لاتقنطو من رّحمت اللہ

دنیا میں چند عنایات ربانی و اوصاف انسانی بہت بہت نادر، انمول اور بہت طاقتور ہوتے ہیں،وہ کسی بھی بے مایہ ذرہ ریگ کو توقیر، عزو جاہ ووقاراور کشش کا حامل بنا دیا کرتی ہیں۔عقل سلیم کا حامل ہر انسان ان کا تمنائی ہوتا ہے،ان طاقتور ترین اوصاف میں حسن، جاہ وجلال، سطوت شاہی،زر و مال اور اولاد ہوتی ہے۔ان میں حسن کو ان سب پر یہ فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اسے سات پردوں میں بھی چھپایا جائے یا پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جائے یہ پھر بھی اظہار چاہتا ہے،اسے جمال، حسن ازل اور حسن فطرت بھی کہتے ہیں،انسان نے شعور کی آنکھ کھولی تو اس پر یہ دنیا موجودات کی ہمہ گیری و ہما ہمی سے لبریز تھی جو چیز کسی بھی حوالے سے اس کے قلب و نگاہ کو بھائی،اسے اپنے اوپر فریفتہ کیا وہی حسن تھا خواہ وہ ہفت عجائبات عالم ہوں، بحری موجیں، باد نسیم سے جھولتی کلیاں اور گلہائے رنگا رنگ،کسی بھی سماج،تمدن اور کلچر کی یہ مونا لیزا، قلو پطرہ، قیس کو دیوانہ بنانے والے لیلیٰ، ماہیوال کی سوہنی، رانجھے کی ہیر، فرہاد کی شیریں یاکرشن جی مہاراج کی سیتا، حسن کی ہی تو ایک جھلک تھیں، ان کیلئے من و تو کی منزلوں کے شناوروں نے محلات، سطوت شاہی اور تخت و تاج کو بھی تاراج کر دیا، یہ الگ بات ہے کہ کوئی نروان حاصل کر سکا، کسی کو موکش کی شکتی ملی یا نہیں مگر یہ بات طے ہے کہ حسن کی تجلیات جس طور و سینا پر پڑیں انہوں نے اپنے موسیٰ کو دوجہاں سے بیگانہ ضرور کر دیا۔یہاں سے ہی ایک اور سفر کا آغاز ہوتا ہے،یہی ایک معمولی غلام زادے کو غزنی سے اٹھ کر سومناتھ کے خداﺅں کو پاش پاش کرنے والے محمود کے دل کا ایاز بنا دیتا ہے، یہی سکندر کو شیرازی چشم غزال سے گھائل کر کے شمشیر کو پرے پھینکنے پر مجبور کر دیتا ہے،یہ آنکھوں کے راستے دل میں بسیرا کرتے ہوئے اپنی چاہت اور طلب میں افراط و تفریط کا متقاضی ہوتا ہے ۔ یہ دنیا کی واحد ناپائیدار اور مختصرترین حقیقت ہے جو اپنی دلربائی، کشش، نازو انداز اور لطافت و ناز کے فرزانوں کو حسن مجسم میں ڈھال دیتی ہے،دراصل نازو افتخار کا یہی وہ سنگ میل ہے جب ذرا سی لمحاتی آزمائش بندے کو رحمٰن کا عبد بنا کر اس کی نورانی تجسیم ےا شیطان کے چیلے کے روپ میں ناپاکی، غلاظت اور بدبو کے پیکر میں ڈھال دیتی ہے۔یہ قوتیں مصطفوی ہوں یا بو لہبی، دونوں حقیقتیں ہیں، ایک سراپا نور و لطافت دوسری پیکر شرو کثافت،ایک لامحدود پہنائیوں کی شناور دوسری محدود دنیاﺅں کیلئے بھی غارت گر ازل،اول معبود لم یزل تک رسائی کی مہمیز و برہان، موخر الذکر معبود حقیقی سے دوریوں کی لعنت، ایک سراپا بقا ہی بقا اور دوسری یہاں بھی فنا وہاں بھی سزا ہی سزا۔

