سر بلندی

آج کی دنیا اتنی زیادہ بدل چکی ہے کہ اس کا موازنہ گزرے کل کے ساتھ ہر گز نہیں کیا جا سکتا۔ موجو دہ دور میڈیا اور انفارمیشن کا دور ہے اور اسے شخصی آزادیوں کے دور سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ انسانی حقو ق کااحساس اور انکا احترام موجودہ دور کی خا ص پہچان ہے جمہوری قدروں نے بنیادی انسانی حقوق کے احترام میں جس دلکشی سے رنگ بھرے ہیں اس نے طالع آزماﺅں کو بہت مایوس کیا ہے اور انکی تلواریں کند ہو کر رہ گئی ہیں ۔ مشرقِ وسطی کی عوامی لہر نے جمہوری قدروں کو جو نئی پذیرائی عطا کی ہے اس سے بڑے بڑے طالع آزما ﺅں پر کپکپی طاری ہے۔ مہم جو تو ہمیشہ سے اقتدار پر شب خون کے خواب دیکھتے رہتے ہیں لیکن یہ تو سول سوسائٹی کے جمہوریت پسند افراد کا کمال ہے کہ وہ طالع آزماﺅں کو اس جانب دیکھنے کی اجازت مرحمت نہیں فرما رہے ۔ جنرل پرویز مشرف کی اقتدار سے ذلت آمیز رخصتی کے بعد یہ امید بندھ چلی تھی کہ اب جمہوریت کو پاکستان میں کوئی خطرہ لا حق نہیں ہو گا اور جمہوری نظام با حسن و خوبی چلتا رہےگا لیکن افسوس صد افسوس کے ایسی ساری آرزﺅں کا خون ہو رہا ہے اور جمہوریت کا نوزائدہ پودا ایک دفعہ پھر تند ہواﺅں کی زد میں ہے۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے جمہوریت کو بچانے کےلئے مفاہمتی سیاست کا ایک نیا انداز متعارف کروایا تاکہ جمہوریت کو لاحق خطرات سے بہتر انداز میں نپٹا جا سکے۔ اس نے ایک ایسی سیاست کی داغ بیل ڈالی جس میں کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا ۔ کسی پر نا حق مقدمات قائم نہیں کئے جائینگے ۔ کسی کو ملک بدری پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ کسی کی تحریر و تقریر پر کوئی قدغن نہیں لگا ئی جائےگی اور کسی کو ریاستی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائےگا ۔جیل میں اپنی جوانی کے ساڑھے گیارہ سالوں کا خراج دینے والے شخص سے ایسے ہی رویوں کی توقع رکھی جانی چائیے تھی جس میں انتقام کی بو نہ آتی ہو ۔

صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے طوفانوں کو بھی دیکھا ہے اور سازشوں کا بھی مقابلہ کیا ہے ۔ اس نے اپنی آنکھوں کو سامنے اس ملک کی مقبول ترین قائد اور چاروں صوبوں کی زنجیر محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل ہو تے ہو ئے بھی دیکھا ہے اور اسی قتل کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں غم و غصہ اور نفرتوں کے طوفانوں میں پاکستان کو توڑنے کے نعروں کو اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے لیکن پھر بھی اس نے پا کستان کھپے کا نعرہ لگا کر ساری نفرتوں کو پاکستان کی ایکتا اور استحکام کی جانب جس باجرات انداز سے موڑ دیا تھا وہ اسی کا کمال تھا۔ ایسا بڑا کام اور کمال کوئی بہادر شخص ہی کر سکتا تھا اور بہادری صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے لہو میں رچی بسی ہے۔کوئی شخص حتمی طور پر یہ نہیں بتا سکتا کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے اقتدار کا سورج ابھی کتنی دیر تک اور چمکے گا اور پاکستان پر پی پی پی کتنی دیر تک مزید حکمرانی سے بہرہ ور رہےگی پاکستان میں تو کسی بھی بات کو حتمی طور پر کہنا بہت مشکل ہو تا ہے کیونکہ طالع آزما سارے اندازوں کو چشمِ زدن میں غلط ثابت کر دیتے ہیں ۔ بہر حال صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے مخالفین اس سے زندگی کی ہر متاع چھین سکتے ہیں لیکن اس سے اسکی بہادری کا جوہر نہیں چھین سکتے کیونکہ یہ جوہر ہی اس کی اصل طاقت ہے۔وہ لڑتے لڑتے جان دےدےگا لیکن ہتھیار نہیں ڈ الے گا اور پھر اسکی قبر کے کتبے پر لکھا جائےگا کہ یہاں پر ایک ایسا بہادر شخص دفن ہے جو طالع آزماﺅں کی سازشوں کے سامنے سینہ سپر رہا اور لڑتے لڑتے اپنی متاعِ حیات کی قربانی دے گیا۔

