کاروباری سیاست دان کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟

نام نہاد انتخاب کے نام پر لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں، لہٰذا وہ کہتے ہیں ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ عوام ہی ہماری طاقت کا سرچشمہ ہیں حالانکہ اس ملک میں جمہوریت کی غرض و غایت اور جمہوریت کا تعلق عوام سے صرف اتنا ہے کہ انہیں ہر پانچ سال کے بعد اقتدار کے ان وارثوں کو منتخب کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ ہے عوام کی طاقت!

پانچ سال کے بعد دوبارہ ایک میلہ لگتا ہے، کروڑوں روپے خرچ کرنے والے پھر وہی خانوادے، کبھی ان کے بیٹے، کبھی بیٹیاں، کبھی بھتیجیاں اور کبھی بھانجے بھانجیاں یعنی تھوڑے سے plus، minus کے فرق کے ساتھ یہی لوگ involve ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ جو کروڑوں لگا کے اسمبلی میں آئے گا وہ عوام کا پیٹ بھرے گا یا اپنا پیٹ بھرے گا؟ وہ پہلا خرچہ برابر کرنے کے بعد اگلے الیکشن کے لیے کروڑوں کیوں نہیں بنائے گا؟ کیونکہ اس نے اپنی ساکھ رکھنے کے لیے لوگوں کو آٹے کے تھیلے بھی دینے ہیں۔ اس نے سڑکیں بھی بنانی ہیں، کھمبے بھی لگانے ہیں، نالیاں بھی بنوانی ہیں، لوگوں کے گھر اناج بھی بھیجنا ہیں اور سب سے بڑھ کر کرپشن بھی کرنی ہے تاکہ اپنی اولادوں اور نسلوں کا مالی تحفظ بھی ہو جائے۔ کیا خبر کل ملک کی حالت کیا ہو، بیرونِ ملک اکاؤنٹ بھی کھلوانے ہیں اور جائیدادیں بنانی ہیں۔ وہ پورے ملک کو لوٹے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؟

کئی سال پرانی بات ہے (اب اُس دور کے مقابلے میں اَخراجات میں سیکڑوں گنا فرق آچکا ہے) کہ اُس وقت کسی شخص نے براہِ راست مجھ سے کہا تھا کہ وہ اُس وقت تک وہ اپنی پارٹی کے الیکشن پر دو ارب روپے سے زائد خرچ کرچکا ہے جو کہ آج کے حساب سے کھرب ہوگا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے invest کی گئی یہ رقم واپس بھی لینی ہے اور پھر آئندہ انتخابات کا وقت آنے تک کئی گنا اخراجات بڑھ چکے ہوں گے۔ میں نے اُس کے لیے بھی سرمایہ جمع کرنا ہے۔ مجھے بتائیے ایک ایک شخص جب کروڑوں روپے لگا کر پارلیمنٹ میں پہنچے گا تو کیا وہ آپ کا نمائندہ ہوگا؟ وہ اس ملک کے محنت کشوں کا نمائندہ ہوگا؟ وہ طلبا کا نمائندہ ہوگا؟ وہ غریب عوام کا نمائندہ ہوگا؟ وہ کسانوں کا نمائندہ ہوگا؟ وہ تاجروں کا نمائندہ ہوگا؟ کس کا نمائندہ ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات اور اپنی ذاتی ترجیحات کا نمائندہ ہوگا۔