کیسے کہیں کہ شتر بے مہار ہیں یہ سوشل ویب سائٹیں

جو لوگ انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دوسرے ذرائع پر کسی قسم کے کنٹرول کے حق میں ہیں ، ان کیلئے ڈوئچے ویلے فیس بک پر ایک اچھی خبر ہے۔ مائیکرو بلاگنگ سائٹ ڈوئچے ویلے فیس بک نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایسی ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے جس کے سہارے کسی ٹوئٹTwitt کو کسی ملک میں پہنچنے سے روکا جا سکتا ہے۔حالانکہ ابھی اس نے مذکورہ ٹیکنالوجی کا استعمال شروع نہیں کیا ہے لیکن اس کا ماننا ہے کہ اگر اسے زیادہ سے زیادہ ممالک میں اپنی پہنچ بڑھانی ہے تو اسے ایسے کسی کنٹرول کی جانے والی ٹیکنالوجی کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ اس سے قبل اس کے پاس ایسا کوئی طریقہ میسر نہیں تھا کہ وہ کسی مخصوص ملک میں کسی ٹوئٹ کی نشریات روک سکے ، اگر انہیں روکنا ہوتا ہے تو اس ٹوئٹ کو وقوع سے ہی اڑانا ہوتا ہے۔

ڈوئچے ویلے فیس بک کا استعمال اکثر تانا شاہی والے اورمطلق العنان ممالک میں حکومت مخالف نظریات‘ معلومات اور خیالات کو پھیلانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں گزشتہ دنوں بھڑک اٹھنے والی بغاوت کے پس پردہ ایسی سائیٹوںنے بڑا اور اہم کردار ادا کیاجس سے خائف ہوکر چین جیسے بعض ممالک میں ڈوئچے ویلے فیس بک پر پابندی عائد ہے۔ اس کے برعکس گوگل اور فیس بک کا کہنا ہے کہ ان پر آنے والی اشیاءپر کنٹرول ان کیلئے ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ میں دائر ایک کیس میں ان سائیٹوںِ کے کرتادھرتاؤں کو اپنا موقف رکھنا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ویب کو سنسر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ویب کی قومی سرحدیں نہیں ہوتیں اور پوری دنیا کے لوگوں کو اپنی بات اور مؤقف کا اظہار کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔

ڈوئچے ویلے فیس بک نے جو اعلان کیا ہے ، اس کے مطابق بھی سائٹ پر جانے سے پہلے کسی مواد کی جانچ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تقریبا 25 کروڑ ٹوئٹ روزانہ ڈوئچے ویلے فیس بک پر آتے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں آنے والی اشیاءکی نگرانی کرنا عملی طور پر ناممکن ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ شکایت آنے کے بعد کسی مواد کو ہٹا دیا جائے۔ ویسے بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے بلکہ کر رہی ہے کہ کسی بھی چیز کو روکنا ناممکن ہے۔ انٹرنیٹ پر ہی ایسی معلومات بھری پڑی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ پابندیوں کی خلاف ورزی کیسے کی جائے۔

اس مسئلہ کے تین پہلو ہیں؛ پہلا یہ ہے کہ معلومات پر مبنی وسائل اتنے قوی اورطاقتور ہو گئے ہیں کہ کوئی ان سے بے اعتنائی نہیں برت سکتا۔ امریکی صدر باراک اوباما سے لے کر وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک ڈوئچے ویلے فیس بک پر ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان سائٹوں پر آنے والی زیادہ تر مواد فضول اور بیکار ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے بال کٹوانے سے لے کر عشق شروع ہونے اور محبت بھرے تعلقات ٹوٹنے تک کی ایک ایک بات ان سائیٹوں پر ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ سائیٹیں ایک عجیب قسم کی نمائش اور تصنع سے بھری ہوتی ہیں۔ مختلف قسم کی سیلیبریٹی اور معروف شخصیات ان سائیٹوں پر سب سے زیادہ مقبول ہوتی ہیں اور وہ اپنی شہرت اور مقبولیت پیدا کرنے والی چیزوں کا گویااشتہار پیش کرنے کیلئے انہیں استعمال کرتی ہیں۔ سماج میں ہر طرح کی تبدیلیاںجاری ہیں جبکہ ساری دنیا اس مجازی عالم میں دکھائی دیتی ہیں۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں سینسر شپ تقریبا ناممکن ہے۔

مثال کے طور پربدنام زمانہ ملعون سلمان رشدی کی سیٹینک ورسزہندوستان میں کالعدم قرار ہے لیکن اسے نیٹ کے ذریعہ آسانی سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔جس کی شکل تک دیکھنے سے ایک طبقہ نالاں ہے‘نام نہاد معاشرتی ویب سائٹوں کی بدولت اس کے پیغامات پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔حتی کہ این ڈی ٹی وی کی اینکر برکھا دت کی عین اس زمانے میں جبکہ مخالفت کا درجہ حرارت نقطہ عروج پر تھا تو طویل گفتگو پیش کی جاتی ہے اور مسلم طبقہ کی دلآزاری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نیٹ پر بھی مستقل طور پر پیش کردیا جاتا ہے۔ دراصل سینسر شپ پالیسی کے پس پشت کسی علاقے کی حدود میں سیاسی یا انتظامی حقوق کار فرما ہیں لیکن اس مجازی دنیا میں قوموں کی نافذ کردہ شرائط اورحدیں بے معنی‘لغو‘بیکاراور معطل ہو جاتی ہیں۔ نیٹ پر پھیلی ہوئی لغویات واقعی سچ مچ ناخوشگوار ہیں لیکن نیٹ پر بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں۔ لغویات‘ فضولیات اور دلآزاری پر مبنی معلومات پر شکنجہ کسنے اور محدود کرنے اور اچھی چیزوں کی حفاظت کرنے کا طریقے ثقافتی ہی ہو سکتے ہیں ، ڈوئچے ویلے فیس بک کی نئی ٹیکنالوجی بھی اس میں بہت دور تک کیسے کام آسکے گی؟ اصل مسئلہ تو فرد کی روشن ضمیری اور بلند کرداری کا ہے جو دن بدن مفقود ہوتی جارہی ہے۔مفاد پرستی کے اس شیوع میں کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہے!
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115839 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More