محمد علی جناح

ہندوستان پر ہزار سال تک حکومت کرنے کے بعد جب مسلمان عیش پرست ہوگئے تو نہ ہندوستان ان کا رہا اور نہ ہی حکومت ۔ اگر چہ وقتاََ فوقتاََ مسلمان رہنما اٹھتے رہے جن میں سید احمد شہید ، شاہ ولی اللہ اور سر سید جیسے جید اور مخلص رہنما بھی شامل تھے نہ تو جن کی صلاحیتوں میں شک تھا ، نہ خلوص میں اور نہ کوششوں میں اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس قوم میں زندگی کی رمق باقی رہی۔ لیکن اس تمام جدوجہد کے باوجود اس بہت بڑے ملک میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کو یکجا نہیں کیا جا سکا اور وہ دو سو سال تک انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہے۔ ان کے مسائل و مصائب دور کرنے کے لیے جس توانائی اور فہم و فراست کی ضرورت تھی اس کے لیے ان لوگوں نے دو صدیوں تک انتظار کیا اور اس عرصے میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ رہا نہ تو وہ تعلیم میں آگے تھے نہ ملازمتوں میں کہیں نظر آتے تھے اور نہ ہی سیاست میں ان کی اتنی نمائندگی تھی جتنی ہندوؤں کی۔ اور یہی اجارہ داری تھی جو مسلمانوں کو مزید سے مزید دبائے جا رہی تھی اور انہیں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جا رہا تھا شاذونادر ہی کوئی مسلمان کسی اچھے عہدے تک پہنچتا تھا جبکہ ہندو اپنی ریشہ دوانیوں کی بدولت خود کو قابض حکومت کے قریب رکھ کر ہندوستان کی حکمرانی کے خواب دیکھ رہا تھا ایسے میں مسلمانوں کو حقیقتاََ ایک ایسے رہنما کی ضرورت تھی جو انہیں ان اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا۔ اور مسلمانوں کی خوش قسمتی کہ ان کا ایک ہی لیڈر نہ صرف ہندوؤں بلکہ انگریزوں سب کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا ۔قائداعظم محمد علی جناح درحقیقت مسلمانان ہند کے لیے ایک رحمت اور نجات دہندہ ہی کی حیثیت رکھتے تھے جنہوں نے نہ صرف مخالفین کا مقابلہ کیا بلکہ بغیر کسی تشدد کے کیا۔ ان کی بارعب اور متوازن شخصیت کے آگے نہ تو کبھی سیاسی مخالفین جم سکے اور نہ ہی حکومت ۔ بلکہ قائداعظم کی شخصیت کے آگے کبھی کسی کو غیر محتاط رویہ تک اپنانے کی ہمت نہ ہوئی اور یہ صرف اور صرف ان کے خلوص نیت اور پاکیزگی کردار کی بدولت تھا ۔یہ بے داغ سیاسی کردارہی تھا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور کرئہ ارض پر ایک نئے ملک کا اضافہ ہوا۔ بظاہر یہ ناممکن تھا کیونکہ انگریز اور ہندو مد مقابل تھا ایک کے پاس طاقت اور حکومت تھی اور دوسرے کے پاس اکثریت اور مکاری ۔ مسلمان دس کروڑ ہونے کے باوجود ہندوستان میں اقلیت میں تھے لیکن اتنی بڑی اقلیت کہ یہ کسی بھی آزاد مسلمان ملک سے بڑی مسلم آبادی تھی۔ اور آزادی ان کا حق تھا جسے اس باہمت لیڈر نے اپنے تدبر اور ذہانت سے حاصل کر کے دکھایا حالانکہ اُس کے سدِ راہ صرف غیر نہیں اپنے بھی تھے کچھ مسلمان لیڈروں نے بھی پاکستان کی مخالف کی لیکن اِن ساری مخالفتوں پر قابو پانا قائداعظم ہی جیسے لیڈر کے لیے ممکن تھا۔ سٹینلے والپرٹ جو یونیورسٹی آف کیلے فورنیا میں تاریخ کے پروفیسر رہے نے جناح آف پاکستان نامی اپنی کتاب میں قائداعظم کو اِن الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ few individuals significantly alter the
course of history, fewer still modify the map of the world, hardly any one can be credited with creating a Nation State, Muhammad Ali Jinnah did all three. قائداعظم نے واقعتاً تاریخ بدلی دنیا کا نقشہ بدلا اور ایک نئی قوم اور نیا ملک بنایا ۔ ملک تو بن گیا لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ قائد کو وقت نہ مل سکا کہ وہ اس ملک کو مستحکم کرتے اوراپنے بعد آنے والوں کی سیاسی تربیت کرتے۔ خود قائد کہا کرتے تھے کہ میری جیب میں زیادہ تر سکے کھوٹے ہیں اور یہی سیاسی بدقسمتی تھی جس نے روزاول سے ہی پاکستان کو گھیرے میں لیے رکھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ ملک قائم ہے اوراس کا وجود شاید اسکے بنانے والے کی ایمانداری کا ثمرہ ہے ۔ ورنہ دل اس وقت شدید دکھ اور درد محسوس کرتا ہے جب اس ملک کے سیاستدانوں سے لے کر ایک عام شخص تک کرپشن میں ملوث نظر آتا ہے اور یہ کرپشن صرف مالی نہیں بلکہ حکومت اور اقتدار کا چور دروازوں سے حصول ، اداروں کی تباہی اور فرائض سے غفلت یہ سب ہی کرپشن کے زُمرے میں آتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اس سب کچھ کا مجرم ہے لیکن دوسرے کو اس کا الزام دیتا ہے۔ آج جب ہم قائداعظم محمد علی جناح کا ایک سوپینتیسواں یوم پیدائش منا رہے ہیں تو کیا ہی بہتر ہو کہ اُن کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہوئے ہم اپنی خامیوں پر نظر کریں ،ان کے نام پر سیمینار اور اجلاس منعقد کر کے چائے پانی کا بندوبست کرنے کی بجائے ہمیں مستقبل کے لیے کچھ ایسے منصوبے بنانے ہونگے ،کچھ ایسی راہیں اپنانی ہونگی جو منزلوں کا تعین کرسکے۔ اس وقت اس قوم کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ ایمانداری کے ساتھ کام ہے اور ہمیں یہ محنت اور کام ہر سطح پر کرنا ہوگا کیونکہ کام کام اور بس کام ہی اس قائد کا پیغام تھا۔ 24 نومبر 1945 کو مردان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔ ہمیں ہر قیمت پر پاکستان حاصل کرنا ہے اسی کے لیے ہمارا جینا اور مرنا ہے آپ کام کریں اور سخت کام اسی طرح آپ دس کروڑ مسلمانوں کی عزت بڑھانے میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔

