کیوں نہیں کیا جاتاایک وقت میں ایک ہی کام ؟

کیا آپ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک وقت میں ایک سے زائد امور پر توجہ مرکوز کرنے سے ملازمین کی مجموعی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟اسلامی عقائد اور تحقیقات میں حیرت انگیز مماثلت نے ماہرین اور دانشوروں کو ہر زمانے میں چونکنے پر مجبور کیا ہے۔ اس قسم کی دریافت سے جہاں مسلمانوں کو اپنے عقائد میں مضبوط کرتی ہے تو دوسری جانب غیروں کو حق پر آنے میں مددگار اور معاون ثابت ہوتی ہے۔ اذکار ‘ وظاٹف اور نمازجیسی عبادات میں پوری یکسوئی سے محض خالق و مالک کی طرف متوجہ رہنے کو کہا جاتا ہے۔گویا دھیان کو تمام سمتوں سے ہٹا کر محض ایک ہی جابنب لگانا۔اس کے بغیر ان عبادات سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔غفلت کے ساتھ ذکر سے ذاکر مزید غافل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی لئے دین اسلام میں ایک وقت میں ایک ہی کام کو یکسوئی سے کرنے کی متعدد بشارتیں وارد ہوئی ہیںجسے مرتبہ احسان سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔دراصل عقیدہ یا ایمان صرف اسی وقت زندہ قوت بنتا ہے جب وہ عمل کے سانچے میں ڈھل جائے اور ایسا ہونا قوت یقین کے بغیر ممکن نہیں۔

اس سلسلے میںطبی محققین کابھی خیال ہے کہ ایک وقت میں ایک کام کرنے سے انسانی ذہن کی صلاحیتیں قائم رہتی ہیں اور وہ دماغی طور پر بلا وجہ تھکتا نہیں۔بالکل اس طرح جیسے نماز کی بے دھیانی خارجی زندگی میں بھی منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ذہن کو زیادہ کاموں میں الجھانے سے سوچ بچار اور توجہ مرکوز کرنے کی قوت متاثر ہوتی ہے۔ارتکاز کے فقدان سے فرد منتشر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ موجودہ دور میں کسی بھی دفتر میں معقول منصب پر کام کرنے والے فرد کو ایک ساتھ کئی معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کو روزانہ کی بنیاد پر اپنی ای میل کے علاوہ معمول کی دفتری خط و کتابت کے ساتھ ساتھ افسران بالا کے ٹیلی فون اور سوالات کے جوابات بھی دینے ہوتے ہیں۔ اس دوران اس کا دماغ کئی دیگر معاملات میں بھی الجھا رہتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ آج کل ایک ساتھ بے شمار معاملات پر توجہ صرف کرنا کسی بھی دفتر کا معمول ہے جبکہ محققین کا خیال ہے کہ کثیر المعاملاتی صورت حال انسانی ذہن کے اندر کچھ ایسی سوچوں کو بھی ابھارتی ہے جن سے کچھ دیر کیلئے دفتری مسائل میں الجھا ہوا فرد اپنی توجہ کھو بیٹھتا ہے اور یہ بسا اوقات درد سری کا باعث بنتا ہے۔ نفسیاتی اور ذہنی امراض کے محققین کا خیال ہے کہ موجودہ دور کا دفتری ماحول ایسا ہے کہ فضاءمیں پھینکی گئی کئی گیندوں کو ایک شخص نے کیچ کرنا ہے اور ایسے میں کچھ کا گر جانا یقینی ہے۔جرمنی کے دارالحکومت برلن میں حادثاتی انشورنس کے ادارے میں کام کرنے والے صحت وسلامتی کے ماہر پروفیسر ڈرک ونڈے موتھDirk Windemuth دفتروں کے کثیر المعاملاتی ماحول کو تحسینی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ ان کے نزدیک کسی بھی دفتر میں کام کرنے والے ملازم کی صلاحیتیں ایک ساتھ کئی معاملات کا سامنا کرنے سے متاثر ہوتی ہیں۔ پروفیسر ونڈے موتھ کا کہنا ہے کہ وہ ملازمین جو ایک ساتھ بہت سے امور کو طے کرنے کی سوچ رکھتے ہیں وہ درست نہیں لہٰذایہ ایک بنیادی غلطی قرار دی جا سکتی ہے۔

