز ہیں جن کو اس بات کا قطعی احساس نہیں ہوتا کہ کھلاڑی دراصل ملک کے سفیر ہوتے ہیں اور ان کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں بے باعث غیر ممالک میں ملک کا تاثر کتنا خراب ہوتا ہے۔اور میرا گلہ میڈیا سے بھی ہے کہ آخر وہ کیوں ان کھلاڑیوں کے اوپر جرمانے یا معطلی پر ایک شور مچا دیتے ہیں۔

اگر آج یہ اصول بنا لیا جائے کہ قومی ٹیم میں کھیلنے کا خواہشمند کھلاڑی پہلے اپنی کارکردگی اور فٹنس ثابت کرے گا۔اور اس کے بعد وہ ایک معقول رقم سیکورٹی ڈیپازٹ کے طور پر رکھوائے گا۔تاکہ جہاں اسے جیتنے کی صورت میں بے تحاشہ انعامات دیے جائیں گے وہیں اس کی خراب کارکردگی پر اسکے سیکورٹی ڈیپاذٹ میں سے رقم کاٹ لی جائے گی۔ تو پھر کم از کم تین فوائد حاصل ہونگے۔ نمبر ایک کوئی فرد کسی کی سفارش کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچے گا، نمبر دو اس قانون کے بعد شوقیہ کھلاڑی جو صرف شہرت کے لیے کرکٹ کھلینے کی کوشش کرتے ہیں ان کی بھیڑ چھٹ جائے گی اور صرف سنجیدہ اور باصلاحیت کھلاڑی ہی سامنے آئیں گے۔ اور تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر اس کے باوجود بھی اگر کوئی نااہل سفارش کی بنیاد پر آگے آئے گا تو اس کی ناقص کارکردگی کا نقصان صرف ملک کو نہیں ہوگا بلکہ اس کی ذات کو بھی ہوگا اور وہ کھلاڑی دل سے کھیلنے کی کوشش کرے گا۔

میں یہ جانتا ہوں کہ میری اس بات کو ایک دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے گا لیکن آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔اس کے بارے میں آپکے تبصرے کا انتظار رہے گا
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1456120 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More