جامعہ فاروقیہ اور معنی خیز خاموشی

ہمارے ملک میں زندگی کے تمام شعبے جاگیردارانہ نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں ۔جہاں چوہدریوں ،وڈیروں ،وزیروں ،کی مرضی ومنشاءکے مطابق میرٹ و محنت کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے ہوتے ہیں۔جب تمام شعبوں میں صورتِ حال ایسی ہو وہاں اچھے اور اچھائی پھیلانے والے نہ صرف مطعون ٹھہرائے جاتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ ظلم وسفاکی کو روا رکھا جاتا ہے ۔اسی نظام کے تحت چلنے والے عصری تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کے سائے میں پروان چڑھنے والے طالبعلموں کے ہاتھ میں قلم وکتاب کے بجائے اسلحہ و لاٹھیاں لہراتے ہیں ۔انہی صفحات پر پہلے بھی کراچی میں مسلسل ٹارگٹ ہونے علماءاور طلباءکا مقدمہ اٹھا یا گیا تھا مگر وہ سلسلہ بدقسمتی سے ایک دفعہ پھر شروع ہو چکا ہے اور اس دفعہ اس کا شکار ایک ایسی عظیم درسگا ہ بنی ہے جو کئی سال سے کراچی کے علاقے شاہ فیصل میں الجامعہ الفاروقیہ کے نام سے معروف ہے ۔اس سے پہلے بھی اس مکتب کے نہ صرف علماءبلکہ طلباءبھی ٹارگٹ ہو چکے ہیں ۔لیکن اس دفعہ قاتلوں کا سراغ لگانا کوئی مشکل کی بات نہیں ۔ابھی تو بات اور بھی بہت حد تک واضع ہے اور خود چیف جسٹس آف پاکستان بھی کراچی میں آچکے ہیں افتخار چوہدری کراچی میں امن کے حامی اعجازچوہدری کی معیت میں رینجرز کے ان نوجوانوں کو ہی بلا کر پوچھ لیں تو بات حل ہو جاتی ہے ۔

یہ واقع اس دن پیش آیا جب 25محرم کو جامعہ فاروقیہ کی گاڑی جامعہ کی دوسری شاخ رفاعِ عام کے لئے کھانا لے کر جارہی تھی تو راستے میں روک لیا گیا اور عین اسی وقت جامعہ فاروقیہ کا مین روڈ بھی بلاک کیا گیا تھا ،دن 11بجے کہ جب تمام طلباءاپنی تعلیم میں مصروف تھے تو اس وقت معمول کے مطابق علماءنے انتظامیہ سے رابطہ کیا اور انہیں یاد دلایا گیا کہ معاہدے کے مطابق اس راستے کو بند نہیں کیا جاسکتا اور پاکستانی پولیس کے ان جانبازوں اور افسروں میں اعلٰی افسران کے نام بھی آتے ہیں انہوں نے یقین دلایا کہ اس راستے کو کھولا جائے گا تاہم دو بجے تک اسی لیت و لعل نے لے لئے اور قریباًدو بجے کے قریب ایک اور معاہدے کو توڑاگیا اور ہائی ٹیون کو بھی آن کر لیا گیا ۔اس راستے کو بند کرنے کے اور گاڑی کو روکنے کے بعد بھی انتظامیہ نے علماءکے رابطے پر کان نہ دھرے تو انتظامیہ کو خاموش پیغام دینے کے لئے جامعہ کے لاﺅڈاسپیکر سے بھی تلاوت ِقرآن شروع کی گئی ۔تلاوت کی آواز نے اپنے اعجاز سے انہیں مجبورکیا اور ویسے بھی تلاوت کو کہاں ایسے لوگ سن سکتے ہیں ،تب انتظامیہ نے علماءکے ساتھ مذاکرات کئے اس یقین دہانی کے ساتھ کہ روڈ کو بھی ابھی کھولا جائے اور معاہدے پر عمل درآمد بھی کروایا جائے اس پر مذاکرات میں شامل سرکاری افسران نے علماءسے یہ کہا کہ اب راستہ بھی کھلوالیا گیا ہے اور آپ اپنے طلباءکو اجازت دے دیں کہ وہ اپنے معمول کے مطابق بعداز نمازِ عصر باہر جا سکتے ہیں ۔اس پر علماءنے مکررپوچھا کہ آپ کی وجہ سے ہم نے اپنے طلبا ءکو روکے رکھا ہے ورنہ جمعرات کے دن عام طلباءکی بعدعصر چھٹی ہوتی ہے اس وضاحت کے باوجود انتظامیہ مصر تھی کہ حالات معمول کے مطابق ہیں ۔