پروفیسر ڈرک ونڈے موتھ کا خیال ہے کہ ایک وقت میں ایک کام کو مکمل کرنا احسن ہوتا ہے اور زیادہ امور کو نبھانے کی کوشش کے دوران عدم توجہی کے علاوہ ذہنی صلاحیتوں کو مرتکز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔بعض دیگر محققین کا بھی خیال ہے کہ دفتری ماحول میں ’مداری‘ کا تماشہ‘ بسا اوقات متاثر کن نہیں ہوتا اور ویسے بھی فطرت نے انسانی دماغ کی تخلیق ایک وقت میں ایک کام مکمل کرنے کے انداز میں کی ہے۔ جرمن ریسرچر پروفیسر ڈرک ونڈے موتھ نے بھی دفتری معاملات میں ملازمین کی کسی مسئلے میں پیشرفت اور کسی میں سستی یا تاخیر کو توانائی اور وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔پروفیسر ڈرک ونڈے موتھ کا کہنا ہے کہ دفتری فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک وقت میں ایک سے زائد امور پر توجہ مرکوز کرنے سے ملازمین کی مجموعی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان میں توجہ مرکوز نہ کر سکنے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جرمن سماجی ریسرچر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی کام کی ادائیگی کے دوران ٹیلی فون کو ریسیو کرنے سے بھی پہلے سے جاری عمل یقینی طور پر متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات ٹیلی فون سننے کے دوران توجہ کے ضائع ہونے سے پہلے سے جاری کام مکمل تو ہوجاتا ہے لیکن امکاناً وہ اس درجہ شاندار نہیں ہوتا جتنا اندازہ لگایا گیا ہوتا ہے۔

جرمن شہر لائپزِش کی یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی ریسرچرآنیا بائیٹگےAnja Baethgeکا بھی خیال پروفیسر ڈرک ونڈے موتھ جیسا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دوران کام ای میل کا لینڈ کرنا‘فرد کی سوچ کو متاثر کرتا ہے اور پہلے سے جاری امور میں تاخیر کا سبب بنتا ہے۔برلن شہر کے پروفیسر ڈرک ونڈے موتھ کے نزدیک سماجی رابطے کی ویب سائٹیں بھی ملازمین پر پریشر یا ذہنی دباؤ بڑھانے کا سبب بن رہی ہیں کیونکہ اب دفاتر کے پروفائل صفحات ان پر دستیاب ہیں جبکہ ملازمین کی سرگرمیوں پر خاص وعام نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ریسرچر کے خیال میں اس وقت ترسیل معلومات کا عمل کئی واسطوں پر جاری ہے اور یہ بھی کسی ملازم کی فکر اور سوچ کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ مسینجرز Massengers، فیس بکFace Book اور ایسی دوسری ویب سائٹوں میں ملازمین کی شمولیت بھی ان کی فوکس اور توجہ میں کمی کا سبب بن رہی ہیں۔دفاتر میں ڈی ٹی پی آپریٹنگ میں مصروف کارکنان کام چھوڑ کر ان سائٹوں میں مشغول ہوجاتے ہیں جس سے ان میں چڑچڑا پن بھی دیکھا گیا ہے۔

