صوبہ ہزارہ کا قیام مگر کیسے۔۔۔۔؟

جس شخص نے کمزور اورناتواں جسم کے باوجود ہمارے حقوق کیلئے میدان عمل میں نکل کر ہمیں خواب غفلت سے بیدار کیا۔ جس شخص نے ہماری عزت ، ناموس اور بقاءکیلئے سر پر کفن باندھ کر غاصبوں کو شیر کی طرح للکارا۔ ہم نے اسے غدار ہزارہ کا نام دیکر ان کی راہوں میں کانٹوں پر کانٹے بچھائے ۔ہماری نفرتوں اور کانٹوں سے اس عظیم شخص کا ناتواں جسم ہی نہیں بلکہ اس کا دل بھی زخمی زخمی ہو ا لیکن پھر بھی وہ اپنی زبان پر شکوہ کے الفاظ تک نہیں لائے ۔ اس ناتواں جسم اور نورانی چہرے کے حامل اس شخص کی قربانیوں کا ثمر ہی تو ہے کہ آج گلگت سے کراچی اور پشاور سے کوئٹہ تک صوبہ ہزارہ کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ۔ ہم تو شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ صوبہ ہزارہ کی آواز کو چند زبانوں سے نکال کر زبان زد عام کرنے میں ہمارا کوئی بہت بڑا کردار ہے لیکن وقت نے بہت جلد ہمیں دکھا دیا کہ اگر تم اس ایک شخص کی قربانیوں کو بھول کر صوبہ ہزارہ کے ترازو میں اپنا کردار دیکھو تو آٹے میں نمک کے برابر بھی تمہیں تمہارا کردارنہیں ملے گا ۔ شہداءہزارہ کی برسی کے موقع پر عوام کی طرف سے نو لفٹ کا تحفہ اور اب یکم مئی کو تاجر اورٹرانسپورٹروں کی طرف سے بے رخی وبے وفائی یہ اس بات کی عکاس ہے کہ بابا حیدرزمان کے بغیر ہم کچھ نہیں ۔ہمارا تو خیال تھا کہ یکم مئی کو ہم ایک مرتبہ پھر 12 اپریل کی تاریخ دہرا دیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا اورنہ ہی ایسا ہونا تھا۔ مانا کہ صوبہ ہزارہ تحریک میں تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اور ہزارہ کے نامور سیاستدان شامل ہیں مانا کہ اس تحریک کو تمام سیاسی جماعتوں کی مکمل سپورٹ و حمایت حاصل ہے اوریہ ہم مانتے ہیں کہ اس تحریک کی سیاسی اورمالی قوت تحریک صوبہ ہزارہ سے کہین زیادہ ہے اس کے باوجود 12 اپریل اور اب یکم مئی کے بعد ہم یہ حقیقت بھی ماننے پر مجبورہوگئے ہیں کہ نامور لیڈروں ، سیاسی ومالی طاقت کے باوجود عوامی ترازو میں اس تحریک پر ایک بابا بھاری ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اگر بابا کے مقابلے میں 10 لیڈر ہیں اور ایک بابا اگر ایک آواز پر ایک ہزارلوگ سڑکوں پر لاسکتے ہیں تو پھر انصاف تو یہ ہے کہ یہ دس لیڈر دس ہزار لوگ سڑکوں پر لائیں ۔ بابا اگر سوگاڑیوں کا پہیہ جام کرتا ہے تو پھر یہ اگر ہزار گاڑیوں کا پہیہ جام نہیں کر سکتے تو کم ازکم 500 کاتو کرلیں لیکن مانا کہ صوبہ ہزارہ کا قیام بچوں کا کھیل نہیں ۔ بابا کو غدار کہہ کر ذاتی وسیاسی مفادات توہم حاصل کر سکتے ہیں لیکن یہ ہماری بھول ہے کہ بابا کو دیوارکے ساتھ لگا کر ہم صوبہ ہزارہ بنا دیں گے ہزارہ کے یہ تمام سیاسی قائدین اور لیڈر جنہوں نے بابا سے اپنے راستے جدا کرلئے ہیں اگر یہ واقعی صوبہ ہزارہ کا قیام چاہتے ہیں تو پھر انہیں ہر حال میں بابا کے قدموں میں آنا ہوگا ، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں کیونکہ صوبہ ہزارہ اوربابا لازم وملزوم ہیں یقین نہ آئے تو کسی چوک اور چوراہے پر صوبہ ہزارہ کا نعرہ لگا کر دیکھو تم صوبہ ہزارہ کا نعرہ لگاؤ گے ساتھ تمہیں بابا کا نام آٹومیٹک سننے کو ملے گا آج بھی ہزاروں اور لاکھوں لوگ بابا کی ایک آواز پر صوبہ ہزارہ کے قیام کیلئے تن ، من ، دھن کی قربانی دینے کیلئے تیار کھڑے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہماری غلطیوں ، کوتاہیوں او رنفرتوں نے ان ہزاروں اورلاکھوں لوگوں کو خاموشی کی چادر اوڑھنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ بابا میرا کورشتہ دار نہیں اورنہ ہی بابا کے مخالفین سے مجھے کوئی ذاتی اختلاف ہے ہزارہ کے تمام سیاستدان ولیڈران میرے لئے قابل احترام ہیں لیکن سچ اور حقیقت کو جھوٹے الفاظ تلے چھپانا یا دبانا یہ قارئین کی حق تلفی اور اس مقدس قلم کی توہین ہے جس کا ارتکاب کرنے والے ہمیشہ ذلیل ورسوا ہو جاتے ہیں میری تو اللہ سے یہ دعاہے کہ وہ ہمیں دنیا وآخرت کی ذلت رسوائی سے بچائے معززقارئین ! جو عزت ومقام ہم نے اپنے دلوں میں سانحہ 12 اپریل کے آس پاس بابا کو دیا تھا اگر وہی عزت ومقام آج بھی ہم بابا کو دیں اور بابا کو ہی صوبہ ہزارہ کے قیام کی تحریک کا سپہ سالار دل وجان سے تسلیم کرلیں تو مجھے پورا یقین ہے کہ سرائیکی سے پہلے صوبہ ہزارہ کا قیام عمل میں آئے گا لیکن اگر ہم اسی طرح فرقوں میں بھٹک کر بابا پر سنگ باری کرتے رہیں گے تو سو سال مزید بھی ہم شاہراہ ریشم بلاک کرکے نعرے لگاتے رہیں ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ۔ مقصد اور سیاست میں بہت بڑا فرق ہے بابا کے علاوہ ہم سب نے اب تک صوبہ ہزارہ کو سیاست کا درجہ دیا ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سیاسی کھیل کو جاری رکھنے کیلئے اس طرح کے ایشو کا زندہ رہنا یا زندہ رکھنا ضروری ہوتاہے ۔بابا نے ایک سیاسی جماعت بنائی مقصدکے حصول کیلئے جب کہ ہم اتنے ظالم ہیں کہ ہم ایک مقصد کو اپنی سیاست پر قربان کررہے ہیں اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے صوبہ ہزارہ بنانا ہے یا نہیں ؟ اگر بنانا ہے تو پھر ہم سب کو بابا کے قدموں میں گر کر اپنے کئے کی معافی مانگی ہوگی اور اپنی سیاست کو صوبہ ہزارہ کے قیام کے مقصدپر قربان کرنا ہوگا ورنہ اس کے علاوہ ہمارے پاس صوبہ ہزارہ کے قیام کی کوئی راہ نہیں ۔
Umar Khan Jozvi
About the Author: Umar Khan Jozvi Read More Articles by Umar Khan Jozvi: 37 Articles with 39048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.