تصادم سے گریز وقت کی اہم ضرورت

افغانستان میں امریکہ کو دو مسائل کا سامنا ہے جسکا حل امریکہ کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں افغانیوں نے عالمی لٹیروں اور قابضین فوجیوں کا مار مار کر بھرکس نکال کر رکھ دیا جس سے امریکی اور عالمی افواج کی شاہانہ فوجی معاشی اخلاقی قوت اور طاقت کا بت نہ صرف دھڑام سے منہدم ہوگیا بلکہ چور چور ہوچکا ہے۔ افغانستان جہاں قبضہ گینگ کے گورے چٹے سپاہیوں کے لئے قبرستان بن چکا ہے اور افغان دھرتی پر امریکہ کے لئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ کوئی اور ملک امریکی جنگ لڑے تاکہ وہ باعزت طریقے سے افغان دھرتی سے انخلا میں کامیاب ہوسکیں۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ امریکہ اپنی منہدم فوجی طاقت کو دوبارہ نئی بنیادوں پر استوار کرنے کی خاطر کسی ایسے ملک کی تلاش ہے جہاں فوجی مشق ماری سے دوبارہ بلے بلے ہوجائے۔ جہاں تک امریکہ کی پہلی خواہش کا تعلق ہے امریکہ افواج پاکستان کو دوبارہ جنگ کی بھٹی میں دھکیلنے کی کوشش کرتا آرہا ہے کیونکہ پاکستانی فوج کے علاوہ روئے ارض کی کوئی فوجی طاقت طالبان سے ٹکرانے کا ملکہ نہیں رکھتی۔ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ ناٹو ممبران یورپین فوجیں اس لاحاصل و لایخل جنگ سے اکتا کر واپسی کے لئے بے چین ہیں۔یورپی فورسز کے دستے طالبان کا نام سنتے ہی فیوز ہوجاتے ہیں۔وہ سڑکوں پر سفر کرنے اور اپنی زندگی کے تحفظ کے لئے طالبان کو بھاری رشوت ادا کرتے ہیں تاکہ گوریلہ کاروائیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ پاکستان دس سال تک امریکیوں کے لئے اپنے ہم وطنوں سے لڑتا رہا اب پاکستان امریکن مفادات کے لئے شمالی وزیرستان میں نہ تو فوجی آپریشن کا خواہاں ہے بلکہ ہمارے کندھے اپنے ہم وطنوں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے بیکار ہوچکے۔پاکستان اندرونی طور پر گوناں گوں مسائل کا شکار ہے۔ پاکستان میں قدرتی افات کی یلغار سیلاب کی جھنکار دہشت گردی کی بھرمار اور سیاسی انتشار کا طو مار تقاضا کرتے ہیں کہ امریکی جنگ سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔ امریکہ کی دوسری خواہش اپنی عزت سادات اور عزت نفس کی بحالی ہے۔امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو دفاعی معاشی اور معاشرتی مسائل میں الجھا دیا جائے جو اسے بہت کمزور بنا دیگا اور پھر وہ امریکی احکامات کے سامنے بلاچوں چراں سر خم تسلیم کرنے پر تیار ہوجائے گا۔امریکہ پاکستان کی فوجی امداد و استعانت سے شمالی وزیرستان اور بلوچستان کے چند علاقوں میں فوجی مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے جسے پاک فوج نے یکسر رد کردیا۔ اگر پاکستان امریکی شرائط کا پالن نہیں کرتا تو امریکہ سپرپاور کے اعزازسے تہی داماں ہوسکتا ہے چین امریکہ کی جگہ عالمی قائد کی زمہ داریاں سنبھالنے کے لئے بیقرار ہے۔ اگر پاکستان امریکی مطالبات کے سامنے دوزانوئے سرنڈر کرتا ہے تو پاکستان کی سلامتی بقا اور سیکیورٹی خطرات کی زد میں اجائے گی۔ امریکہ نے پاکستان کو زک پہنچانے کے لئے نہ صرف مالی امداد روک دی ہے۔امریکہ پاکستان کو چاروں اطراف سے گھیرنا چاہتا ہے۔IMF اور ورلڈ بنک کو روک دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہر قسمی تعلقات اور مالیاتی امور کا تیاپانچہ کردیا جاوے۔imf نے اسی سال کے آخری ہفتے میں پاکستان کو11 ارب ڈالر کی رقم ادا کرنی تھی مگر وائٹ ہاؤس نےimf کو رقم کی فراہمی روک دینے کا گرین سگنل دے دیا۔ امریکی الزامات فریب اور فسوں کاری کا مجموعہ ہے۔امریکی پاکستان کو پے درپے دھمکیاں دیکر ناعاقبت اندیشی اور نادانی کا اظہار کررہا ہے۔