یکم جولائی 1948 کو انہوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے اپنی معیشت کو خود اپنی طرز پر مستحکم کرنے اور ساتھ ہی محنت کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی قسمت خود بنانی ہے۔

آج ہم اگر قائداعظم کے انہی اصولوں کو اپنی سیاسی اور قومی زندگی میں بطو رہنما شامل کر لیں تو ہم اپنے بہت سے مسائل سے نجات حاصل کر لیں گے لیکن ہمیں اپنے ہر عمل میں وہی خلوص شامل کرنا ہوگا جو بانی پاکستان کا طرہ امتیاز رہا ہے ہم اس وقت واقعی مشکل ترین حالات سے گزر رہے ہیں ایسے حالات جن میں ہمارے ادارے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں ہمیں اپنی محنت کو کئی گنا بڑھانا ہوگا اور جتنا ہم معاشی اور معاشرتی طور پر مستحکم ہونگے اتنا ہی ہم دنیا میں بہتر مقام حاصل کر سکیں گے ہمیں استحکام پاکستان کو اپنی پہلی ترجیح بنانا ہوگا، پاکستان کے ہر ادارے کو پورا پاکستان سمجھ کر سنبھالنا ہوگا صرف اور صرف خلو ص نیت اور محنت ہمارے مسائل کا آخری حل ہے۔ بلاشبہ یہی بہترین طریقہ ہے اپنے قائد کو خراج تحسین پیش کرنے کاتب پھر یہ نہ کہیں گے ارض و سمائ ہم دن ہی منایا کرتے ہیں۔ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت کرے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 511076 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.