پاکستانی سیاست میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کی رخصتی کےلئے اسٹیبلشمنٹ اپنے کارڈز بڑی مہارت سے کھیلتی رہتی ہے اور یوں حکومتوں کی رخصتی میں ایک فیصلہ کن قوت کا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ اگر ہم 1958 کے ایوب خان کے مارشل لاءکا مطالعہ بنظرِ عمیق کریں تو یہ حقیقت اظہر من ا لشمس نظر آتی ہے کہ جمہوری حکومتوں کی بساط لپیٹنے میں طالع آزما جرنیلوں نے ہمیشہ اپنی فوجی حیثیت اور قوت کا بے جا استعمال کیا ہے۔ جنرل ضیا لحق کے گیارہ سالہ مارشل لاکے بعد جتنی حکومتیں بھی بنیں ان میں سے کوئی حکومت بھی اپنی معیاد پوری نہ کر سکی ۔ فوجی جنتا اور عدلیہ کے باہمی گٹھ جوڑ نے کرپشن کے ا لزا مات کے تحت جمہوری حکومتوں کو برخاست کر کے ان کی قیادتوں کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ سلوک روا رکھا اور اگر کسی سیاستدان نے خوداری اور انا نیت کا مظاہرہ کیا تو اسے جان سے مار دیا گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نوز شریف اس کی بڑی وا ضح مثا لیں ہیں۔ میثاقِ جمہوریت کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ اب ایک ایسا جمہوری کلچر پروان چڑ ےگا جس میں منتخب حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائےگا لیکن بدقسمتی سے وہ تجربہ بھی بار آور ہوتے ہوئے نظرنہیں آرہا کیونکہ اپوزیشن عدلیہ اور فوجی جنتا موجودہ حکومت کو ختم کرنے کےلئے ایک ایسا اسکینڈل لے کر میدان میں نکلی ہے جس میں حکومت کی رخصتی کے ساتھ ساتھ پارٹی کےلئے اپنے قائدین کی گردنیں بچا نا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری پر غداری کا الزام اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ موجودہ حکومت کی رخصتی کےلئے سارے مخالفین یکجا ہیں۔

ایک طرف میمو گیٹ سکینڈل ہے تو دوسری طرف این آر او کے تحت توہینِ عدالت کی تلوار بھی لٹکا دی گئی ہے تاکہ اگر ایک وار سے بچ نکلنے کی امید ہو تو دوسری راہ پر شکار کو گھیرا جا سکے ۔ آجکل حکومت اور عدلیہ کے تعلقات اپنی انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ فوج کے اعلٰی عہد یدار اپنے ہی سپریم کمانڈر سے بات چیت کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔اپنے ہی صدر اور وزیرِ اعظم کے خلاف فوجی قیادت کا الزا مات لگا نا اور ان کے خلاف مقدما ت میں فریق بننا صرف پاکستان جیسے ملک میں ہی دیکھا جاسکتاہے۔ عدلیہ منتخب وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدا لت کا مرتکب ٹھہرا رہی اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے خلاف سوئیس عدالتوں کو خط لکھنے کےلئے مجبور کر رہی ہے۔ اس کرہِ ارض کا شائد یہ پہلا واقعہ ہو گا کہ کسی ملک کی اعلٰی ترین عدالت نے ایک منتخب وزیرِ اعظم کو توہینِ عدالت کے جرم میں نااہل قرار دے کر گھر بھیجا ہو۔ جنرل ضیا ا لحق کا ایک پراناحو اری اور خوشہ چین وکیل چند دن قبل ٹیلیو یژن پر بڑی ڈھٹائی سے کہ رہا تھا کہ جارج ڈبلیو بش اور الگوہر کے صدارتی معرکہ میں اس طرح کی مثال موجود ہے کیونکہ اس میں امریکی سپریم کورٹ نے الگوہر کو گھر بھیجا تھا۔ ارے بھئی ا لگو ہر صرف صدارتی امیدوار تھا وہ امریکہ کا صدر کب بنا تھا لہذا ہمار ے وزیرِ اعظم کی مثال کا اس پر اطلاق کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کچھ لوگ ذاتی دشمنی میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ وہ سچ کے اظہار میں بھی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ جارج ڈبلیو بش اور الگوہر کے درمیان صدارتی انتخاب میں انتخابی دھاندلی کا معاملہ تھا اور سپریم کورٹ نے جارج ڈبلیو بش کے حق میں فیصلہ دیا تھا ۔ اس طرح کی انتخابی عذ ردا ریاں تو ہر جمہوری ملک میں ہوتی ہیں جس پر عدالتیں اپنے فیصلے سناتی رہتی ہیں لیکن ا یسے واقعات کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں منتخب وزیرِ اعظم کو نا اہل قرار دینے سے جوڑ دینے کا فن کوئی تعصب انگیز آئینی ماہر ہی کر سکتا ہے۔ آئین کی دفعہ ۸۴۲ اتنی واضح ہے کہ اند ھوں کو بھی نظر آتی ہے لیکن چند آنکھوں والے اسے دیکھنے او سمجھنے سے قاصر ہیں چہ بو العجبی است۔۔۔

وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 16 جنوری کو پالیمنٹ کی بالادستی کی تار یخی قرارداد کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں جو خطاب کیا وہ انتہائی پر اثر تھا ۔ ان کے خطاب کو غیر جانبدار مبصرین نے بھی بہت سرا ہا ہے ۔ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے اس اعلان پر کہ وہ سپریم کورٹ کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں اور 19 جنوری کو خود سپریم کورٹ میں پیش ہو کر اپنے عمل سے اسکی گو اہی دیں گئے عوام کے دل جیت لئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ممبران کے ڈیسک بجانے سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ ممبران کا یہ انداز لوگوں کی دل کی آواز تھی ۔ وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے 1987 میں اپنی ملاقات کا ایک اچھوتا واقعہ بھی بیا ن کیا ۔ منتخب وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ 1987 میں جب میں نے پی پی پی میں شمولیت کا فیصلہ کیا تومحترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھ سے ایک لیٹر لکھنے کےلئے کہا جس میں مجھ سے لکھوا یا گیا کہ میں 1973 کے آئین کو بحال کروانے کےلئے اپنی کوششیں جاری رکھونگا ۔ حسنِ اتفاق دیکھئے کہ 34 سال گزر جانے کے بعد اس لیٹر میں کئے گئے وعدے کو حقیقت کا جامہ پہنانے کی سعادت میرے ہی حصے میں آئی ہے۔ وہ لیٹر آج بھی میرے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ بی بی شہید کو مجھ سے کتنی توقعات تھیں۔ مجھ پر میرے خدا کی خاص کرم نوازی ہے کہ میں نے ممبرانِ پارلیمنٹ کے تعاون سے ان توقعات کو پورا کیا ہے۔ میں جس کرسی پر آج بیٹھا ہوں اس پر 1973 کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو اور آئین کی بحالی کی جنگ لڑنے والی شہید بی بی بیٹھا کرتی تھیں انھوں نے آئین، قانون اور جمہوریت کےلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے لہذا یہ کرسی مجھ سے بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ میں بھی آئین قانون اور جمہوریت کےلئے قائم کردہ معیاروں پر پورا اتروں۔میں آج اسی معزز ایوان میں اعلان کرتا ہوں کہ میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی سربلندی اور بالا دستی کےلئے اپنے قائدین کی متعین کردہ راہ سے کبھی نہیں ہٹونگا۔ عدلیہ سے پی پی پی کو خاص محبت ہے اور عدلیہ کی آزادی کی جنگ پی پی پی نے بڑی شان اور دلیری سے لڑی ہے۔ خاردار تاروں میں گھرے ہوئے ججز کو رہا کرنے اور انھیں بحال کرنے کا سہرا پی پی پی حکومت کے سر ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں ہی توہینِ عدالت کے جرم میں نوٹس بھی ایشو ہو گیا ہے جو ہمارے لئے انتہائی تکلیف اور دکھ کی بات ہے لیکن پھر بھی آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی سربلندی اور پاسداری کےلئے ہمارا عزم کسی بھی حال میں متزلزل نہیں ہو گا کیونکہ یہی ایمان ہماری سیاست کی روح ہے ۔
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ راہ سیاہی لکھی گئی ۔۔۔یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے ( فیض احمد فیض ۔ )
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 620 Articles with 452608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.