کسے فکرہے گمشدہ بچوں کی؟

ہندوستان کے متعدد مقامات سمیت دہلی میں روزانہ بچوں کی گشدگی کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔اخبارات میں شائع رپورٹوں پر یقین کریں توہرسال 10لاکھ بچے گمشدگی: اغواء یا بلی چڑھانے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ گویاہندوستان میں اوسطاہر 10سیکنڈ کے دوران ایک بچہ اپنے ماں باپ اور سرپرستوں کیلئے سوہان روح بن جاتا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے ہندوستان بچوں کے کاروبار کا ایک بڑا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ بچوں کا اغوا کرکے محض زرتاوان حاصل کرنا چھوٹے موٹے مجرموں کا دھندہ نہیں ہے۔ ہتھیاروں ، منشیات کی اسمگلنگ اور نکسلی سرگرمیوں کیلئے بھی بچوں کا اغوا ءکیا جارہا ہے۔1996 کے دوران یونیسیف نے ہندوستان میں بچوں کے جسمانی استحصال پر ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ بی بھامتی کی اس رپورٹ میں بچوں کے اغواءکا جسم کاروبار سے براہ راست تعلق بتایا گیا تھا۔ اس کے بعد 2003-04 میں قومی انسانی حقوق کمیشن نے خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ پر ایک رپورٹ تیار کروائی۔ کمیشن کی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہر سال45 ہزار بچوں کا اغوا ہوتا ہے اور ان میں سے11ہزار کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کمیشن کی بچوں کے اغوا کے بارے میں سنجیدہ رپورٹیں سامنے آنے کے باوجود مرکزی حکومت نے ابھی تک بچوں کے غائب ہونے کی صحیح تعریف طے نہیں کی ہے۔ اگر کوئی شخص پولیس تھانے میں اپنے بچے کے گم ہونے کی رپورٹ درج کرانے جاتا ہے تو پولیس افسر کو یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ وہ کس دفعہ کے تحت مقدمہ درج کرے لیکن اگر وہ شخص یہ کہے کہ اس کو بچے کے اغوا کا شک ہے تو پولیس افسر اس کی شکایت اغوا ہونے والی تعزیرات ہند کی دفعہ 363 کے تحت معاملہ درج کرے گا۔عام آدمی نہیں جانتا کہ وہ اپنے بچے کے گم ہونے کی رپورٹ کیسے لکھوائی جائے۔ پولیس والا بھی نہیں جانتا کہ وہ اس کی رپورٹ کس طرح لکھے۔ اس طرح گم ہونے والا بچہ اس ہاتھی کی طرح ہے جس کے مخلف حصوں پر ہاتھ رکھ کر3 اندھے الگ اندازے لگاتے ہیں۔ پولیس والا اپنے حساب سے ہی بچے کے غائب ہونے کی رپورٹ تیارکرتا ہے۔ اگر 14 سے 17 سال کی کسی لڑکی کو اغوا ہو جائے اور لڑکی کا خاندان غریب ہو تو پولیس اغوا کا مقدمہ درج کرنے کی بجائے عجیب طرح کی باتیں کرکے لڑکی کے ماں باپ کو شدید توہین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سلسلے میں انفرادی سطح کے علاوہ مختلف تنظیموں کے ذریعے بھی کوششیں جاری ہیںجن میں 2 سال کی طویل تحقیق کے بعد ’بچپن بچاؤ آندولن‘کی طرف سے ’مسڈ چلڈرن آف انڈیا‘ یعنی’ہندوستان کے لاپتہ بچے‘ نامی انگریزی کی کتاب تیار کی گئی ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ جنوری 2007 کے دوران اس وقت تیار ہوا جب نٹھاری سانحہ سرخیوں میں آیا تھا جس کے تحت ملک کے دا رالسطنت دہلی سے کچھ کلومیٹر کی دوری پر ہی نٹھاری گاؤں کے نالے میں تیس بچوں کے جسم کے حصہ برآمد ہوئے تھے۔ نٹھاری واقعہ سے بچوں کو اغوا کر ان کے جنسی استحصال کے سنسنی خیزواقعے کاانکشاف ہوا تھا۔اسی دہائی میں شروع ہوئی غیر سرکاری تنظیم ’بچپن بچاؤ آندولن‘ نے 1998 میں بال مزدوری کے خلاف103 ممالک میں گلوبل مارچ کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا تھا جس کے بعد اقوام متحدہ نے 2000 کے دوران بچوں کے بارے میں ایک پروٹوکول بنایا جس پر ہندوستان نے بھی دستخط کئے۔ اس کے بعد ہی این ڈی اے حکومت نے بچوں کیلئے الگ سے کمیشن بنانے کا عمل شروع کیا جسے بعد میں 2005 میں یو پی اے حکومت نے پورا کیا۔ مرکزی قانون این سی پی سی آرکے تحت ملک کی پندرہ ریاستوں میں بھی بچوں کی حفاظت سے متعلق کمیشن قائم ہو چکے ہیں۔بچپن بچاؤ آندولن کے بانی صدر کیلاش ستیارتھی نوبل انعام کیلئے نامزد ہو چکے ہیں۔ کتاب انہوں نے خود لکھی ہے۔ اس تحقیقی کتاب میں اہم کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر پی ایم نائر وہی شخص ہیں جنہوں نے دو سال کی مسلسل محنت کے بعد 2004 میں حقوق انسانی کمیشن کی رپورٹ تیار کی تھی۔

