کوٹھوں سے انٹرنیٹ تک وسیع ہے جسم فروشی کا کاروبار

جسم فروشی شہروں کی میٹرو لائف کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز دارالحکومت دہلی میں پلیسمینٹ ایجنسی کی آڑ میں نابالغ اور معصوم لڑکیوں کو جسم فروشی کے دھندے میںد ھکیلے جانے کا انکشاف ہوا۔نوکری دلوانے کے نام پر نہ صرف لڑکیوں سے جسم فروشی کروائی جا رہی ہے بلکہ انہیں ملک سے باہر بھی بھیجا جا رہا ہے۔یہ معصوم لڑکیاں بہتر زندگی گزارنے کا خواب دکھا کر ملک کے مختلف حصوںسے دہلی لائی گئیں جن میں مغربی بنگال ، اڑیسہ ، جھارکھنڈ اور آسام کے لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ ان لڑکیوں کو نہ صرف اس قبیح کاروبار میںدھکیلاگیا بلکہ کم عمری میں بڑی نظر آنے اورحاملہ ہونے سے روکنے کیلئے انجکشن تک کا استعمال کیا گیا۔ایک این جی او کی مدد سے قومی انسانی حقوق کمیشن اور دہلی پولیس کی ٹیم نے جب دہلی کے مختلف علاقوں میں چھاپہ مارا تو 29 لڑکیوں سمیت 31 بچے چھڑائے گئے۔ موقع سے 30 انجکشن بھی برآمد کئے گئے۔چھڑائی گئی لڑکیوں میں سے ایک لڑکی حاملہ ہے۔ پولیس نے اس معاملے میں مقدمہ درج کیا ہے اور دلالوں کی تلاش شروع کر دی ۔

کوٹھوں سے انٹرنیٹ تک اپنا جال بچھا چکے جسم کاروبار کے مافیا کے چنگل میں غریب گھروں سے لے کر امیر گھرانوں کی شوقین لڑکیاں شامل ہیں۔ اس دلدل میں ہزاروں ایسی لڑکیاں ہیں جو یا تو معاشی تنگیوں کی وجہ سے دھنس رہی ہیں یا پھرپیسہ کمانے کے چکر میں۔ملک کے دارالخلافہ دہلی سمیت امیر کہلائی جانے والی ریاستوں میں جن میں ہریانہ ، پنجاب اور مرکزی انتظامیہ والے علاقہ چنڈی گڑھ شامل ہے‘ ان میں جسم فروشی بزنس مافیا نے نہ صرف دستک دے دی ہے بلکہ اپنے ٹھکانے بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں جسم فروشی کی تجارت میں ملوث معاملات کی تلاش کی خبر لی جائے تو سرسہ سے لے کر چنڈی گڑھ تک کئی اضلاع میں کوئی نہ کوئی جنسی ریکٹ پکڑا گیا ہے۔

سرسہ میں جہاں ستمبر کے دوران ایک تازہ کیس میں پولیس نے محبت نگر علاقے سے دولڑکیوں سمیت چارافراد کو چھاپہ مارکر رنگے ہاتھوں پکڑا وہیں اگست میں کروکشیتر کے کرشنا نگر علاقے سے ایک خاتون سرغنہ کے گھر پر چھاپامار کر 15 لوگوں کو گرفتار کیا تھا جس میں 11 لڑکیاں پکڑا گئی تھیں۔ ایسے کئی کیس اور مل جائیں گے جن میں ملک کے مشرقی علاقوں سے یا تو کام کی تلاش میں یا پھر بہلا پھسلاکر لائی گئی لڑکیوں کو جسم فروشی کے دھندے میں شامل کیا گیا ہو۔

جسم فروش مافیا انہیں 25 سے 60 ہزار روپے دے کر کرائے پر لاتے ہیں اور منافع کماکے انڈر گراوئڈ ہو جاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں تو یہ دھندہ انٹرنیٹ پر پھل پھول رہا ہے۔ اس میں سوشل سائٹ فیس بک بھی پیچھے نہیں ہیں جس میں بعض لڑکیاں دوستی کے نام پر ون نائٹ فرینڈشپ کرکے اپنا دھندہ چلا رہی ہیں۔

