مختلف نعروں کی سیاست

یہاں وہی سیاستدان کامیاب ترین ہے جو جھوٹ بولنے میں ماہر ہے۔ ساری سیاست جھوٹے نعروں پر کی جاتی ہے۔ ان نعروں میں اسلام، جمہوریت، غریب عوام اور ملک میں تبدیلی جیسے موضوعات اہم ہیں مثلاً بعض مذہبی سیاسی جماعتوں نے اسلام کا نعرہ صرف مسند اقتدار اور ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے ایک آلہ بنا رکھا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کی طرف سے غریب عوام کے نعرے بھی لگے، مگر غریب عوام کے کندھے صرف مسند اقتدار پر پہنچنے کے لے تھے۔ غریب عوام کی اقتدار کے اندر کوئی participation اور شراکت نہ تھی۔ اِسی طرح جمہوریت کے نعرے بھی لگتے ہیں۔ یہاں جمہوریت بھی ایک سلوگن ہے۔ محض ایک دھوکہ ہے مسندِ اقتدار اور پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے! اور پھر پانچ سال تک وہ جمہوریت عوام میں سے کسی غریب کا حال پوچھنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ یہاں احتساب کا نعرہ بھی لگتا ہے۔ غرضیکہ جس کو جو نعرہ suit کرتا ہے وہ لگاتا ہے۔ جب فوجی آمریت آتی ہے تو وہ احتساب اور good governance کے نعرے لگا کر اس ملک کے اقتدار پر قبضہ کرتی ہے اور جب سیاسی آمریت آتی ہے تو وہ عوام اور جمہوریت کا نعرہ لگا کر ملکی اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں، مگر جہاں تک عوام کی حقیقی زندگیوں میں تبدیلی کا تعلق ہے تو دونوں اَدوار میں نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔

فوجی آمریت میں ایوب خان اور یحییٰ کا دور دیکھ لیں، جنرل ضیاء الحق کا دور دیکھ لیں، جنرل پرویز مشرف کا دور دیکھ لیں؛ احتساب کے نام پر بھی آئے، اسلام کے نام پر بھی آئے اور good governance کے نام پر بھی آئے، devolution of powers کے نام پر بھی آئے اور بالآخر democracy کے نام پر بھی آئے لیکن یہ سب یکے بعد دیگرے دھوکے دے کر چلتے بنے۔ فوجی آمریت کے دور میں بھی اس ملک کے کروڑوں عوام میں سے مخصوص لوگوں کے علاوہ کسی ایک شخص کی زندگی میں تبدیلی نہیں آئی۔ کسی کو محرومیوں کے اندھیروں سے نکالنے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔

پھر سیاسی دور میں جمہوریت کے نام پر نمائندہ پارلیمنٹ create کی گئی اور اب جب یہ نمائندگانِ قوم پارلیمنٹ میں آگئے تو اب آپ اپنا حال دیکھ لیں! لوگ قتل ہو رہے ہیں، ملک کی سا لمیت اور خود مختاری گروی رکھ دی گئی ہے، پاکستان کو بیرونی طاقتوں کی کالونی بنا دیا گیا ہے، پاکستان نہ اپنے داخلی اُمور کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے اور نہ اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد ہے، نہ اپنے دفاعی فیصلے لینے میں آزاد ہے اور نہ ملکی دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں آزاد۔ حتی کہ اسمبلیاں rubber stamp بن چکی ہیں۔