ماضی کے جھرونکوں میں امریکی تاریخ سینکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے جو ایک طرف امریکی جنگی جنون کی شدت کا پتہ دیتے ہیں تو دوسری طرف امریکی قیادت کے سازشی ازہان کے ہنر سامنے اتے ہیں کہ کسی ملک پر شب خون مارنے کی خاطر لغویات دشنام طرازی اور جھوٹ کا استعمال امریکی قوم کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ کیوبا امریکہ کے جنوب مغرب میں ایک جزیرہ ہے۔ امریکی صدر کینڈی نے1962 میں کیوبا کے خلاف فوجی آپریشن کے لئے راہ ہموار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ایجنسیوں کو واضح ثبوت مل چکے ہیں کہ سوویت یونین کے تیار کردہ خطرناک ہزاروں میزائل کیوبا میں موجود ہیں جو امریکہ کے بڑے شہروں کو تباہ کرسکتے ہیں۔ فیڈرل کاسترو کیوبا کے حکمران تھے۔ کینڈی نے1962 میںامریکی سلامتی کو ایشو بنا کر اعلان کیا کہ میں نے کیوبا کی فضائی اور زمینی ناکہ بندی کا حکم دے دیا ہے اور یہ سلسلہ میزائلوں کو تلف کئے جانے تک جاری رہے گا۔ کینڈی نے مطالبہ کیا تھا کہ uno کیوبا میں میزائلوں کو ناکارہ بنانے کا کام سنبھالے۔1960کی دہائی میں سرد جنگ زوروں پر تھی۔ سوویت یونین بھی سپرپاور تھی جس کے اسلحہ خانے بین البراعظمی میزائلوں ہزاروں مہلک جوہری ہتھیاروں سے بھرے ہوئے تھے۔ ماسکو کیوبا کا سرپرست تھا۔کینڈی نے رشین صدر خروچیف کو للکارا کہ اگرکیوبا کامحاصرہ ختم کرانے کی کوشش کی تو ڈٹ کر جواب دیا جائیگا۔ سپرپاورز کے درمیان کشیدگی روز بروز بڑھ رہی تھی۔ خروچیف نے رد عمل میں ایٹمی آبدوزوں نیوکلیر وار ہیڈز اور امریکی شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے والے ہزاروں میزائلوں سے لدے ہوئے بحری جہاز بحراوقیانوس کے پانیوں میں اتار دئیے جو کیوبا کی جانب بڑھنے لگے۔سوویت یونین کے پاس ایسے جوہری بم تھے جنکی قوت ہیروشیما اور ناگاساکی پر پھینکے جانیوالے ایٹمی بموں سے دس فیصد زائد تھی۔دنیا ٹھٹھڑ کر رہ گئی ہر کوئی دم بخود تھا کہ پہلا جوہریattack کہاں ہوگا اور پہل کون کرے گا؟ رشین راہنماوں کا استد لال تھا کہ بحر اوقیانوس کھلا سمندر ہے جس میں کوئی ملک آزادی سے سفر کرسکتا ہے۔ دنیا دم بخود تھی کہ ایٹمی ہتھیار وں کی تباہ کاریاں کس کس خطے میں موت کا رقص بسمل لگے؟ رشین افواج کے خلاف امریکہ جوہری وار ہیڈز کہاں استعمال کرے گا؟ دنیا چپ سادھے ہوئے تھی۔ اکتوبر1962 میں حالات نے پلٹا کھایا۔امریکہ نے کیوبا کی ناکہ بندی ختم کردی تو دوسری طرف خروچیف نے کیوبا سے میزائل ایٹمی ہتھیار بحری جہاز سمیت فوجی دستوں کی واپسی کا اعلان کردیا۔ امریکہ نے کیوبا پر شب خون نہ مارنے کا اعلان کیا۔دونوں سپرپاورز کے پاس انسانیت سوز اٹامک بموں میزائلوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔امریکہ کے وزیر دفاع رابرٹ میگنامیران نے میڈیا کو بتایا تھا کہ امریکہ کے پاس 200بین البراعظمی میزائل جبکہ ماسکو کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔پاکستان کی مذہبی جماعتیں اور سیاست سے منسلک عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے رہنماؤں کی اکثریت جذباتی پن کے مرض میں مبتلا ہے جو امریکہ کے خلاف جنگ لڑنے کی صدائیں دے رہے ہیں۔وہ ایٹمی طاقت کی روشنی میں مقابلے کے نعرے لگارہے ہیں۔اگر کسی مرحلے پر پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوجائیں اور پاکستان ایٹمی ہتھیار وں کے استعمال کی آپشن کو روبہ عمل لے اتا ہے تو ہمارے میزائل افغانستان کے امریکی اڈوں اسرائیل اور قطر میں امریکی فورسز کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ کہیں اور استعمال نہیں کئے جاسکتے ۔