دہلی سے چندی گڑھ اور چنڈی گڑھ سے دہلی براستہ کرنال ، پانی پت جسم فروشوں کو سپلائی دی جا رہی ہے۔ذرائع پر یقین کریں تو جسم فروشی کے بزنس مافیا نے پانی پت کو اپنا اہم مرکز بنایا ہے جنہوں نے بڑے شہروں کے بیوٹی پارلروں سے رابطہ قائم کر رکھا ہے۔ بیوٹی پارلر اس دھندے کیلئے سب سے محفوظ جگہ ثابت ہوتی ہے اور اسے فروغ دینے کیلئے ایجنٹ بھی رکھے ہوئے ہیں جو گھوم پھر کر ایسی خواتین اور لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر گروہ کیئے کام کرنے پرآمادہ کرتے ہیں۔

بیوائیں ،طلاق شدہ خواتین ، غریب خاندانوں کی خواتین اور لڑکیوں کا رجحان اس طرف آسانی سے بڑھ جاتا ہے جن میں سے کچھ تو مجبورہو تی ہیں جبکہ کچھ اپنی ہوس مٹانے کیلئے اس گروہ میں شامل ہو رہی ہے ۔بیوٹی پارلر ان کی پہلی پسندہوتی ہے۔ بیوٹی پارلر کی آڑ میں سے ریکٹوں کے کئی معاملے اجاگر بھی ہو چکے ہیں مگر پھر بھی دھندہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے کیونکہ زیادہ تر بیوٹی پارلروں کو رنگین مزاج سیاستدانوں اور سرکاری مشینری کا تحفظ حاصل ہے۔

حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ دہلی اور چندی گڑھ کی خوشحال گھرانوں کی عورتیں بھی لمحاتی جنسی تسکین کیلئے نہ صرف اپنے جیون ساتھی کے اعتماد کا اعتمادد حاصل کرتے ہوئے جسم فروشی کے مافیا کو آگے بڑھانے میں مددگارو معاون ثابت ہوتی ہیں۔ہوس کو کو ایک ضروری بھوک تسلیم کرتے ہوئے کسی بھی حد کوپا کرنے کیلئے تیار دکھائی دیتی ہیں۔

دہلی کے تین اطراف میں واقع ہریانہ میں جس تیزی سے لڑکیوں کی آبادی گھٹ رہی ہے ، اس کے پیش نظر یوپی ، جھارکھنڈ ، بہار ، آسام اور بنگال سے لڑکیوں کو شادی کے بہانے یہاں لایا جاتا ہے اور انہیں خاندانی بندھن میں باندھ کر اپنے اہل خانہ کے درمیان ہی ان کے جسمانی استحصال کی واردات تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کا قانون بھی کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔ یہاں سے شادی کے نام پر ہریانہ لے جا کر مار ڈالی گئی ترپلا کو 30 ہزار روپے میں خریدا گیا تھا اور یہ بات قتل کے ملزم اجمیر سنگھ نے قبول کی تھی جبکہ جھارکھنڈ سے دلالوں کوقبائلی لڑکیاں 1000 سے 1500 کے درمیان مل جاتی ہیں۔ وہاں کے دلال انکو دہلی کے دلالوں کے ہاتھوں 25سے30 ہزار میں فروخت کر دیتے ہیں۔ پھر ہریانہ کے دلال دہلی سے ان لڑکیوں کو خرید کرایسے نوجوانوں کو جنہیں عیاشی کی ضرورت ہوتی ہے 35 ہزار میں بیچ دیتے ہیں۔ اگردلالوں کو لگتا ہے کہ یہ کسی خاندان کیلئے’ فٹ‘ نہیں بیٹھ رہی ہے تو اس کاجنسی استحصال مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔

فروشی کے باز آباد کاری کے لئے کئی سماجی اداروں اور پولیس نے پہل کی ہے۔ریاست ہریانہ کی قانونی خدمات میسر کروانے والی اتھارٹیHaryana State Legal Services Authorit نے جسم بزنس میں ملوث لڑکیوں کو قانونی مدد بہم پہنچانے کیلئے ایک ٹول فری ہیلپ لائن شروع کی ہے۔ جسم فروشی میں ملوث لڑکیاںقانونی مددحاصل کرنے کیلئے مفت Toll-free helpline ہیلپ لائن نمبر 1800-180-2057 پر رابطہ قائم کر سکتی ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116306 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More