تحریک انصاف کی مقبولیت اور پیپلز پارٹی کی جگ ہنسائی

بات کرتے ہیں بے نظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقعہ پرنوڈیرو لاڑکانہ میں ہونے والے پیپلز پارٹی کے جلسے عام اور 25 دسمبر کو کراچی میں ہونے والے تحریک انصاف کے پہلے بڑے جلسے کی ، جس کی کامیابی کی مبارکباد متحدہ کے قائد الطاف حسین نے بھی دی جبکہ اس کی کامیابی سے ملک کی بڑی جماعتوں خصوصاََ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں بے چینی اور توڑ پھوڑ کا آغاز بھی ہوگیا۔

لیکن ملک کے حالات دیکھ کر میرے ذہن میں سوال ابھر رہا ہے کہ ” چور اگر سپاہی بن جائے تو کیا مدعی خاموش ہوکر چپ چاپ تماشہ دیکھتا رہے گا؟اس سوال کا جواب ہم پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں کیونکہ حکمران تو ابھی مصروف ہیں اپنے مفاداتی معاملات کو سلجھانے میں۔

صدر آصف علی زرداری نے اپنی اہلیہ کی چوتھی برسی پر اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہماری سیاست مورثی سیاست نہیں ہے“ پھر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ” سیاسی دوستوں کو بتانا چاہتاہوں کہ بی بی کا قرضہ آصفہ اتارے گی“۔ میرے سمجھ میں نہیں آرہا کہ زرداری صاحب بے نظیر کے کس قرض کی بات کررہے تھے ؟یقینا وہ کوئی سیاسی یا حکومتی قرض کی بات نہیں کررہے ہونگے بلکہ ان کااشارہ بے نظیر کے کسی ذاتی قرض کی طرف ہوگا ، وہ سیاسی قرض کی بات کس طرح آصفہ کی طرف بڑھاسکتے ہیں کیونکہ ان کی سیاست تو مورثی نہیں ہے! بہرحال حکومت نے ملک اور قوم کے ساتھ گزشتہ چار سال سے جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ عام طور پر اپنی وراثتی جاگیر کے ساتھ ہی ہوتا ہے ،جب چاہا ملک سے باہر چلے گئے اور جب چاہا ملک کے کسی بھی ادارے کو نقصان پہنچادیا اور اپنا من مانا فیصلہ سونپ دیا، جو چاہے قدم اٹھا لیا اور پھر بغیر کسی شرمندگی کے واپس لے لیا،سچ تو یہ ہے کہ حکمرانوں نے ملک کے ادارے اور پوری قوم کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ایک سال قبل تک کہا کرتے تھے کہ فوج اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی ہے جبکہ چند روز قبل انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ایک بار پھر جمہوری حکومت کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں۔ قوم یہ سوچنے پر حق بجانب ہے کہ کیا ایسی ہوتیں ہیں حکومتیں ، کیا یہ ہی ہوتی ہے جمہوریت جس میں نہ قوم کی فکر نہ قومی اور اہم اداروں کی پرواہ ، بس اپنی من مانی کی جائے اور ساری ذمہ داری پارلیمنٹ پر ڈال دی جائے۔

پاکستان تحریک انصاف نے 25 دسمبر کو کراچی میں کامیاب جلسہ کا انعقاد کرکے سیاست کے میدان میں جو ہلچل مچائی اس کی بازگشت ملک کے ہر حصے میں ہے ،اس سے قبل لاہور اور پھر قصور میں تحریک انصاف نے کامیاب جلسوں کا انعقاد کرکے سیاسی جماعتوں کی صفحوں کو ہلاکر رکھ دیا تھا شاہ محمود قریشی ، جہانگیر ترین ، مخدوم جاویدہاشمی اور اب سردار آصف کی تحریک انصاف میں شمولیت سے جہاں پیپلز پارٹی اور نواز شریف کو تاریخی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہیں پر اس تیزی سے پرانے سیاسی کھلاڑیوں کے عمران خان کی قیادت کو تسلیم کرنے اوران کی پارٹی کا حصہ بننے پر بعض دانشور اور سیاسی ذہن رکھنے والے لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ تحریک انصاف کی اچانک مہینوں اور سالوں کے بجائے دنوں میں تیزی سے مقبولیت کے اس نئے کھیل میں اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ نہیں ہے۔اس طرح اپنی سرگرمیوں کے تیز کرنے کے ساتھ ہی عمران خان اور تحریک انصاف پر اسٹبلشمنٹ کی سپورٹ کے الزامات تحریک انصاف کے لئے کسی بد شگونی اور بدنامی سے کم نہیں ہیں اس کے لئے عمران خان کو آنے والے دنوں میں اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا اور اپنی جدوجہد کو نئے طریقے سے چلانا ہوگی۔