دہلی اور اطراف سے گم ہوئے کچھ بچے مل جانے کے بعد وراٹ نگر میں واقع بچپن بچاؤ تحریک کے آشرم میں پرورش پا رہے ہیں کیونکہ ان کے ماں باپ ان کی پرورش کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ اس کتاب میں ان بچوں کی گمشدگی کے کچھ واقعات بھی شامل کئے گئے ہیں جو پولیس کی لاپروائی کا پردہ فاش کرتے ہیں۔ دہلی کے سلطان پوری تھانہ علاقہ کی ایک کہانی تو سخت لاپروائی کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ سوا تین سال قبل یہاں رجنی نام کی تقریبا بارہ سال کی لڑکی تیس اگست 2008 کا اپنے گھر کے سامنے کھیلنے کے دوران اغواءہوا۔ رہی تھی۔ اس کی بڑی بہن نے پڑوس میں ہی رہنے والی بملا نام کی خاتون کے ساتھ رجنی کو دیکھا تھا۔ببلی نے اپنی بچی کے اغوا کی شکایت پولیس میں کی لیکن پولیس نے کوئی پروا نہیں کی۔سلطان پوری کی اسی گلی سے اپریل 2009 میں سجنا نام کی ایک اور لڑکی غائب ہو گئی۔ اس مرتبہ بھی پولیس نے معاملہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ گزشتہ سال جولائی میں سلطان پوری کے ہی منگل بازار سے مہک نام کی چار سال کی لڑکی غائب ہو گئی جبکہ اسی بلاک سے 12سالہ اعجاز بھی غائب ہو گیا۔ ان چار واقعات کے بعد علاقے کے لوگوں نے پولیس تھانے کا گھیراؤ کیا۔جب تک بچپن بچاؤ تحریک کے کارکنوں نے معاملے کو اوپر تک پہنچایاتواس وقت تک بملا رفوچکر ہو چکی تھی جبکہ اس بھاگ دوڑ کے نتیجے میں اسے اور اس کے شوہر کرتار سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں کے پکڑے جانے پر انکشاف ہوا کہ ان بچوں کو راجستھان میں بیچا جاتا تھا جنہیں بعد میں ممبئی بھیج دیا جاتا تھا۔ اس طرح کے نصف درجن واقعات سے این جی او کی جانب سے بچوں کو اغوا کر ان سے گھروں میں کام کروانے کا پردہ فاش ہونے اور بچے آزاد کروائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن نے ہر سال45 ہزار بچوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ حکومت کے سامنے رکھی تھی لیکن ملک کے 650 میں سے 392 اضلاع سے حاصل اعدادوشمار حاصل ہو سکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار یا توحق اطلاعات قانون کے تحت حاصل کئے گئے ہیں یا قومی جرائم ریکارڈ بیورو سے کئے گئے ہیں۔ شدید تگ و دو کے بعدمحض 20 ریاستوں اور4 مرکزی حکمرانی والے علاقوں نے بچوں کے اغوا اور انہیں ڈھونڈ نکالنے کے اعداد و شمارپیش کئے ہیں۔ ان20 ریاستوں کے 392 اضلاع میں جنوری 2008 سے جنوری 2010 کے دو سال کے دوران ایک لاکھ 17 ہزار 480 بچوں کو اغوا ہوا جن میں سے 74209 بچے برآمد کر لئے گئے جبکہ 41 ہزار 546 بچوں کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گم بچوں میں سے ایک تہائی بچے برآمد نہیں کئے جا سکے یعنی ان بچوں کو غیر قانونی کاموں کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ جن بیس ریاستوں نے اعدادوشمار دستیاب کروائے ہیں ان کو3 زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مہاراشٹر ، بنگال ، دلی ، مدھیہ پردیش ، کرناٹک اور اتر پردیش میں بچوں کا اغوا سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

