آل پارٹیز کانفرنس٬ ناکام حکومت سے توقع؟

امریکہ کی طرف سے حقانی گروپ کی حمایت کے سنگین الزامات کی صورتحال میں پیپلزپارٹی حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں منعقد کی ۔ اس اجلاس میں مسلح افواج کے حکام بھی شریک ہوئے اور ان کی طرف سے صورتحال پر بریفنگ بھی دی گئی۔عوام کو اب تک معلوم نہیں ہے کہ مشرف کے بعد زرداری حکومت میں امریکہ کے ساتھ معاملات کن شرائط پر چلائے جاتے رہے ہیں۔ عوام کو تو نہ امریکہ سے دوستی کے پس پردہ محرکات و معاملات کا کچھ پتہ تھا اور نہ ہی اب امریکہ سے کشیدگی کے اصل امور اور معاملات کے بارے میں عوام کو کچھ علم ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ پاکستانی علاقوں سے گروپ افغانستان جاکر حملے کرتے ہیں۔جبکہ یہی پاکستان کا بھی کہنا ہے کہ افغانستان سے مسلح گروپ آکر حملے کرتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں پاک فوج اور نیٹو فورسز کے درمیان گولہ باری کے تبادلہ کے ایک واقعہ کی بھی اطلاعات ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا کہ حکومت کا دفاع ہر گز نہیں کرینگے، لیکن ملکی دفاع پر پوری قوم، فوج ، حکومت اور اپوزیشن سب متحد ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملک کو درپیش تمام مسائل کو پارلیمنٹ میں لایا جائے۔نواز شریف نے استفسار کیا کہ کیا دو مئی کا واقعہ ہماری خودمختاری پر حملہ نہیں تھا؟ مگر حکمرانوں کے طرزعمل نے ہمارے خطرات بڑھائے۔ انہوں نے واقعہ پر صدر زرداری کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہوں نے واقعہ کے بعد امریکی اخبار میں خوشامدی مضمون لکھا جبکہ وزیراعظم نے دو مئی کو گریٹ وکٹری کہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم سے پوچھتے ہیں کہ کیا وزیراعظم پارلیمنٹ کی قراردادوں سے متفق ہیں، اگر ہیں تو ان پر عمل کب ہو گا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آج ہم کیوں عالمی تنہائی کا شکار ہیں، دنیا ہمارے موقف کو شک کی نظر سے کیوں دیکھ رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ساڑھے تین سال میں اہم سوالات کے جواب جاننے کی کوشش نہیں کی گئی، آج بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان پر غیرملکی جارحیت کا خطرہ ہے۔ امریکی الزامات پر جنرل پاشا کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ کے دوران میاں نواز شریف نے ان سے کہا کہ دال میں کچھ تو کالا ہے، دنیا یونہی تو شور نہیں مچا رہی۔

کانفرنس میں پی پی پی حکومت کے سامنے یہ بات لائی گئی کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کے مطابق پالیسی اور کاروائی اختیار کی جائے پیپلز پارٹی حکومت کی روایتی بدانتظامی کا مظاہرہ ایک حساس مسئلے پر منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی دیکھنے میں آیا۔ کئی جماعتوں،شخصیات کو نظرانداز کیا گیا اور ملکی سیاستدانوں کے اس اجتماع میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے سے زیادہ نمائشی انداز نمایاں رہا۔ کانفرنس کا یہ تاثر عام ہے کہ قومی امور و مسائل پر متفقہ پالیسی اختیار کرنے کے بجائے سب کو اکٹھا کر کے ایک پیغام دینا مطلوب تھا اور یہ کام بخوبی ہو گیا ہے ۔

کانفرنس سے متلق یہ تا ثر بھی ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ الیکشن کے پیش نظر اپنی تیزی سے گرتی ساکھ کو بچانے کے لئے سرگرمی دکھا رہی ہے۔ اسی پی پی پی حکومت نے اپنا تمام عرصہ حکومت سیاسی جماعتوں کو ”لالی پاپ دینے اور سنگین قومی مسائل پر بڑی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کام کرنے کے بجائے ”میں نہ مانوں“ اور سیاسی محاذ آرائی کی راہ اپنائے رکھی ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ کرپشن ٬ اقرباءپروری کے الفاظ مستقل منسلک ہوگئے ہیں اور شاہانہ حکومتی و سرکاری اخراجات جاری رکھتے ہوئے ملک و عوام کے مفاد کے بجائے حصول مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا انداز اپنایا گیا ہے۔ مختصر اً یہ کہا جا سکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی نئے خاندان کی قیادت میں منفی سیاست کے تمام مظاہرے پیش کر چکی ہے۔ ملک و عوام کو درپیش سنگین امور و مسائل میں ناقص ترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی اس حکومت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ یہ سنگین مسائل میں قومی امنگوں پر مبنی پالیسی اپنا سکے اور منفی تقسیم کے شکار عوام میں حقیقی طور پر ہم آہنگی پیدا کرنے پر مبنی اقدامات اٹھا سکے۔

اس کانفرنس سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اہم ملکی پالیسیاں فوج اور ایجنسیوں کے بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائیں،ایسا نہ کرنے سے ہی موجودہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔یہاں اس بات کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی کی زرداری حکومت نے ہی فوج اور ایجنسیوں سے تمام اختیارت پارلیمنٹ کو منتقل کرنے سے متعلق شہید بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان طے پائے سمجھوتے کی دھجیاں بکھیر دیں۔ تاہم ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کو بالا تر بنانے کے لئے سیاسی حکمران، سیاست دان اعلٰی کردار کے مظاہرے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ یہ اہم ترین معاملہ ان کی ترجیحات سے ہی خارج ہو گیا۔کرپشن،اقرباءپروری،علاقائی،خاندانی سیاست کے جاری رہتے ہوئے ہمارے سیاست دان اس کردار کو نہیں پہنچ سکتے جس سے اقتدار پارلیمنٹ کو منتقل ہو سکے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 620143 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More