اسکے رد عمل میں جو تباہی امریکی ایٹمی حملوں کی صورت میں سامنے اگی اسکا تصور بھی روح کو لرزا کر رکھ دیتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں برپا ہونے والی جوہری تباہ کاریوں کی تفاصیل پڑھ کر دیکھیں کہ دانتوں میں پسینہ آجاتا ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں کوئی ایسا جانثار دوست ملک ایسا نہیں جو ہماری آہ و پکار پر دوڑا چلا آئے۔ایران خود کئی سالوں سے معتوب بنا ہوا ہے۔اسرائیل اور امریکہ کسی مناسب موقع پر جوہری کارخانوں پر حملوں کی سازشوں کے تانے بانے بن رہے ہیں ویسے ایران خطے میں اپنا مقام تلاش کرنے کی خاطر سرگرداں ہے۔ چین ہمارا دوست ملک ہے جو کسی ناگہانی آفت پر ہمیں ڈالروں اور جنگی اسلحہ جات تو مہیا کرسکتا ہے۔ چین کی تاریخ اپنے آپکو آگ کے شعلوں سے دور رہنے سے عبارت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان امریکی شہہ پر پاکستانی سرحدوں کو روند سکتا ہے۔آرمی چیف جنرل کیانی نے حال ہی میں پاک آرمی کے شعبے آرٹلری ڈویژن کی تقریب میں ولولہ انگیز تقریر کی کہ ہم نے جنگ کی کڑی قیمت چکائی ہے جس میں68 ارب ڈالر کا معاشی نقصان38 ہزار ہلاکتیں شامل ہیں۔پانچ ہزار فوجی اپنی جانیں گنواچکے۔ ماضی قریب میں ہم نے136 امریکی فوجیوں کو واپس بھیج دیا۔ کیانی نے پرعزم لہجے میں کہا کہ اگر ناٹو کے فوجیوں نے اپنے بوٹ ہماری ماں دھرتی پر رکھنے کی جرات کی تو ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ پرویز کیانی کے مصمم ارادے قابل تعریف ہیں۔وہ ماضی میں آئی ایس آئی کے سرخیل ڈی جی ملٹری آپریشن اور کور کمانڈر کے عہدوں پر کام کرچکے ہیں ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ امریکہ اور پاکستان کی فوجی طاقت کا تناسب کیا ہے۔امریکہ عراق افغانستان اور لیبیا میں جو حشر کرچکا ہے سب نے دیکھ رکھا ہے۔پاکستان اور ان مسلم ریاستوں میں ایک فرق ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں جبکہ وہ اس گوہرنایاب سے محروم ہیں۔ امریکہ اگر پاکستان کے خلاف کوئی جارہانہ اقدام کرتا ہے تو پھر وہ خود بھی اسی آگ میں جلے گا۔ کیا کیوبا والے معاملے پر واشنگٹن سے زائد عسکری قوت رکھنے والا خروشیف اگر اپنی افواج کو واپس بلوا کر جنگ کی شعلہ بربادیوں سے نہ صرف اپنے آپکو بلکہ روئے ارض کو محفوظ رکھ سکتا ہے تو کیا اسی معاملے کے تناظر میں امریکہ اور پاکستان تمام مشکلات کو سفارتی زرائع سے حل نہیں کرسکتے؟49 برس پہلے خروچیف نے ہزاروں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس سوویت فورسز کو واپس بلوالیا تھا تو کیا امریکی تھنک ٹینکس میں اتنی دانش نہیں کہ وہ فرعونیت سے باز رہیں؟ اگر کابل میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھی امریکہ نے پاکستان کے خلاف محاز کھولا تو پھر اسے سوویت یونین کے انجام سے اشنا ہونا چاہیے۔پاکستان کو ہر موڑ پر جنگ ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔پاکستان ہزاروں سنگین مسائل سے دوچار ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری فوجی سیاسی اور عسکری قیادت باہم شیر و شکر بنکر ایسی متوازن پالیسی ترتیب دے جو بھوک و ننگ پسماندگی و درماندگی اور بیروزگاری کے قبرستان میں قریب المرگ قوم پاکستان کو جنگ کی بجائے معاشی جمہوری سیاسی اور صنعتی انقلاب کی راہ پر گامزن کردے۔ حکومت پاکستان نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرکے سیاسی قائدین اور عسکری اداروں کے سربراہوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے احسن اقدام کیا ہے۔جب تک سترہ کروڑ پاکستانی سیاسی اور مذہبی رہنما دفاع پاکستان کے لئے افواج پاکستان کی پشت پر موجود ہیں تب تک کوئی استعماری پاکستان میں کوئی شرانگیزی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 129159 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.