اتراکھنڈ کے 13 اضلاع میں آٹھ ، آسام کے47 اضلاع میں سے19 اور آندھراپردیش کے23 اضلاع میں سے16 کی ہی رپورٹ آئی۔ اتراکھنڈ ، سکم ، میگھالیہ ، گوا ، ہریانہ اور اروناچل پردیش کو اس زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے جہاں بچوں کو ڈھوڑھ لئے جانے کی پولس کارروائی کافی تیز رفتار سے ہوئی۔ جیسے اتراکھنڈ کے 13 میں سے8 اضلاع میں جنوری 2008 سے جنوری 2010 تک 380 بچوں کے اغوا کے واقعات ہوئے لیکن ان میں سے 303 کو ڈھونڈ نکالا گیا جبکہ 77 بچوں کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا۔ ان بچوں کا کس کام میں استعمال ہو رہا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا۔تمام کوششوں کے باوجود پنجاب ، راجستھان ، گجرات ، اوڑیسہ ، تمل ناڈو اور جموں و کشمیر نے بچوں کے اغوا کی بابت اعدادوشمار دستیاب نہیں کروائے۔ راجستھان سے کپاس کے بیجوں کی پیداوار میں کام کیلئے ہر سال ہزاروں بچے گجرات اور مہاراشٹر لے جائے جاتے ہیں۔ اوڑیسہ، مہاراشٹر اور گجرات سے جسم فروشی کے کاروبار کیلئے بڑے پیمانے پر بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے لیکن حکومت یا پولیس کے پاس کوئی اعدادوشمار میسر نہیں ہیں جبکہ بلی چڑھانے کے واقعات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

گزشتہ دنوں انگریزیر ی روزنامہ اخبار انڈین ایکسپریس اور ٹائمز آف انڈیا سمیت مقامی اوربیرونی اخبارات نے اپنی رپورٹوں میں ہندوسان میں دیوتاﺅں کے نام پر انسانی قربانی کے خلاف سخت قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس رسم کے مکمل خاتمے پر زور دیا ہے جبکہ ہندوسانی تنظیم چائلڈ ویلفیئر اینڈ رائٹس کمیشن اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اپنے مطالبات میں کہا ہے کہ بچوں کے خلاف گھناﺅنے جرائم کا خاتمہ کیا جائے اورپورے ہندوستان میں انسانی قربانی جسے عرف عام میں ’بلی دینا‘ یا ’بھینٹ چڑھانا‘ کہا جاتا ہے، کے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔ تازہ ترین واقعات کے حوالے سے ہندی زبان میں شائع ہونے والے ہندوسانی اخبار ’دینک جاگرن‘ کا کہنا ہے کہ کالی ماتا اور دیوی دیوتاﺅں کی بھینٹ میں معصوم بچوں اور بالغ مرد و خواتین کی گردنیں قلم کردینا ابھی تک عام ہے۔

تازہ واقعات میں ابھی معصوم طالبہ پرینکاکے بہیمانہ بھینٹ دینے کے واقعے کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ اتر پردیش کے علاقے باغپت میں ایک 12 سالہ لڑکے کی بلی دینے کے واقعے نے ہندوسان کے روشن چہرے کو دھندلا دیا ہے۔ باغپت سے رپورٹنگ کرنے والے مقامی صحافی کلراج مشرا کا کہنا ہے کہ پولیس نے اپنے ہی 12 سالہ بیٹے کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کرنے والے سفاک والدین کو گرفتار کرلیا ۔گاﺅں والوں کی بروقت مداخلت اور مار پیٹ کے بعد بمشکل 12 سالہ راہل کو بچایا جاسکا۔ بعد ازاں پولیس نے موقع پر پہنچ کر بچے کے والدین کو گرفتار کرکے پولیس کوتوالی رمالا پہنچا دیاجہاں ان کے خلاف دیوتاﺅں کے چرنوں میں انسانی بھینٹ چڑھانے کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔ پولیس تھانہ رمالا کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ گرفتار کئے جانے والے دونوں ملزمان تانترک ہیں اور پہلی بار ان کے خلاف انسان کو بلی چڑھانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