لہٰذاایک وقت میں ایک قدم اٹھایا جائے لیکن ہر قدم جما ہوا اور مستحکم ہو تو کوہ ہمالیہ جتنی مشکلات پر بھی آہستہ آہستہ قابو پایا جا سکتا ہیں۔ایک ایک لمحہ میں ایک ایک بیج بو یا جائے تو بنجر زمینوں میں لہلہاتی فصلیں اور ویران جگہوں پر ہرے بھرے جنگل اگائے جا سکتے ہیں۔ایک ایک لمحہ میں گرنے والا ایک ایک قطرہ آہستہ آہستہ چشموں اور دریاؤں کو جنم دے دیتا ہے۔ایک ایک لمحہ میں لکھا جانے والاایک ایک لفظ آہستہ آہستہ عظیم تخلیقات کی شکل اخیتار کر لیتا ہے۔ ایک ایک لمحہ میں لگایا جانے والاایک ایک پتھر آہستہ آہستہ ایک عظیم الشان محل تعمیر کر دیتا ہے۔ایک وقت میں ایک دشواری کا حل آہستہ آہستہ زندگی کی تمام مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔ ایک وقت میں علم کا ایک موتی جمع ہوتے ہوتے ذہن کو فہم و دانش کے انمول خزینوں سے بھر دیتا ہے۔اس زندگی کا خرچ ہونے والا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک دن آخر کاراس آخری منزل تک پہنچا دیتا ہے جسے عرف عام میں موت کہا جاتاہے۔ثابت ہوا کہ لمحہ لمحہ مل کر یا تو تعمیر کرتے ہیں یا تخریب۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم گزرنے والے لمحے میں اپنی تعمیر کرتے ہیں یا تخریب۔اگر کسی ٹائپسٹ کو ملازمت سے قبل ایک ایسے کمرے میں لے جایا جائے جہاں ہزاروں لاکھوں خطوط اور کاغذات کے ڈھیر لگے ہوئے ہوں اور اس کو بتلایا جائے کہ یہ دوران ملازمت اس کو ٹائپ کرنے ہوں گے تو سوچئے کہ وہ کیا کرے گا؟وہ فوراِ یہی جواب دے گاکہ میں باز آیا ایسی ملازمت سے اور راہ فرار اختیار کرے گا۔لیکن ایک ایک کرکے وہ یہ سب کام بخوشی کر لے گا۔

بہرکیف ایک وقت میں ایک ہی کام کا اصل کی اصل مشق مرتبہ احسان کی طرف رجوع کرنے سے نصیب ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ یقین مشاہدے سے آتا ہے اور ایمان کو مشاہدہ حق کے مقام تک پہنچا دینا مرتبہ احسان کہلاتا ہے جس کے حصول کا ذریعہ تصوف و طریقت ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ صرف تصوف ہی مذہبی واردات کی وہ صورت ہے جو تعلیمات اسلامی اور کیفیات ایمانی کے عملی روحانی تجربہ سے نمو حاصل کرتی ہے، یہی مشاہدہ کا وہ نظام ہے جس سے عقائد کی کیفیات کا باطنی مشاہدہ ہوتا ہے۔ تصوف ہی وہ علم ہے جو عقیدہ اور ایمان کی عملی تصدیق کرتا ہے۔ جب تصوف کے ذریعے مشاہدہ عقیدے کی تصدیق کر دے تو عین الیقین کے نتیجے میں وہ عمل وجود میں آتا ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت مضمحل اور نابود نہیں کر سکتی۔ احسان اور تصوف کا عقیدے سے تعلق ایسے ہی ہے جیسے عقیدے کا عمل سے یا جسم کا روح سے تعلق ہے۔ اسلام اگر ایک عقیدہ ہے تو احسان اس کی عملی صورت کا نام ہے۔ عقیدہ جب تک عمل کاقالب اختیار نہ کرلے‘ وہ ایک بے جان لاشے کی مانند ہے۔ اس کی حقیقت وہم سے زیادہ نہیں۔گویا عمل اصل چیز ہے۔جس طرح یہ مالی ایک بیج لےکر اس پر محنت کرتا ہے راتوں کو جاگتااور اسے پانی دیتاہے ۔اس کیلئے برسوں ایثار کرتاہے بھوکا رہتاہے مگر اس باغ کی ضرورتیں پوری کرتاہے۔ایک وقت میں صرف ایک ہی باغ کو بڑا کرتا ہے۔ ساری توجہ اور محنت اسی پرمجتمع کرتاہے‘ اسی طرح انسان بھی اپنے بے شمارخیالات میں سے ایک کا انتخاب کرکے اس پربرسوں محنت نہ کرے تو کامیابی نہیں پاسکتا۔ایک متعین کام پر ہمت اور حوصلہ ہارے بغیر مسلسل محنت ہی کامیابی کی پہلی شرط ہے۔محض عمدہ خاکے تیار کرلینا اورمتعدد عمل کرنا کامیابی سے کیسے ہمکنار ہوسکتا ہے؟
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115834 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More