اس فردوس بریں میں صرف تین ہی خطے ایسے ہیں جہاں حورمقصورات فی الخیام کا واقعی ایک دائمی وجود ہے،ان میں سر فہرست سرزمین انبیاء یعنی فلسطین اور وادی دجلہ فرات،سرزمین فراعنہ یعنی وادی نیل اور ہمالیہ کی سرفرازیوں کا حامل فردوس ارضی یعنی کشمیر ہے۔اس کے کوہسار دودھ سے دھلے، اس کے مرغزار و سبزہ زارخلد بریں کو شرمانے والے اور اس کے قدوسی کہ....دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں،اس حسن ازل میں بھی دلربائی، بے پروائی،کشش اور سراپا نازو انداز کی پر کیف سرمستیاں، رفتار خرام و غزال اور شفق کی سہانی ضوفشانی کی صفاتموجود ہےں،یہی کشمیر کے فراز کوہ اور نشیب بیاباں میں بکھرا ہوا وہ حسن ازل ہے جس کی کھوکھ سے فتح علی ٹیپو سلطان نے جنم لیاجو فرنگی سامراج کے راستے کی پہلی دیوار ثابت ہوا، اسی زعفرانوں کی سرزمین کے دودھ سے پلے نواب سلیم اللہ خان کی ولادت نے تو جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کو مسلم لیگ (آج کی الف سے لیکر یے تک کی مسلم لیگیں نہیں) کا پلیٹ فارم عطا کیا، پیر رومیؒ کے مرید ہندی اقبالؒ کا خوں بھی کشمیر کیاسی وادی لولاب سے تھا جس کےپردہ ہائے زہن میں تصور پاکستان نے انگڑائی لی،امام خمینی کے آباءبھی اسی فردوس ارضی کے باشندے تھے جس نے ایرانیوں کو دارا و پرویز کی وارث چار ہزار سالہ پہلوی شاہی جبروت سے ہمیشہ کیلئے نجات دلا دی اور عرب دنیا کا وہ شیخ جسے عالم ارضی حسن النباشہید کے نام سے جانتا ہے اس کے اجداد کا خمیر بھی اسی کشمیر کی وادیوں اور سبزہ زاروں کی معصومیت سے اٹھا تھا جو فکر انقلاب کا حامل تھا....تو پھر کیا وجہ ہے کہ اقوام عالم کو صبح آزادی کا مژدہ سنانے والوں کے دیس کی ظلمت بھری غلامی کی یہ شب تاریک ختم ہونے میں نہیں آ رہی....؟کشمیر کا بچہ بچہ اس صدائے جرس کا صرف ایک جواب دے رہا ہے کہ جہاں مخلص قیادت، جواں ہمت اور بے لوث سیادت،سراپا نصب العین کا حامل اقتدار،ذاتی مفادات سے عاری سیاست کا وجود نہ ہووہاں حسن ازل ہو یا حسن فطرت....اسے نظر کی طلب ، قلب کا سرور اور روح کا قرارنہیں ملا کرتا۔ جہاں
ستم ظریفی وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کچلا ہے
زندگی اذیت ہے
سانس کی بھی قیمت ہے
کس کا ہاتھ ہے
جو خوں سے رنگا نہیں
کس کا گریباں ہے
جو گرفت سے بچا نہیں
صدائے موت آتی ہے
شہر بھر کی گلیوں سے
خوں کی بو آتی ہے
پھولوں اور کلیوں سے

کشمیری کل بھی غلام تھے آج بھی غلام ہیں،قیادت کا فقدان، سیاسی قوت فیصلہ کی کمی،شعور ذات سے عدم آگاہی ان حسیں ماہ تمام کو گہنا رہی ہے،ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی گلاب سنگھ ضرور موجود ہوتا ہے جو کشمیریوں کو ان کی دھرتی سمیت غیروں کے ہاتھ بیچ ڈالتا ہے، اس سقوط، بے بسی اور بے حمیتی پر ہمالیہ کے پربت بھی آنسوبہاتے ہیں.... مگر....ان کی اکھیوں کے یہ اتھرونشیب میں جاگیرداروں،وڈیروں اور خوانین کی وسیع و عریض زمینوں میں جذب ہو جاتے ہیں، یہ ان کی فصلوں کو دگنا کرتے ہیں،رہ رہ کر کشمیریوں کی پتھرائی نیم وا آنکھیں دور اکاش کی وسعتوں میں ایک ان دیکھے اور انجانے مسیحا کو تلاشتی ہیں اورہردم، ہر لحظہ،ہر لمحہ ان کےلئے افلاک سے یہ آواز آ رہی ہے کہ"اللہ کی امید سے نا امید مت ہو"۔
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 59251 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More