انگریزی اخبار منگلورین کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک اہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہالت، توہم پرستی، تعلیم کی کمی اور ہندووانہ رسوم و رواج کے دلدادہ افراد میں آج بھی انسانوں کو کالی ماتا کی بھینٹ چڑھانے کی رسم عام ہے۔ 5 سالہ پرینکا کی ہلاکت کا واقعہ 18 دسمبر کو پیش آیا جب اس ننھی بچی کو اس کے پڑوس میں رہنے والے میاں بیوی کلماکاشا پروشا اور چندرا کالا نے اپنے گھر اولاد نہ ہونے کے باعث ایک تانترک کے مشورے پر اغوا کیا تاکہ اس معصوم ننھی بچی کی کالی ماتا کے چرنوںمیں بھینٹ دے دی جائے جس کے نتیجے میں ان بے اولاد میاں بیوی کے یہاں اولاد پیدا ہوسکے۔ اس واقعے پر عوامی رد عمل کو روکنے کیلئے ریاستی وزیر اعلیٰ یدی یور اپا خود متاثرہ خاندان کے پاس گئے اور ان کو دو لاکھ روپے نقد امداد دی۔ پریانکا کی والدہ نے بعد ازاں ’منگلورین‘ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ کس طرح اس کی پڑوسن چندرا کالا نے اس کی بیٹی کو کھانا کھلانے کے بہانے اپنے گھر بلایا اور بعد ازاں اس کو تانترک کے حوالے کردیاجس نے اس کی معصوم بیٹی کا گلا کاٹ کر اس کا دل نکال لیا اور اس کو قریب میںواقع جنگل میں پھینک دیا۔

’ایکسپریس بز‘ کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک اور اہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آندھرا پردیش ریاست کے راما ریڈی ضلع کے علاقے پرگی میں ایک تین سالہ بچی چندناکو انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے کی جانے والی کوشش کے نتیجے میں زندہ بازیاب کروالیا گیا ہے جبکہ کارروائی میں ایک تانترک کو گرفتار کیا گیا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اس ننھی بچی چندنا کو کالی ماتا کی تصویر کے روبرو بھینٹ چڑھانا چاہتا تھا۔

ریاست کرناٹک کی تنظیم چائلڈ ویلفیئر اینڈ رائٹس کمیشن کی سربراہ آشا نائیک کا کہنا ہے کہ ہندوسان بھر میں بچوں کو دیوتاﺅں کی بھینٹ دینے کے واقعات باوجود کوششوں کے، ختم ہونے میں نہیں آرہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھی روزانہ کسی بچے کو اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کیلئے دیوی دیوتاﺅں کے روبرو قربان کردیا جاتا ہے۔

اپریل میں کولکتہ کے معروف اور مشہور کالی مندر میں ایک ادھیڑ عمر شخص کو کالی ماتا کے طویل مجسمے کے روبرو لاکر اس کی گردن اڑا دی گئی تھی اور اس کے جسم سے بہنے والے خون نے مندر کے پورے فرش کو سرخ کردیا تھا۔ اگرچہ ریاست مغربی بنگال سے 200 کلو میٹر کی دوری پر واقع گاﺅں دونی پور کے ضلعی ایس پی رابندر ناتھ مکھر جی کا ماننا ہے کہ کالی مندر میں اس طرح کے واقعے کا پیش آنا انتہائی افسوس ناک امر ہے لیکن وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ مذہبی جنونیت کا شاخسانہ ہے۔ اس واقعے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ 8 ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس کیس کو حل نہیں کیا جاسکا ہے۔ضلع ایس پی رابندر ناتھ مکھر جی کا کہنا تھا کہ انہوں نے صرف سنا تھا کہ کالی ماتا کے روبرو معصوموں کی بھینٹ دی جاتی ہے لیکن پہلی بار انہوں نے کسی بالغ انسان کی بلی چڑھانے کا واقعہ دیکھا ہے۔ ایس پی مکھر جی کا کہنا ہے کہ دو گرفتار مشتبہ افراد کو رہا کردیا گیا ہے کیوں کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ پولیس حکام نے یہ بھی تسلیم کیا کہ تانترکوں کی جانب سے معصوموں کی بھینٹ چڑھائے جانے کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیںجن کی روک تھام کی سخت ضرورت ہے۔