عمران خان واضع طور پر اور ایک سے زائد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی میں صرف اس کے لئے جگہ ہے جو اپنے اثاثے ظاہر کرے گا ، کراچی کے جلسے میں انہوں نے اس جملے کو معمولی سی ترمیم کے بعد کچھ اس طرح کہا کہ ”ہم کسی ایسے شخص کو ٹکٹ نہیں دیں گے جو اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرے گا انہوں نے کہا کہ میری ٹیم میں کوئی سفارشی نہیں ہوگا چاہے کوئی جتنی چمچہ گیری کرلے لیکن بغیر میرٹ کوئی آگے نہیں آئے گا“۔عمران خان کے دعوؤں اور بیانات میں آنے والی ترامیم کونوٹ کیا جارہا ہے اور اسی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ عمران خان کو دیگر سیاست دانوں کی طرح قوم کوزیادہ عرصے تک بیوقوف بنانے اور لگی لپٹی کہنے کا موقعہ نہیں ملے گا ۔

جمہوریت کے چمپیئنز اور عمران خان کے لئے لوگ بہت تکلیف اور مشکلات میں آخری موقعہ فراہم کرنے پر تیار ہوئے ہیںاس لئے عمران خان کو اپنے ساتھ ہجوم کا اظہار کرنے کے بجائے کروڑوں پاکستانیوں کے لئے اور پاکستان کی حقیقی خوشحالی کے لئے عملاََسرگرم ہوجانا چاہئے آئندہ انتخابات کے انعقاد تک شوکت خانم میموریل ہسپتال کی طرح مزید ہسپتال یا کلینک اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے مختلف اداروں کے قیام کو یقینی بنانا چاہئے اور جلسوں پر رقوم کے ضیا ع کے بجائے ملک اور قوم کی ترقی کے لئے تحریک کو فعال کرنا چاہئے ۔

اگر عمران خان اس خوش فہمی میں ہیں کہ لوگ ان سے ایک سیاست دان اور ایک سابق کرکٹر کی حیثیت سے محبت کررہے ہیں یا ان کے دعووں اور باتوں کی وجہ سے ان کے قریب آرہے ہیں تو یہ ان کی بھول اور خوش فہمی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت کے” آزمودہ کھلاڑیوں“ اور موجودہ ڈکٹیٹر شپ سے ”بدتر “جمہوری حکومت سے لوگ تنگ آچکے ہیں ،مہنگائی ، بجلی ، گیس ، روزگار ،رہائش ،تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم قوم اپنے جمہوری اور پرامن احتجاجی ردعمل کے طور پراور جمہوری طریقے سے حکومت کی تبدیلی کے لئے تحریک انصاف اور عمران خان کے قریب آرہی ہے اور یقین نہ کرنے کے باوجود کوئی اوردوسرا میدان میں نہ ہونے کے باعث لوگ ان سے اب تک صرف توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔

بہرحال لوگوں نے عمران خان اور تحریک انصاف میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرکے کراچی کو ”اپنا علاقہ“ سمجھنے والوں کو بھی پیغام دیدیا ہے کہ اگرشفاف انتخابات کو یقینی بنایا گیا اور اس مقصد کے لئے فوج کی نگرانی میں انتخابات کرائے گئے تو کئی ساسی جماعتوں کی اصلیت بھی سامنے آجائے گی ، یہ اور بات ہے کہ شفاف انتخابات کے خوف سے یا دھاندلی کرائے جانے کے مواقع نہ ملنے کے خدشات سے ہی کچھ پارٹیاں الیکشن کا بائیکاٹ کردیں۔لیکن حقیقی جمہوری حکومت اسی وقت وجود میں آسکتی ہے جب شفاف اور منصفانہ اور ایماندارانہ انتخابات ہوں۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152787 views I'm Journalist. .. View More