اسرائیلی مظالم اور بین الاقوامی قانون

حقوق کا سنہرا دور کہا جاتا ہے ، انسانیت کے درس دیے جاتے ہیں ،انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے، اقوام متحدہ کے گن گائے جاتے ہیں یوں دکھایا جاتا ہے کہ مغرب نے ترقی کر کے انسانیت کے اصول و حقوق دریافت نہ کیے ہوتے تو انسان تاریک دور میں رہ جاتا اور کبھی ترقی نہ کر پاتا ، گویہ یہ ساری ترقی جو انسان نے کی ہے یہ مغرب کا اس پر بہت بڑا احسان ہے۔

مثلا بین الاقوامی قوانین جسے مغرب انسانیت کے لیے اپنی سب سے بڑی خدمت تصور کرتا ہے اس میں جہاں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق کچھ ایسے ضابطے طے کیے ہیں جس کی پاسداری کرنا تمام ممالک پر لازم ہے ، اسی قانونی فہرست میں جنگ سے متعلق قوانین بھی موجود ہیں، یعنی اگر کسی خطے میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس دوران کن چیزوں کا خیال رکھنا فریقین پر لازم ہوگا اور جو گروہ ان کی خلاف ورزی کرے گا گویا وہ بین الاقوامی قوانین کی مخالفت کرتا ہے اور پھر بین الاقوامی قوانون کے مطابق اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا، مثلاً:

1- جینیوا کنوینشن پروٹیکشن آف سولینس ان ٹائیم آف وار آرٹیکل 18 کے تحت ہسپتالوں کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ کسی بھی صورتحال میں ہسپتال پے حملہ نہیں کیا جائے گا۔

اسی طرح ارٹیکل 23 : اس ارٹیکل کے تحت ہسپتال ،میڈیکل اسٹور اور مذہبی عبادت گاہوں پر عام شہریوں کو جانے کی اجازت ہوگی انکا راستہ نہیں روکا جائےگا ، 15 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ضروری کھانے پینے کی اشیاء کے لیے راستہ دیا جائے گا تاکہ ضروری اشیاء فراہم کی جا سکیں۔

ان قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری حالیہ جنگ میں اسرائیل کی طرف سے جتنی بھی کارروائیاں کی گئی ہیں وہ سب بین الاقوامی قوانین کے خلاف نظر آتی ہیں۔

مثلاً اس جنگ میں اسرائیل کی طرف سے جہاں عام شہریوں پر بمباری کی جارہی ہے وہاں بچوں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے سے روکا گیا ، زخمیوں کو علاج کی سہولت میسر نہیں ، بین الاقوامی فلاحی تنظیموں کو روکا گیا ہے، بچوں و عام شہریوں کو قتل۔

اسرائیل نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ ہسپتال پر شدید بمباری کی ہے، جس میں پانچ (500) سے زیادہ بچے ، عورتیں ، بوڑھے و نوجوان شہید ہو گئے ، ، کیا یہ بین الاقوامی قانون ( International Law ) کی خلاف ورزی نہیں ، اقوام متحدہ بھی موجود ہے جس کا مقصد ریاستوں کے درمیان امن قائم کرنا ہے اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

یہ ہسپتال پہ حملہ اور اس سے پہلے بچوںن اور عام شہریوں کو قتل و غارت کرنا بین الاقوامی قانون ، انسانیت ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے لیکن اقوام متحدہ خاموش تماشائی بن کر مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے لہو کی خون کی ندیاں دیکھ رہا ہے انسانیت فلسطینی مسلمانوں کہ لیے نہیں ہے ، انسانی حقوق فلسطینی مسلمانوں کہ لیے نہیں ہیں ، امن فلسطینی مسلمانوں کہ لیے نہیں ہے۔

کیا اقوام متحدہ ناکام نہیں ہو گیا اپنے مقاصد میں ؟ یا بظاھر یہ مقاصد سنہری خواب کی طرح دکھائے گئے ہیں اصل اندرونی مقاصد کچھ اور ہیں جو بظاھر حالات و اقوام متحدہ کی خاموشی سے نظر آ رہا ہے ۔ شاید اقوام متحدہ تو اپنے مقاصد میں کامیابی کی طرف جا رہا ہے، سوال مسلم ممالک اور او آئی سی ( OIC) کے لیے ہے کہ امت مسلمہ نے فلسطینی مسلمانوں کی ان حالات میں کیا مدد کی ہے؟

مسلم ممالک اور او آء سی (OIC ) بھی اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں، نہ مظالم دکھائی دے رہے ہیں نہ ان بچوں کی ترٹپتی ہوئی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلم ممالک مل کر فلسطینیوں کی مدد کریں اور امت وسط ہونے کا عملی ثبوت دیں۔

Islahuddin bhutto
About the Author: Islahuddin bhutto Read More Articles by Islahuddin bhutto: 2 Articles with 611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.