منگل 9 دسمبر2010 کو ممبئی جیسے اہم شہر میں پیش آنے والے اس واقعے کو بھی پولیس حکام تانترکوں اور بھینٹ دینے کے واقعات سے وابستہ کر رہے ہیں جس میں ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بنگلور سے تعلق رکھنے والے ایک 19 سالہ نوجوان چھوٹو منڈل نے ٹرین میں اپنے ساتھ سفر کرنے والی ایک 5 برس کی بچی کو اچانک چلتی ٹرین سے اٹھاکر نیچے پھینک دیا تھا۔ کیوں کہ وہ اس بچی کو کالی ماتا کی بھینٹ کے طور پر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ ٹرین میں موجود افراد نے ملزم چھوٹو کو موقع پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے پولیس کے حوالے کردیا۔ بعدازاں ملزم چھوٹو منڈل کو جیل بھیج دیا گیا اور عدالت میں اس کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔ اس حوالے سے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کالی ماتا مندر کے مہا پجاری چاند چٹر جی کا ماننا ہے کہ بہت سے ہندو فرقوں کے تانترکوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر کوئی لا ینحل کام کروانا ہو تو کالی ماتا کے چرنوں میں معصوم بچے یا کسی بڑے انسان کا خون بہایا جائے تو اس کی مشکل حل ہوجاتی ہے۔

ہندوستانی پولیس سروس کے افسر پی ایم نائر نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر انکشاف کیا ہے کہ نکسلیوں نے بھی اوڑیسہ ، تمل ناڈو وغیرہ علاقوں سے بڑے پیمانے پر بچوں کو اغوا کرکے اپنے پرتشدد تحریک کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ان تمام حقائق کے پیش نظر بچوں کے اغوا کے پس پشت7 وجوہات سمجھی جا سکتی ہیں جن میں ایک ،بندھوا مزدوری کروانا۔ دوسرا ، جسم فروشی ۔ تیسرا ، گود لینے دینے کا غیر قانونی دھندہ۔ چوتھا ، نکسلی بنانے کیلئے بچوں کو اغوا۔ پانچواں ، غیرقاونی اور غیر قانونی طور پر ادویات کا ٹیسٹ۔ چھٹا ، دیگر جرائم جن میں بھیک منگوانا ، جیب تراش بنانا اور منشیات کے بزنس میں استعمال کرنا اور ساتویں دیوتا کیلئے بھینٹ چڑھانا وغیرہ شامل ہیں۔لہٰذامرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر ایسے قوانین بنائے جو تعزیرات ہندکی موجودہ دفعہ 363 سے 373 کے درمیان کہیں گم ہو جانے والے بچے یا شخص کے بارے میں معاملہ دائر کرنے کا بندوبست کرے۔ دہلی پولیس نے اس سلسلے میں ایک معیار طے کیا ہے۔ جب تک کوئی نیا قانون نہیں بنتا ، دہلی پولیس کے اس معیار کو ملک کے باقی ریاستوں کو بھی اپنانا چاہئے جس میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کے کسی بچے کے بارے میں اگر اس کے ماں باپ یا قانونی سرپرست کو پتہ نہ چلے کہ وہ کہاں ہے تو اسے اس وقت تک لاپتہ مانا جائے گا جب تک اس کا پتہ نہیں لگا لیا جاتا۔ پولیس کو یہ سخت ہدایت دی جائے کہ وہ بچوں کے گم ہونے کی رپورٹ فورا درج کرے۔ اس بارے میں دہلی ہائی کورٹ نے2009 کے دوران ایک حکم جاری کیا ہے جس کے تحت بچوں کے گم ہونے کے واقعات کی تحقیقات کرنے اور مجرمانہ مقدمہ دائر کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ حکومت کے سامنے 10تجاویز رکھی گئی ہیں جن میں قانون میں ترمیم کے علاوہ گم ہوئے بچوں اور ان کے استحصال کے مدنظر ایک مرکز قائم کرنے ، ہر ضلع میں گم ہونے والے بچوں کے بارے میں نوڈل افسر تعینات کرنے ، تمام سرکاری محکموں میں مشیر بنانے ، پولیس افسران ، وکلاء، اہل افسران ، محکمہ محنت کے افسران ، میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کو تربیت فراہم کرنے جیسی تجاویز ہیں۔ تربیت کی ذمہ داری انسانی حقوق کمیشن یا بچوں کی حفاظت سے متعلق قومی کمیشن اور ریاستوں میں قائم کمیشن کو سونپی جا سکتی ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116321 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More