”سب اچھا “ کی لوک کہانی سنا کر قوم کے محافظوں کے یہ” سردار“جا چکے تھے اور طلبا ءجانا شروع کیا تو بہت سارے طلباءمحفوظ نکل بھی گئے مگر کچھ طلبا ءکو پکڑ کر تلاوت کے نشر کرنے کا غصّہ نکالا گیا اور یوں پانچ طلباءکو زخمی کیا گیا اور ایک طالب ِ علم احمدقمر کو بکتر بند سے اتار کر شہید کیا گیا ،اور ساتھ ہی وہ سفاکیت اور درندگی کااور اپنے اندر کے خبث کا ثبوت دیاگیا کہ آسمان نے یہ منظر بھی دیکھاکہ ملائکہ جس طالبِ علم کے پاﺅں میں اپنے پر بچھاتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں اس کے ساتھ یہ کیا گیا کہ اس کا وہ ناک جس کو ان سردی کے دن راتوں میں بھی اپنے اللہ کے سامنے سجدے میں ٹیکتا تھا اسے کاٹ دیا گیا اور جن کانوں سے وہ اس تلاوت اور قال اللہ و قال الرسول کی آواز کو سنتا تھا انہیں بھی دور نہیں شاہ فیصل کالونی کی گلیوں میں کاٹ دیا گیا اور جو نگائیں کسی غیرمحرم پہ بھی پڑنے کو گناہ سمجھتی تھیں اور وہ نگائیں اپنا اکثر بینائی تو کتاب ومکتب پہ پڑتی تھی جس سے ہزاروںملکی اور غیر ملکی تشنگانِ علم سیراب ہو کر جا چکے ہیں ۔پھر ان معصوم آنکھوں کا کیا قصور تھا ؟اُنہیں سُلا تو دیا گیا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مگر نکالاکیوں گیا؟کس لغت سے کون سا لفظ چنا جائے ان انسانیت کے نام پر بد نما داغوں کے لئے جنہوں نے ایک نہتے طالب ِ علم ”احمد “کے خوبصورت نام سے موسوم اور ”قمر “ کے لاحقے کی طرح ایک چمکتا پھول فاروق ِ اعظم کے نام سے منسوب جامعہ فاروقیہ کے گلشن سے چنا ہی نہیں بلکہ بری طرح مسل بھی ڈالا کیوں کہ پھول تو توڑ کر سجا بھی لئے جاتے ہیں مگر جس ناہنجاز ہاتھ نے سجدے میں پڑے فاروقؓاور تلاوت ِ قرآن میں محو عثمان ؓ کو نہ چھوڑا وہ کیسے برداشت کرتا تلاوت کی مٹھاس سے لبریز احمد قمر کوکہ وہ کوفیوں کے گروہ کے سامنے گردن اٹھا کر چلے ،چناں چہ 25محرم کے دن شمر سے استادوں کا رول ادا کرنے والوں نے احمد قمر کی گردن پر بھی چھری پھیری گئی ۔اور یوں اس تشدد زدہ لاش کو بھی ظالم برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے باطن میں چھپائے عناد کا اظہار کرگزرا۔اور یوں دین کی دولت کو سینے میں محفوظ کرنے کے آنے والا نوجوان شہادت کاتاج سجائے بزبان ِ حال یہ کہتے ہوئے آخرت کے سفر پر چل نکلا کہ
گرچہ بہتاتِ غمِ عشق سے خواری ہو گی
زندگی پھر بھی ہماری تھی ہماری ہوگی

