کسے منصف کریں

قیام پاکستان سے آج تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں انہوں مواقع ملنے کے باوجود بھی ملک کی تعمیروترقی، عوام کی زندگیوں میں خوشحالی اورمعاشی استحکام لانے میں کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے۔ جو بھی اقتدار میں آیا ہے اس نے ہر ممکن حد تک عوام کی زندگی میں بہتری لانے کی کوششوںسے دامن چھڑایااور اپنے مفاد کے لئے ملک وقوم کو استعمال کیااور اپنے بنکوں کو ڈالرز سے بھرا ہے۔پاکستانی عوام نے ہمیشہ اسی امید پر آزمائے ہوئے سیاسی لیڈران کو ووٹ دیئے کہ شاید ان کی حالت بدل پائے مگر ہوا اس کے برعکس اور جینا اتنا آسان نہ رہا جتنا کہ مرنا۔پاکستانی عوام آجکل بھی اپنے محبوب سیاسی لیڈران کی بیان بازی سے خوب لطف واندوز ہورہی ہے کہ وہ باتیں ہی ایسی کرتے ہیںجن سے اُن کو کچھ بھی تو حاصل نہیں ہوتاہے اور نہ ہی انکی قسمت بدلتی ہے مگر وہ اس سے ایک چیز توبہت حد تک سمجھ چکی ہے کہ ہمارے لیڈران کو ماسوائے اپنے مفاد کے کچھ عزیز تر نہیں ہے۔جس کا جو جی چاہتاہے وقت آنے پر ایک دوسرے کےخلاف کہا لیا اور سن لیا جاتا ہے اور بعد میں ایک ہو جاتے ہیں لیکن ہم عوام اس حد تک نہیں سوچ نہیں پاتے ہیں ۔ابھی اسی بات کو ہی لے لیجئے کہ جب جناب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب نے چند روزقبل جومحترم صدر مملکت کے خلاف اور کرپٹ لوگوں کے خلاف کچھ زیادہ بول دیا ہے تو انکے خلاف بھی بیان بازی شروع ہو گئی ہے،عمران خان کا جلسہ بہت کچھ ظاہر کر گیا ہے جس سے سیاسی ماحول کافی گرم ہو چکا ہے ۔30اکتوبر کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ودیگر حمائتی جماعتوں نے استحکام جمہوریت ریلی منعقد کر وا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس کڑے وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ حالانکہ کہ ماضی میں دونوں کے درمیان کافی اختلافات پیدا ہو گئے تھے مگر ضرورت ایجاد کی ماں کے مصد ر ،دونوں نے حالات کا دھارا اپنے خلاف ہوتے دیکھا کر ایک ہونا ضروری سمجھا کہ اتفاق میں برکت جو ہوتی ہے۔ا ب عوا م کرے تو کیا کرے اور کسے منصف کرے کہ جس پہ بھروسہ کیا انہوں نے ہی انکا جینا محال کر رکھا ہے ؟

دوسری طرف عمران خان صاحب نے بھی اسی روز لاہور کے مینار پاکستان میں بھرپور عوامی طاقت کا مظاہر ہ کر کے تبدیلی لانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ انہوں نے مستقبل کے پروگرام کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا اور واشگاف الفاظ کہاہے کہ تمام تر سیاسی لیڈران اپنے اثاثے ظاہر کریں بصورت دیگر وہ سول نافرمانی کی تحریک چلائیں گے۔انہوں نے شریف برادران اور محترم صدرمملکت پر بھی کڑی تنقید کی ہے کہ انکی وجہ سے لوگ خودکشیوں اورڈینگی وائرس سے مار ے گئے ہیں۔اس جلسے میں بھرپور شرکت عوام کی یہ ظاہر کر تی ہے کہ وہ تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن یہ تو آنے والا وقت ہی ظاہر کر ے گا کہ آئندہ انتخابات میںپاکستان تحریک انصاف کی جماعت کس قدر ووٹ حاصل کر پائے گی اور وہ تبدیلی جس کو عمران خان صاحب بیان فرمایا ہے کیسے رونما ہو پاتی ہے؟ اب عوام بچاری کر ے بھی تو کیا کرے کہ جن کو وہ اپنے قیمتی ووٹوں سے اقتدار میں لائی ہے انہوں نے وہ کارنامے سرانجام دیئے ہیں کہ وہ خود انکو اقتدار میں لاکران سے نالاں ہو چکی ہے کہ تمام تر سرکاری ادارے خسارے میں ہیں یا دیوالیہ ہونے کے قریب تر ہیں بالخصوص پاکستان اسٹیل ملز جو حکمرانوں کی سرپرستی میں بد ترین کرپشن کی وجہ سے اکثر وبیشتر شہ سرخیوں میں رہتی ہے اب اسکا حا ل یہ ہو چکا ہے کہ 2000ءسے 2007ءتک منافع بخش ادارہ رہا ہے اب اسکی پیداوار15فیصد تک آگئی ہے جوکہ محض تین چار سال قبل 82فیصد تھی اور اب اسکا خسارہ تقریباََ 104ارب ہوچکاہے۔اب اسکو دیوالیہ ہونے سے بچانے کےلئے 20ارب روپے کی بیل آوٹ پیکج کی استدعا کی گئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کا حال بھی بد تر ہوچکا ہے گذشتہ چند سالوں سے خسارہ برداشت کرنے والے ادارے کو اس سال ریکارڈ خسارہ برداشت کرنا پڑے گا جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ لیکن ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ سٹاف کی بھرتی ہوچکی ہے،بالکل اسی طرح جیسے کہ ریلوے کے محکمے میں غیر ضروری بھرتیاں کی گئی ہیں۔ریلوے کے محکمے میں اقربا پروری، کرپشن ،ٹریک کی مناسب دیکھا بھال نہ ہونے،مال گاڑیوں کے خاطر خواہ تعداد میں نہ چلنے کی وجہ سے خسارہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کو چلانے کےلئے ایندھن بھی خرید نہیں جا پا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام کے کم نرخ پر آمدورفت کا ذریعہ بھی بند ہوتا جارہا ہے کیونکہ مختلف روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کو معطل کیا جا رہا ہے۔ اب کون ہمارے اُن ناخداﺅں سے پوچھے جن کے آتے ہی گذشتہ چند سالوں میں تین منافع بخش ادارے خسارے میں چلے گئے ہیں ؟لیکن ا نہیں تو باہر کے دوروں سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے کہ وہ عوام کے بارے میں سوچیں،درحقیقت عوام ہی اصل قصوروار ہے کہ اس نے ایسے لوگوں کو اپنے سرپر مسلط کیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حقائق کو دیکھ کر آنکھیں کھول لینی چاہیں اور مستقبل کےلئے ابھی سے فیصلہ کر لینا چاہیے کہ کیسے اور کن لوگوں کو اقتدارکی مسند پر بیٹھناچاہیے اور یہ فیصلہ ہم عوام کو خود کرنا ہے ناکہ کسی منصف کو؟ تما م تر سیاسی لیڈران کا ماضی و حال ہمارے سامنے ہے بس ایک مثبت فیصلے کی دیر ہے تبھی ہمارے حالات بدلیں گے اگر ہم آج نہیں جاگیں تو کل کو آنے والا مورخ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھے گا؟

عوام معاشی بدحالی کا شکار ہیں اوررہی سہی کسر دہشتگردی نے پوری کر کے عوام کا جینا محال بنا رکھا ہے اب وہ انصاف مانگیں بھی تو کس سے مانگیں کہ اقتدار میں لانے والے ہی خود ہیں؟
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482108 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More