یہاں تک کی صورت ِ حال تو وہ ہے جو واقع کو سمجھنے کے ایک عام آدمی کے لئے بھی کافی ہے مگر اس کے بعد کی وہ صورت ِ حال حیران کن ہی نہیں بلکہ باعث ِ تشویش بھی ہے ۔جس کا ذکر پہلے بھی کیا گیا تھا،کہ میڈیا جو اسلام پسندوں کو ناکردہ عمل کی بھی سزا دیتا ہے اور کسی بھی واقع کی آڑ میں اپنی آزادی کے نام پر بے توقیر پر پھیلائے چیختا اور چلاّتا ہے وہ اس مزموم کارروائی پر خاموش نہیں بلکہ ”تماشائی “ کا کردار ادا کرتا دیکھائی دیتاہے ۔کہاں ہیں وہ فوٹج جس میں تصادم ہوتا ہوا دیکھائی دے؟ میڈیا کو کسی دھماکہ میں پھٹی ہوئی لاش سے اگرمذہبی پسِ منظر نظر آجاتا ہے تواحمد قمر کی نعش اور اس پر پڑتے ہاتھ نظر کیوں نہیں آئے ؟ اُن متعصب دماغوں کو جنہیں نشے میں مبتلا مریض اور اپنی حالت پر کنٹرول نہ کر سکنے والا”شیو“بڑھا نشئی بھی تعصب سے ”ملّا“دِکھتاہے ،انہیں یہاں پر پانچ طلباءپر ظلم وتشددنظر کیوں نہیں آیا ؟معمولی سی خبر پر اُڑانے بھرنے والے ٹی وی چینلز کے اینکرپرسنزاس انسانیت سوز سانحہ سے سرفِ نظر کیوں کئے ہوئے ہیں ؟انڈیا میں اپنی من مانی کرنے والی گھر سے عزّت نہ پاسکنے والی عورت کے نام پر اپنی ریٹنگ بڑھانے اور اپنے ہی فیلڈ میں موجود لوگوں پر برتری حاصل کرنے کے لئے غیرت کے نام آسمان سر پر اُٹھا لینے والوں کو شاہ فیصل کالونی کی گلیوں میں انسانیت کی تذلیل نظر کیوں نہ آئی ؟اُن مغرب کی دلدادہ ایکٹوسٹوں جن کو ممتاز قادری کے نام سے اس لئے نفرت ہے کہ وہ قاتل ہے اور اس نے قانون کو ہاتھ میں لیا ہے تو یہاں بھی قانون اور قانونی معاہدوں کوروندتے ہوئے قتل کیا گیا ہے یہاں خاموشی کیسی ؟کراچی میں امن کے دعوے دار ملک کے ناکام ترین وزیرِ داخلہ جنہیں دیکھے اور سنے بغیر کسی بھی دھماکے سے ”طالبان“کے شواہد مل جاتے ہیں وہ کراچی میں ایک عرصہ سے جاری علماءاور طلباءکی اس طرح کی واضع قاتلانہ حملوں میں شہادتوں پر خاموشی کیوں ہے ؟جبکہ موصوف کوتین سالہ پرانی علاج گاہ کے تناظر میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد غیررجسٹرڈمدارس کا ایک ہی حل گرانا نظر آتا ہو اُن نااہلوں سے کیا اور کیسی امید؟

روشن خیال اور مغربی اقدار سے متاثر”صاحبِ قلم“اور صحافت کے مقدس پیشے سے وابستہ کسی بھی فردکو اگرکبھی اورکسی بھی جامعہ کا وزٹ کروایا جائے تو مشاہدہ ہے کہ اس نورانی اور قرآنی ماحول پر جاتے ہوئے وہ بھی اپنا تبصرہ ان الفاظ میں دیتا ہے کہ”یار ایک بات ہے اتنے مصائب والائم کی تاریکیوں میں عزم و حوصلے یہیں سے پروان چڑھتے ہیں ،رات تاریک کیوں نہ سہی مگر سحر یہیں سے ہوگی اسی کو رﺅف صدیقی یوں کہتے ہیں
جیتنے کی ہے لگن دونوں میں یکساں یکساں
رات ہارے گی تو پھر صبح کی باری ہوگی

رات کے اندھیروں سے ڈر جانے والے لوگ مایوسی کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور یوں حوصلے ہار دیتے ہیں۔اپنے ہم نیشوں اور ہم وطنوں کی ۔یہ اس کے الفاظ ہوں گے اور ہیںجسے آپ اپنی ذاتی دوستی کی بنا پر اس کے نظریہ کے برعکس کسی جامعہ اور دینی درسگاہ کا جائزہ دلوا رہے ہوتے ہیں۔

اپنے ہم نیشوں اور ہم وطنوں کی حالت زار خصوصاًمذہبی طلباءکا استحصال اور ان کے جسمانی قتل عام پر اضطرابی کیفیات کے ساتھ ساتھ پریس کلب میں مذہبی جماعتوں کے قائدیں کے چہرے واضح نظر آرہے تھے ،یقینا جو لوگ حق اور حقوق کے لیے عملی جدوجہد کا فیصلہ کر لیتے ہیں ان کا راستہ بڑا کٹھن ہوتا ہے اور قربانیاں دینی پڑتی ہیںجو علماء،طلبا ءدیتے چلے آرہے ہیںمگر اس کے ساتھ ساتھ معذرت کے ساتھ ایک حقیقت ماننی پڑے گی کہ بیانات سے ہٹ کر ایک سائے بان کے نیچے اب بھی اپنے حقوق او رتحفظ کے لیے رائے عمل کا انتخاب کر لینا سود مندثابت ہوسکتا ہے۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 55072 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.